محکمہ ڈاک ....انصاف مرنے کے بعد ہی کیوں ملتا ہے ؟

ہمارے ملک کی بھی عجیب روایت بنتی جارہی ہیں جب کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو وہ ساری عمر انصاف مانگتامانگتا قبرمیں اتر جاتا ہے انصاف پھر بھی میسرنہیں آتا ۔اس جیسی ایک نہیں درجنوں مثالیں موجود ہیں ۔مظفرگڑ ھ میں چند بدقماش افراد نے غریب کسان کی بیٹی کی عزت کو داغدار کیا ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود پولیس نے مجرموں کو آزاد کردیا جنہوں نے ایک بار پھر ایک معصوم اور بے گناہ پاکستانی بیٹی کو جنسی ہراساں کرنا شروع کردیا۔ اخبارات میں خبریں شائع ہونے کے باوجود نہ حکمرانوں کو اس وقت خیال آیا اور نہ ہی کسی عدالت نے ازخود نوٹس لیاپھر جب تھانے کے سامنے اس بیٹی نے پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگالی تو وزیراعلی پنجاب سمیت عدلیہ نے بھی از خود نوٹس لے لیا۔مرنے والی تو سسک سسک کر پاکستانی معاشرے کی بے رحمیت پر آنسو بہاتے بہاتے قبروں میں اتر گئی اب اگر مجرمو ں کو سزا مل بھی جائے تو اس کا کیا فائدہ ۔ایک ہفتہ پہلے اخبارات میں خبرشائع ہوئی کہ محکمہ ڈاک کے شعبہ ارجنٹ میل سروس کے ملازم شاہد امین(جسے ہیپاٹائٹس Cکی موذی بیماری لاحق تھی ) نے اپنے ناجائز تبادلے پر دل برداشتہ ہوکر خود کشی کرلی جب وہ اپنے متعلقہ افسروں سے دا د فریاد کرتا کرتا موت کی وادی میں جا سویا تو محکمہ ڈاک کے افسران کا مردہ ضمیر بیدا ر ہوا ۔خود کشی کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پوسٹل نے پوسٹ ماسٹرجنرل پنجاب کو اسلام آباد وضاحت کے لیے نہ صرف طلب کرلیا بلکہ ڈپٹی پوسٹ ماسٹر ڈاکٹر اکرام نواز اور کنٹرولر ارجنٹ میل سروس طاہر وارثی کو تبدیل بھی کردیا( جو اب پھراپنی جگہ پر واپس بھی آچکے ہیں گویا تمام اقدامات صرف معاملے کوٹھنڈا کرنے کے لیے اٹھائے گئے تھے) اور خود کشی کرنے والے محکمہ ڈاک کے ملازم کی بیوہ کو محکمے میں ملازمت دینے کا اعلان بھی کردیاگیا ہے ۔زیادتی معاشرے کی جانب سے ہو یا کسی بھی سرکاری یا نجی ادارے کے بددماغ افسران کی جانب سے ۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ غریب لوگوں اور ایماندار چھوٹے ملازمین کی کہیں بھی سنی نہیں جاتی ۔ہر بااختیار افسر اپنے سے چھوٹوں پر رعب جھاڑنا اور ترقی کے معاملے میں اپنی پسند اور ناپسند کو دوسروں پر مسلط کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔محکمہ ڈاک کے جس ڈائر یکٹر جنرل نے خود کشی کے بعد نوٹس لیا ہے لیکن اسی محکمہ ڈاک میں ظلم اور زیادتی کے کتنے ہی اور واقعات رونما ہوچکے ہیں اور بے سہارا اور ایماندار ملازمین کو تختہ مشق بنا کر رکھ دیاگیا ہے لیکن کوئی سنیئر افسر اس لیے نوٹس لینے کو تیار نہیں ہوتا کہ وہ اس بات شاید انتظار کررہے ہیں کہ مظلوم پہلے خود کشی کرلیں پھر وہ نوٹس لیں گے ۔ایسے ہی ظلم و زیادتی کے مترادف ایک واقعے کا ذکر یہاں کرنا اس لیے ضروری سمجھتاہوں کہ شاید محکمہ ڈاک کے اعلی حکام کا سویاضمیر پھر جاگ جائے اور وہ متاثر ہ ملازم کو خود کشی سے پہلے انصاف فراہم کردیں ۔ واقعات کے مطابق سید ندیم احمد پتوکی ڈاکخانے میں پوسٹ ماسٹر کی حیثیت سے نہایت ایمانداری فرائض انجام دے رہا تھا اس کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ محکمہ ڈاک کے چند ملازمین ( ڈاکیے ) علاقے کے بااثر اور جعل ساز افراد کے ساتھ مل کر جعلی منی آرڈر فارم پر رقم لکھ کر اپنی ہی بنائی ہوئی دوسرے شہروں کی مہریں لگا کر محکمہ ڈاک کو ہر مہینے لاکھوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں ۔نہایت بہادری اور دیانتداری سے جب پوسٹ ماسٹر پتوکی مجرموں تک پہنچے اور لاہور میں موجود اپنے سنئیر حکام تک تحریری رپورٹ کردی تو محکمے نے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے اس ایماندار پوسٹ ماسٹر کو معطل کرکے ہر روز لاہور پیش ہونے کا حکم جاری کردیا ۔انکوائری ہوئی اس میں یہ ثابت ہوگیا کہ اگر سید ندیم احمد پوسٹ ماسٹر کی حیثیت سے محکمے کو نقصان پہنچانے والوں کی سرکوبی نہ کرتے تو یہ فرا ڈ کروڑوں روپے تک بھی پہنچ سکتا تھا اس کے باوجود سید ندیم احمد کی ایمانداری اور دیانتداری کی سزا پچھلے ایک سال تین مہینے سے روزانہ اپنے جیب خرچ سے پتوکی سے لاہور آنے سارا دن بددماغ افسران کے نخرے اٹھانے گرمی اور سردی کی موسمی صعوبتیں برداشت کرکے شام ڈھلے واپس پتوکی جانے کی صورت میں مل رہی ہے جبکہ اس کے بچے پتوکی کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں وہ نہ تو فیملی سمیت لاہور منتقل ہوسکتا ہے اور نہ ہی پتوکی شہر اس کے لیے سکون کا باعث رہ گیا ہے ۔یہ ایسے حالات ہیں جہاں پہنچ کر انسان کے پاس خود کشی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہتا ۔کیونکہ 14 ہزار روپے ماہانہ کرایو ں میں ہی خرچ ہوجاتے ہیں اور باقی ماندہ تنخواہ سے تو گھر کے اور تعلیمی اخراجات پورے نہیں ہوپاتے۔جس اذیت اور ذہنی تکلیف کا سامنا سیدندیم احمد اپنی دیانت داری اور ایمانداری کی سزا ہر روز بھگت رہا ہے اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسا ہی ایک اور دیانت دار شخص محمد اشرف (جس کی محکمے نے تنخواہ روک رکھی تھی) وہ معاشی بدحالی کا شکار ہوکر فوت بھی ہوچکا ہے۔ جبکہ نذیر احمد اور سید ندیم احمد محکمے کو کروڑوں کے نقصان سے بچانے کی سزا معطلی اور ذہنی ٹینشن کی صورت میں گزشتہ پندرہ مہینوں سے بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب ان کی یہ سزا ختم ہوگی۔میں محکمہ ڈاک کے پوسٹ ماسٹر جنرل پنجاب اور وفاقی سیکرٹری کیمونیکیشن سے یہ سوال کرنے کی جسارت کررہاہوں کہ کیا وہ اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ سیدندیم احمد جیسا ایماندار شخص بھی ارجنٹ میل سروس کے ملازم شاہد امین کی طرح پہلے خود کشی کرلے پھر اس کے بچے یتیم ہوجائیں اور بیگم خدانخواستہ بیوہ کا روپ دھار جائے تب آپ کاانصاف گہری نیند سے بیدار ہوگا ۔میں بذا ت خود سید ندیم احمد کو گزشتہ 35 سال سے جانتا ہوں میں اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ انتہائی دیانت دار اور فرض شناس شخص ہے ۔وہ ملازمت چھوڑ تو سکتا ہے لیکن بددیانتی نہ خود کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنے کسی ماتحت کو اس کی اجازت دے سکتا ہے ۔یہ واقعہ صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں کے لیے بھی ایک سبق سے کم نہیں ہے ۔ کیا اس ملک میں صرف انصاف انہیں لوگوں کو میسر آنے کی روایت قائم رہے گی جو ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا شکار ہوکر خود کشی کرلیتے ہیں کیا زندہ انسانوں کی اس ملک میں کوئی قدر نہیں ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.