آزاد ملک کے آزاد شہری

پاکستان دنیا کا شائد داحد ملک ہوگاجہاں ملک کے ساتھ ساتھ قوم بھی آزاد ہوئی اس قوم کی آزادی ہماری روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر دیکھائی دیتی ہے قانون توڑنا تو یوں سمجھیں اس قوم کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ قائرین اگر آپ امیر ہیں اور چار پیسے آپ کی جیب میں ہیں تو آپ کچھ بھی کریں آپکو کوئی نہیں پوچھ سکتا بلکہ آپ کو شاباش دیں گے، آپ سگنل توڑ سکتے ہیں آپ آٹے اور گھی کی لائن توڑ سکتے ہیں آپ میرٹ کا جنازہ نکال سکتے ہیں ،آپ جلسے جلوسوں کے دوران سرکاری املاک توڑ سکتے ہیں، ٹرانسفارمر اور واپڈا کے دفاتر جلا سکتے ہیں آپ جہاں چاہیں جی ٹی روڈ بلاک کردیں آپ جس گلی اور روڈ پر چاہیں سپیڈ بریکر بنا دیں آپ بجلی کے تاروں پر کنڈے ڈال لیں غرض آپ کا جو جی چاہتا ہے کرلیں کوئی آپ کو پوچھے گا نہیں کیونکہ آپ آزاد ملک کے آزاد شہر ی ہیں ۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک سے انگریزوں کے جانے کے بعد وی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ نہ ہو سکااور ہم اپنے وی وی آئی پی پروٹوکول کے لیے سرکا ری گاڑیوں کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔اس معاملے میں ہمار ی غلام ابن غلام اشرافیہ کے پالتو غنڈے اپنے مالک سے بھی دو ہاتھ آگے دیکھائی ہیں ۔

وی وی آئی پی پروٹوکول کی تازہ مثال رکن پنجاب اسمبلی راوٗ کاشف کی ہے جس نے تحصیل ہیڈکواٹر ز ہا سپٹل THQ سمندری میں ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹرسعید اقبال واہلہ پر صرف اس لیئے تھپٹروں کی بارش کر دی کہ وہ ایم پی اے کے احترام اور پروٹوکول کے لیے کھٹرانہ ہواتھا ۔غنڈاصفت ایم پی اے کی سفاکی یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اسکے ہمراہ آئے ساتھیوں نے سٹیتھوسکوپ سے حملہ بھی کر دیا جسکے نتیجے میں ڈاکٹر سعید اقبال واہلہ زخمی ہوگئے۔

ڈاکٹر سعید اقبال واہلہ کا قصور یہ تھا کہ وہ ہسپتال میں اپنی ڈیوٹی پر معمور تھے اور مریضوں کو چیک کر رہے تھے انہوں نے اپنے فرض کو جھوٹی شان و شوکت پر مقدم رکھا شاید وہ وزیر اعلی پنجاپ کے آئے روز دیئے جانے والے بھاشن سے متاثر تھے کہ سرکاری مشینری اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کسی کو خاطر میں نہ لائیں ۔ لہزا شائدڈاکٹرنے سوچا کے مریضوں کی خدمت پروٹوکول پر افضل ہے لیکن سعید احمد واہلہ غلطی پر تھے انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے تھا کہ میرٹ کی باتیں صر ف کتابوں اور کاغذوں پر ہی اچھی لگتی ہیں۔

کچھ دن قبل لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک خاتون فرزانہ بی بی کو پسند کی شادی کرنے پر لڑکی کے بھائیوں نے بھری کچری میں اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا کیونکہ مارنے والے آزاد ملک کے آزاد شہر ی ہیں ہمارے حکمران ٹس سے مس نہ ہوئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔جب برطانیہ نے پاکستان سے آزادنہ تحقیقات کا مطالبہ کیاتو ہمارے وزیراعظم صاحب کو بھی ہوش آیاکہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں ۔
مجھے یہ تحریر لکھتے ہوئے سعادت حسن منٹو کا ناول ـ ْ نیا قانون ْ جو 1935؁ء کے انڈیا ایکٹ کے متعلق ہے یاد آگیاجس میں ایک استاد منگوکوچوان کریکٹر ہے جو اپنے ساتھی کوچوانوں میں پڑھا لکھا تصور کیا جاتا ہے ۔وہ اخبا روغیرہ بھی تھوڑا بہت پڑھ لیتا تھاایک دن اسکے تانگے پر دو کیل حضرات سفر کر رہے تھے اور وہ آپس میں نئے قانون کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔ استاد منگو انکی باتیں غور سے سنتا رہا ۔پھر ایک دن جج اسکے تانگے میں بیٹھے ان سے بھی اس نے کچھ اسی قسم کی باتیں سنیں ۔پھر اس طرح ایک دو اور لوگوں سے سن کر استاد منگو کوچوان کو یہ تاثر ملاکہ یکم اپریل1935 ؁ء کو ہندستان آزاد ہو جائے گا اور وہ اس دن کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگا اس آزادی کے سلسلے میں وہ اپنے کوچوان ساتھیوں کو بھی اعتماد میں لیتا رہا ۔ایک گورا اکثر استاد منگو کوچوان کے تانگے پر سفر کرتا تھااور وہ اسے پیسے نہیں دیا کرتاتھا ۔

یکم اپریل کی صبح استاد منگو صبح صبح اٹھا اور تانگہ نکال کر شہر کی سٹرکوں پر گشت کرنے لگا آج وہ بہت خوش تھا چونکہ بقول اسکے وہ نیاقانون نافذ ہونے کے بعد آزاد ہو چکاتھا ۔اسی مسروری کے عالم میں وہی گورا اسکو مل جاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ وہ اس کو شاہی محلے لے چلے استاد منگو اسکو بیٹھا لیتا ہے اور شاہی محلے جا کر اتار تا ہے جونہی استاد منگو نے اس سے پیسے مانگے تو گورا فورا غصہ ہو ا اور انگریزی میں اسے گالیاں بھی دیں کہ وہ گورے سے پیسے مانگتا ہے-

استاد منگو اسکو کہتا ہے پیسے دیتا ہے یا پھر تمھاری ٹھکائی کروں چونکہ آج ہندوستان آزاد ہے اسی تو ں تکار میں استاد منگوگھوڑے کی چھمک سے گورے کی پٹائی کر دیتا ہے گورے کے شور ڈالنے پر دو پولیس اہلکار وہاں آجاتے ہیں اور استاد منگو کو پکڑکر تھانے لے جا کر بند کر دیتے ہیں استاد منگو ان سے کہتا ہے کہ مجھے کیوں پکڑ کر بند کرتے ہوگورے کو گرفتار کروآج ہندستان آزاد ہو گیا ہے ۔نیا قانون آگیا ہے ۔نیاقانون آگیا ہے۔ گورے نے میرے پیسے نہیں دیئے اسے بند کرو مگر کوئی اسکی بات نہیں سنتا اس ڈرامے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ قانون صر ف کتابوں میں ہوتا ہے عملاً کچھ بھی نہیں۔

پاکستانی بھی کسی کم نہیں ہیں ۔یہ آزاد ملک کے شہری ہیں یہاں ھزاروں قانون ہیں مگر بدقسمتی سے کسی ایک قانون پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا۔کیونکہ کہتے ہیں کہ قانون ایسا جال ہے جس میں چھوٹی مچھلی تو پھنس جاتی ہے اور بڑی مچھلی جال پھاڑکر نکل جاتی ہے۔
 
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 168121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.