شوز اور ڈرامے

آج کل Shows میں جو ڈرامے اور ڈراموں میں جو کچھ Show ہو رہا ہے سب عقل و فہم سے بالا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آخر کیا چل رہا ہے۔؟؟ اِس تمام ڈھونگ اور دو نمبری سے کیا کرنا مقصود ہے؟؟ بے ڈھنگی و بے ترتیبی حدوں کو پھلانگے ہوۓ ہے۔ کہیں وینا ملک کا نکاح پہ نکاح پڑھایا جا رہا ہے، کہیں کوئی جادو نگری بنا کر تماشے دِکھا رہا ہے،، جن نکا لے جا رہے ہیں، کہیں Summer Camp لگے ہوۓ ہیں تو کہیں فحش رقص و سرود جاری و ساری ہے۔ جن کو اپنے گھر کے افراد کے مکمل اور درست کوائف معلوم نہیں وہ دنیا بھر کے حالات و واقعات پر گمراہ کن تجزیے کر رہے ہیں، کہیں لڑکوں اور لڑکیوں کے دو ٹولے بنا کر اِنتہائی عجیب و غریب قسم کے کھیل تماشے ہو رہے ہیں اور کہیں ساس بہو کے طعانے چل رہے ہیں تو کہیں دو بازاری عورتوں کو لڑتے دکھایا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں اُس وقت تو اخیر ہی ہوگئی جب میں نے ایک چینل پر دیکھا کے جناب محترم ایدھی صاحب اور اُن کی عظیم اہلیہ بلقیس اِیدھی صاحبہ مدعو ہیں۔۔ دل میں یہ تھا کہ ان عظیم ہستیوں کے کارناموں کے مطلق جان کر علم میں اِضافہ ہوگا اور کچھ کرنے کے جزبے کو طراوت ملے گی۔۔ لیکن Show کا ایجنڈہ اور عزم کچھ ہٹ کے کرنے کا تھا پس Show کے Anchor اپنے گنہونے کام میں جُتے ہوۓ تھے اور بجاۓ ان عظیم ہستیوں کے کارناموں پر روشنی ڈالنے کے کمال بے تکلفانہ انداز میں اوچھے اوچھے سوال داغے جا رہے تھے۔ جن میں کچھ یوں تھے۔
ایدھی صاحب آپ نے بلقیس صاحبہ کو کبھی سینمہ میں فلم دِکھائی ہے؟
اچھا بلقیس صاحبہ ایدھی صاحب آپ کو روز فون کرتے ہیں۔؟
چلیں ایدھی صاحب اپنے ہاتھوں سے اپنی بیگم صاحبہ کو چوڑیاں بھی چڑھائیں۔
بلقیس صاحبہ کے سر پر سرخ رنگ کا ڈوپٹہ اوڑھ کر نئی نویلی دلہن کی طرح شرمانے کو کہا جاتا ہے۔
کیا تھا یہ سب اور اس سب کا مقصد۔۔۔؟؟؟
یہ سب دیکھ کر میں نے تو دل میں بُرا جان کر Channel تبدیل کر لیا۔
تھوڑی دیر سوچ بچار کے بعد اپنی حقییر سی سوجھ بوجھ کے مطابق اِس نتیجے پر پہنچا کہ Commercialism اور پیسے کی حوس نے Media والوں کو اندھا کرکے راکھ دیا ہے۔
پیسہ اور مشہوری۔۔۔۔ ہے ہو گیا ضروری
ایسا کرتے ہوۓ اخلاقی ، ثقافتی، نظریاتی یہاں تک کے مذہبی اِقدار بھی پامال ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں ایسوں کو کہاں ہوش؟؟

پہلے Indian ڈرامے اور فلمیں مان نہیں تھے کے اب ترکی ک ڈرامے Import کرنے شروع کر دیئےگے ہیں وہ بھی مکمل سہولت کے ساتھ یعنی With Urdu Translation۔ سب دھوکہ دھی اور فریب نظری ہے ہم زباں ہونے سے کوئی ہم وطن نہیں ہو جاتا۔ کہاں وہ Modern European ترکش لوگ اور کہاں ہم Third World کے باسی۔ بس یہی اک نکتہ ہے جہاں سے ہمارے بے شمار مسائل شروع ہوتے ہیں۔ ہم جیسے ترقی پزیر ممالک ایک فطری عمل کے کارن اپنے آپ کو ترقی یافتہ دنیا سے بہت کمتر گردانتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے ہر ہر کام میں ہم ان سے بہت پیچھے ہیں اور ہر لہظہ اُن کی نکالی کرتے ہوۓ ایسا تاثر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم کسی ترقی یافتہ قوم سے کسی صورت پیچھے نہیں۔۔ جبکہ حقیقت اس تمام خود فریبی کی چغلی کھا رہی ہوتی ہے۔

کسی ترقی یافتہ قوم کی طرح کا رہن سہن اپنانے سے ، انکی زبان کو اسی طرح پوری مہارت سے بولنے سے ہو سکتا ہے آپ کی نفسیات پر کچھ اثرات نمایاں ہوں مگر حقیقت یوں آسانی سے ہرگز تبدیل نہیں ہو نے والی۔

سیانے کہتے ہیں کہ اگر سامنے والے کا منہ لال (Red) ہو تو اپنا تھپڑ مار کر نہیں کرنا چاہیے۔

سوچ اور Approach کو بدلنا پڑتا ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنا لباس ، رہن سہن اور طرزِ بود باش بدلیں۔۔ اور ان ترقی یافتہ قوموں کی اندھی تقلید کرتے چلے جائیں بلکہ ترقی تو اپنی سماجی ، اخلاقی ،نظریاتی اور مزہبی قدروں کو زندہ رکھ کر بھی کی جا سکتی ہے۔ ترقی تو صرف علم اور وعمل کے میدان میں آگے بڑھنے سے ممکن ہے۔

اور PEMRA کو چاہیے کہ نام نہاد ترقی اور ترکی کے متوالوں کی روک ٹوک کیلۓ سخت سے سخت قانون سازی کرے اور اُن پر من عن عمل بھی کرواۓ

Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 26 Articles with 20640 views A Young Poet and Column Writer .. View More