ہم استاد کے ساتھ کیا کرتے ہیں

میرے والد محترم استاد تھے وہ ہمیشہ مقررہ وقت سے پندرہ منٹ قبل سکول پہنچ جاتے وہ دن بھر پڑھاتے اور چھٹی کے بعد سکول کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر طلبہ کی کاپیاں چیک کرتے اس کام میں انہیں کبھی دو اور کبھی تین گھنٹے لگ جاتے،شام کو تھکے ہارے گھر آتے ‘کھانا کھاتے اور اگلے دن کے لیکچرز کی تیاری میں لگ جاتے،تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی وہ طلباء کی بھرپوررہنمائی کرتے،کبھی طلباء کو تقاریر کیلئے تیار کررہے ہیں اور کبھی بیت بازی کیلئے،سکول سے’’الامین‘‘کے نام سے ایک ماہنامہ نکلتا تھا وہ اس کے بھی ایڈیٹرتھے‘ سکاؤٹنگ کا شعبہ بھی ان کے پاس تھا انہوں نے زندگی میں کبھی ٹیوشن نہیں پڑھائی وہ کہتے تھے ٹیوشن نے تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا ہے اگر طلباء نے ٹیوشن سنٹروں پر ہی جانا ہے تو پھر سکول اور استاد کا کیا مقصد؟ انہوں نے 40سال تک تعلیم کے میدان میں قوم کی خدمت کی ریٹائرمنٹ سے چند سال قبل وہ پرنسپل بنائے گئے سہگل سکول کے ساتھ سہگلوں نے اساتذہ کیلئے ایک رہائشی کالونی بھی بنائی تھی جہاں پرنسپل کی کوٹھی بھی ہے ہم خوش تھے کہ اب ہم کوٹھی میں رہیں گے،گھر میں مشورہ ہوا تو والد صاحب نے بتایا اگر کوٹھی میں شفٹ ہوئے تو 8سو روپے کٹیں گے حساب لگایا تو پتہ چلا اگر کوٹھی میں رہنے کا مزہ لینے کیلئے 8سو کٹوائے تو ماہانہ خرچ پورا نہیں ہوگا لہٰذا طے پایا جہاں ہیں وہیں رہا جائے اور کوٹھی میں رہنے کا خیال دل سے نکال دیا جائے ہمیں بڑا افسوس ہوا مگر سوائے افسوس کے ہم کر بھی کیا سکتے تھے کیونکہ ہمیں معلوم تھا ہمارے والد صاحب جو کچھ کماتے ہیں وہ ہم پر خرچ کردیتے ہیں اور ان کی کمائی سوائے تنخواہ کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔جس زمانے میں میرے والد محترم نے ایم اے کیا اس وقت پورے علاقے میں دو چار ہی لوگ تھے جنہوں نے ایم اے کر رکھا تھا،ہمارے گاؤں میں ہمارے ایک رشتہ دار نذیر اعوان صاحب نے ہمارے والد صاحب سے پہلے ایم اے کی ڈگری حاصل کررکھی تھی اس زمانے میں کسی بھی محکمے میں نوکری آسانی سے مل جاتی تھی مگر والد صاحب نے قوم کی خدمت کیلئے تعلیم کے شعبے کا انتخاب کیاانہوں نے اس شعبے میں انتھک محنت کی سکول اور طلبہ ہی ان کا سب کچھ تھے لیکن40 سال کے بعد جب وہ ریٹائر ہوئے توانہیں اتنے پیسے بھی نہ ملے کہ نیا مکان بنا لیتے، کوئی چھوٹی موٹی گاڑی خرید لیتے یا کسی کاروبار کے متعلق سوچتے ،انہیں میڈیکل کی بھی کوئی سہولتمیسرنہیں تھی یعنی پینشن اور صرف پینشن اور وہ بھی انتہائی واجبی۔میرے ایک چچا میٹرک کرکے فوج میں بھرتی ہوئے انہیں وہ سہولتیں میسر تھیں جن کا میرے (19 گریڈ کے پرنسپل) والد صاحب تصور بھی نہیں کرسکتے تھے یعنی گاڑی‘ کوٹھی‘ ملازم ،میڈیکل کی عمدہ سہولت‘ بچوں کیلئے وظائف‘ بچوں کی تعلیم کیلئے اعلیٰ سکول ‘لش پش اور ٹھکا وغیرہ وغیرہ، میرے ایک چچا میٹرک کرکے بینک میں ملازم ہوئے کراچی سے دبئی ٹرانسفر ہوگئی آج وہ ارب پتی ہیں،میرا ایک کزن او جی ڈی سی میں ڈرائیور بھرتی ہوا اس کی تنخواہ میرے والد صاحب سے زیادہ تھی!اسے میڈیکل کی بہترین سہولت میسر تھی ہر 45 دن بعد پندرہ دن کی چھٹی ملتی، سردیوں گرمیوں کے کپڑے ملتے‘ بچہ پیداہوتا تو الاؤنس ملتا‘ بچہ سکول داخل ہوتا تو الاؤنس ملتا‘ وہ او جی ڈی سی کو چھوڑ کر ZTBL میں آگیاوہاں بھی اسے ویسی ہی سہولتیں میسر ہیں۔میرا سب سے چھوٹا بھائی خالد لاڈلا تھا پڑھائی میں اس کا دل نہیں لگتا تھا جوں توں کرکے اس نے میٹرک کیا اور کالج میں پہنچ گیا کالج میں اسے سیاست کا چسکا پڑ گیا آج پورا ضلعاسے جانتا ہے لوگ اس کی بات سنتے ہیں‘ اس کی سفارش مانی جاتی ہے ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ بھائیوں کو جب بھی کوئی کام پڑتا ہے تو ہم اپنے سیاستدان بھائی سے رجوع کرتے ہیں۔

پاکستان میں سب سے پیچھے‘ سب سے نیچے ‘ سب سے کمتر اور سب سے کمزور اگر کوئی ہے تو وہ استاد ہے۔یہ کوئی جذباتی بات نہیں ہے آپ اپنے گردوپیش کا جائزہ لے لیں‘آپ کے محلے کے ایم اے پاس استاد کا کیا حال ہے اور ایف اے پاس لیفٹیننٹ کن مزوں میں ہے‘ آپ کے سکول کا ہیڈ ماسٹر کس حال میں ہے اور آپ کے علاقے کا پٹواری کس دنیا میں رہتا ہے۔آپ سروے کر لیں جو لوگ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر یا با الفاظ دیگر سکولوں کالجوں سے بھاگ کر پولیس ‘فوج یا کسی اور سرکاری محکمے میں بھرتی ہوئے وہ پرآسائش زندگی بسرکررہے ہیں اور استاد بیچارہ ابھی تک بمشکل موٹر سائیکل تک پہنچا ہے۔ہمارے ملک میں استاد کے قلم میں وہ طاقت نہیں ہے جوسپاہی کی وردی میں ہے۔استاد کا اتنا رعب نہیں ہے جتنا ایک حوالدار کا۔استاد کی مالی حالت سے پی آئی اے کے خاکروب کی مالی حالت اچھی ہے،استاد اتنا قیمتی لباس نہیں پہن سکتا جتنا بینک کا کلرک پہنتا ہے،استاد اپنے بچوں کو ان اداروں میں تعلیم نہیں دلوا سکتا جن میں فوجیوں،تاجروں،بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے بچے پڑھتے ہیں،استاد اپنے بچوں کو وہ نہیں کھلا سکتا جو موٹروے کا اے ایس آئی کھلاتا ہے۔معاف کیجئے گا میرے ملک کا استاد ہیرو نہیں بلکہ میرے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ندیم، عطااﷲ عیسی خیلوی،سلطان رہی،مصطفٰے قریشی،شان ،وسیم اکرم اور شاہد آفریدی ہیرو ہیں،میرے ملک میں استاد کو نہیں بلکہ ریما،میرا اور وینا ملک کو داد ملتی یہی وجہ ہے آج آپ سو بچوں سے پوچھیں ’’بیٹا تم کیا بنوگے‘‘ ایک بچہ بھی یہ جواب نہیں دے گا کہ میں استاد بنوں گا۔ہربچے کی خواہش ہے وہ ڈاکٹر‘ پائلٹ‘ انجینئر‘ ایس پی‘ بیورو کریٹ، فوجی افسر، کھلاڑی یا فلمی ہیرو بنے ، ہر قابل اور ذہین طالبعلم ایف اے ایف ایس سی میں کوشش کرتا ہے کہ اس کا میرٹ بنے اور وہ ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے۔ہر استاد کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح کسی اور محکمے میں فٹ ہوجائے، آج کسی استادکی یہ خواہش نہیں کہ اس کی طرح اس کا بیٹا بھی استاد بنے!!!

استاد کو زبانی کلامی ’’محترم ترین چیز‘‘ کہنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا،ضروری ہے استاد کو معاشرے میں اعلیٰ مقام اور بہترین سہولتیں دی جائیں،جب ایسا ہوگا تو ذہین اور باصلاحیت لوگ اس مقدس پیشے کو اپنائیں گے،تعلیمی اداروں کواچھے ‘قابل اور محنتی اساتذہ ملیں گے تو معیار تعلیم خود بخود بلند ہوجائے گا۔ آپ استاد کو معاشرے میں باعزت مقام، اچھی تنخواہ اور سہولتیں دیں‘ اساتذہ کا انتخاب میرٹ پر کریں‘ ٹیوشن پر پابندی لگادیں تو اگلے دس برسوں میں پاکستان دنیا کے صف اول کے ممالک میں کھڑا نظر آئے گا،جس معاشرے میں اچھی مائیں اور اچھے اساتذہ ہوں عروج اس معاشرے کا مقدر بن جاتا ہے۔
(نوٹ:استاد سے میری مرادوہ لوگ نہیں جنہوں نے اس مقدس شعبے کو بزنس بنا رکھا ہے)

Saeed Nawabi
About the Author: Saeed Nawabi Read More Articles by Saeed Nawabi: 23 Articles with 33120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.