انسان سستے قبریں مہنگی

ہندوستان کے آخری تاجدار نے شکوہ کیا تھا کہ دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں، لیکن اب دو گز زمیں کا حصول سب ہی کے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ دنیا بھر میں ہانگ کانگ ایسا علاقہ ہے جہاں کم از کم 40 ارب پتی ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ اس شہر میں جگہ کی قلت کی وجہ سے رہائشی اپارٹمنٹس تو سستے ہیں مگر قبر کا حصول انتہائی دشوار اور مہنگا ہو گیا ہے۔ ہانگ کانگ میں زمین کی قلت کے سبب 1970کی دہائی کے دوران کے کسی مقام یا علاقے میں مستقل قبروں کی تعمیر پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پہلے سے قائم سرکاری قبرستانوں میں موجود قبروں کی باقیات کو 6 سال بعد تلف کرنے یا جلانے کے احکامات بھی جاری کئے گئے تھے تاکہ نئے مردوں کی تدفین کا سلسلہ جاری رہ سکے۔لیکن چھ برس بعد پرانی قبر ختم کر کے نئی بنانے کی پالیسی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی اور اب حالات خاصے مشکل ہو گئے ہیں۔ ہانگ کانگ ایک ایسا گنجان آباد شہری علاقہ ہے جہاں ایک سال کے دوران تقریبا 40 ہزار افراد کی طبعی اور ناگہانی اموات واقع ہوتی ہیں۔کچھ فوت ہو جانے والے اس لحاظ سے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ انکے لئے بعض رشتہ دار اپنے دفن شدہ رشتہ داروں کی باقیات کو جلانے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔ اب قبر کی جگہ کے لئے قرعہ اندازی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ لیکن بہت کم مر جانے والوں کو اب بھی قبر نصیب ہوتی ہے۔ اب حکومت نے چھ سالہ پرانی قبروں میں سے مردے کی باقیات کو سرکاری طور پر جلانے کا سلسل شروع کر دیا ہے۔قبر کے حصول کا ایک اورذریعہ کسی گرجا گھر سے منسلک ہونا خیال کیا جاتا ہے۔ ہانگ کانگ کے بعض گرجا گھروں کے نجی قبرستان بھی موجود ہیں۔ ان قبرستانوں میں اگر جگہ دستیاب ہو تو قبر بنانے کی اجازت مل جاتی ہے مگر ایک خطیر رقم ادا کرنے پر۔ ایسے قبرستانوں میں قبر کی قیمت تین لاکن 86 ہزار 900 ڈالر یا تین ملین ہانگ کانگ ڈالر کے مساوی ہوتی ہے۔ قبریں بنانے والی ایک کمپنی کے ڈائریکٹر ہْوئی پونگ کووک کا کہنا کہ اب اتنی بڑی رقم کے ساتھ قبر کی جگہ کا حصول بھی ناممکنات میں سے ایک ہے۔
ہانگ کانگ شہری انتظامیہ کو زمینی رقبے کی بھوک نے مار ڈالا ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کو میونسپل حکام جس طرح شہریوں کے رہائشی معاملات کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں بالکل اْسی طرح مر جانے والوں کی تدفین کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ہانگ کانگ میں تقریباً سات ملین لوگ آباد ہیں۔ شہری انتظامیہ کی جانب سے مردوں کی باقیات کو جلانے کے سلسلے کو بھی عام لوگوں نے قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ سن 2013 میں 90 فیصد مرجانے والوں کو ورثا کی خواہش پر جلا دیا گیا تھا۔ نعشیں نذر آنش کرنے کے رجحان میں اب خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے کیونکہ سن 1975 میں یہ صرف 38 فیصد تھا۔
قبرستانوں کی طرح وہ مقامات جہاں نذر آتش کی گئی لاشوں کی خاک رکھی جاتی ہے، وہ بھی تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔ نذر آتش کی گئی نعشوں کی خاک رکھنے والے مقام کو کولمبیریم (columbarium) کہا جاتا ہے۔ ہانگ کانگ کے ایسی جگہوں میں خاک دان رکھنے کے لیے چالیس پچاس مربع انچ جگہ کے لیے بھی پانچ سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کے لیے تین ہزار ہانگ کانگ ڈالر فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ امرا جو نعشوں کی خاک رکھنے کا انتظار نہیں کر سکتے وہ ایک ملین ہانگ کانگ ڈالر تک ادا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہانگ کانگ کے فینلنگ ضلع کے مشہور لْنگ شان ٹیمپل میں خاک دان رکھنے کی جگہ 63 اسکوئر اِنچ ہے اور اتنی جگہ کی مالیت 1.8 ملین ہانگ کانگ ڈالر کے مساوی ہے۔لیکن پاکستان میں ابھی حالات ایسے خراب نہیں ہوئے ہیں ، یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو وقت سے پہلے قبر کی جگہ محفوظ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

کوئٹہ کے ایک دیہی علاقے بھوسہ منڈی کے نزدیک واقع ایک قبرستان کے سیلز ایجنٹ 45 سالہ حبیب اﷲ ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ میں ماہانہ 4,000 روپے (48 امریکی ڈالر) کما لیتا ہوں، اور اگر میں (اضافی کام) کروں تو قبرستان کا مالک مجھے مزید ادائیگی کرے گا"۔ کوئیٹہ کے حبیب اﷲ بازار جاتے ہیں تو ان کا مقصد کچھ خریدنے کی بجائے کچھ فروخت کرنا ہوتا ہے۔ اور ان کی فروخت کردہ مصنوعات کھدائی سے قبل قبریں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "(ضرورت کے وقت) قبر کی جگہ خریدنے کی نسبت پہلے سے قبر کی جگہ محفوظ کرا لینا کہیں زیادہ سستا پڑتا ہے"،"ہر روز میں اپنا بیشتر وقت۔۔۔ قبریں فروخت کرنے پر صرف کرتا ہوں اور ان لوگوں کو قائل (کرنے کی کوشش) کرتا ہوں جن کے ہاں میت رکھی ہوتی ہے۔۔۔ کہ وہ ہم سے قبر خرید لیں"،اکثر ملکوں میں قبر کی جگہ خریدنے کا تصور کوئی نئی چیز نہیں لیکن پاکستان میں یہ ایک نیا کاروبار ہے۔ ماضی میں قبروں کے لئے جگہ بلامعاوضہ ہوا کرتی تھی اور انہیں مرحوم کے لواحقین کھودتے تھے۔اس نئے کاروبار کے ابھرنے کی ایک وجہ پسماندہ علاقے میں ملازمتوں کے محدود مواقع کے دوران روزی کمانے کی خواہش ہے۔ ایک اور وجہ قبروں کے لئے بلامعاوضہ جگہ کی قلت ہے۔حبیب اﷲ بتاتے ہیں کہ گورکن بننے سے قبل وہ کافی عرصہ تک کوئی اور کام ڈھونڈنے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ "اگرچہ میری آمدنی انتہائی قلیل ہے اور میں اس کام سے بمشکل ہی اپنے گھریلو اخراجات پورے کر رہا ہوں، تاہم میرا خیال ہے کہ بے روزگار رہنے سے یہ کام بہتر ہے"، انہوں نے کہا۔ ہمارے قبرستانوں میں تو مقبرے تعمیر کیئے جاتے تھے، وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے کہ اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق، کچھ ہی حال اب ہمارے قبرستانوں کا ہے، ایک طرف توقبرستان میں موجود کچھ قبروں پر کئی کئی سیلنگ فین بھی لگے ہیں۔ زیادہ پاور والے انرجی سیور روشن ہیں، دروازے بہت ہی خوب صورت ڈیزائن والے اور مہنگی لکڑی سے تیار کردہ ہیں۔ فرش پر بیرون ملک سے منگائے گئے قیمتی ٹائلز لگے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ایسی قبریں بھی ہیں ، جن کو مٹہ کا دیا بھی مئیسر نہیں ہے۔ایک مورخ کا قول ہے ’دور مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزوں سے نوازا۔۔’ اردو زبان‘،’ مرزا غالب‘ اور’ تاج محل‘۔ لیکن، آج کا مورخ جب بھی کراچی کے قبرستانوں کا ذکر کرے گا، یہ ضرور لکھے گا کہ ’یہاں ایک، ایک قبرستان میں کئی کئی ’تاج محل‘ ہیں۔شاہجہاں کے بنائے ہوئے ’تاج محل‘ کی حقیقت ایک ’مقبرے‘ سے بڑھ کر نہیں۔۔۔ آگرہ کے’ تاج‘ اور کراچی میں بنے تاج ’محلوں‘ میں بھی یہی یکسانیت ہے۔ یہاں بھی انگنت لوگوں نے اپنے پیاروں سے محبت کی یاد میں ایسے ایسے مقبرے بنا رکھے ہیں جنہیں دیکھ کر کہیں عقل حیران ہوجاتی ہے تو کہیں تعجب کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ سخی حسن کے قدیم قبرستان میں ایک ایسا وسیع وعریض مقبرہ بنا ہوا ہے جس کی لمبائی چوڑائی کئی ہزار گز ہوگی۔ تاج محل کی طرح ہی اس مقبرے کا بہت بڑا حصہ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ تاج محل کی طرح ہی اس کا بھی ایک گول اور بلند و بالا گنبد ہے۔ بہت بڑا صحن ہے جہاں سبزہ اگا ہے، نہایت صاف ستھری روش بنی ہوئی ہیں، 25، 30 قبریں بھی ہیں جو سب سنگ مرمر کی ہیں۔مقبرے کی دیکھ بھال کے لئے باقاعدہ کئی ملازم ہیں۔ ان ہی ملازمین میں سے ایک ملازم نے بتایا کہ وہ کئی برس سے یہاں بہت سے کام کر رہا ہے مثلاً پودوں اور گھانس کو پانی دینا، پانی کی موٹر چلانا، بجلی کے انتظامات، مقبرے کے احاطے میں ہی بنی ہوئی دو منزلہ مسجد کی دیکھ ویکھ، صاف صفائی اور دیگر کئی چیزوں کے انتظامات اسی کا ذمہ ہیں۔ اسی نے یہ انکشاف کیا کہ’شہر کے ہر کونے کی لائٹ چلی جائے تب بھی یہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔۔اس کے لئے ’خصوصی انتظامات‘ موجود ہیں۔‘

مقبرے میں روشنی اور ہوا کے لئے نہایت نفیس انداز میں کھڑکیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ اس کی چوکھٹیں، وارنش، مہنگی لکڑی، اس کا ڈیزائن، شیشہ، نیٹنگ، رنگ و روغن۔۔ سب کچھ اسی انداز کا ہے جیسے کسی علیشان بنگلے کا ہوتا ہے۔اسی قبرستان میں ایک مقبرہ ایسا بھی ہے جہاں باقاعدہ بجلی کا میٹر لگا ہے۔ قبرستان کی دیکھ بھال پر مامور ایک شخص نے بتایا کہ ’مزار کو روشن رکھنے کے لئے جو بجلی استعمال ہوتی ہے، لواحقین باقاعدگی سے ہر ماہ اس کا بل ادا کرتے ہیں۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ صرف ایک قبرستان میں بنے کسی ایک مقبرے کی بات ہو بلکہ شہر میں موجود تقریباً34قبرستانوں میں ایسے ہی بڑے بڑے مقبرے موجود ہیں۔ پاپوش نگر، طارق روڈ، کلفٹن، یاسین آباد، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی، میوہ شاہ، لیاقت آباد، گلشن اقبال، جامعہ کراچی، علی باغ، ڈرگ روڈ، ماڈل کالونی، ملیر، دارالعلوم کورنگی، عظیم پورہ، عیسیٰ نگری، لیموں گوٹھ، میٹروول تھرڈ، میاں گوٹھ، نیو کراچی، سائٹ ایریا، پیربخاری، فوجی قبرستان، جنت البقیح، پہلوان گوٹھ، سعود آباد، شاہ فیصل، شانتی نگر ڈالمیا روڈ، اسماعیل گوٹھ، لانڈھی اور محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی سمیت شاید ہی کوئی قبرستان ایسا ہے جہاں لوگوں نے اپنے پیاروں کے مقبروں کو اپنی اپنی حیثیت یا گنجائش کے مطابق اسے ’اچھے سے اچھا‘ بنانے کی کوشش نہ کی ہو۔کچھ مقبروں پر تو ہر جمعرات کو دینی تہواروں پر اور سالانہ عروس وغیرہ کے موقع پربڑے پیمانے پر لنگر بھی لگتا ہے۔ اس لنگر میں ملنے والے کھانوں پر بھی بہت بڑی بڑی رقمیں خرچ ہوتی ہیں۔ بکرے اور مرغی کا سالن تو عام بات ہے۔ شہر کے بہترین پکوان ہاوسز اور نامی گرامی باورچیوں سے یہ کھانے تیار ہوتے اور مزار پر لاکر غریبوں میں مفت تقسیم کردیئے جاتے ہیں، تاکہ مرحوم کی روح کو ثواب پہنچ سکے۔لنگرکے معاملے میں تو آگرہ کا تاج محل بھی پیچھے رہ گیا ہے۔کہ وہاں اس قسم کی کوئی نیاز نذر نہیں ہوتی ہے نا ہی لنگر لگتا ہے۔کراچی میں کئی ’وی آئی پی‘ قبرستان بھی ہیں۔ مثلاً ڈیفنس فیز فور گزری کا قبرستان۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والے ایک ملازم کا کہنا ہے کہ یہاں بہت سے وی آئی پی محو خواب ہیں جیسے سلیم ناصر، ملکہ ترنم نورجہاں، شفیع محمد، رضوان واسطی، طاہرہ واسطی، ابراہیم نفیس، سید کمال، چوہدری اسلم، فوزیہ وہاب وغیرہ۔ یہ قبرستان خیابان راحت سے شروع ہو کر خیابان مومن اور سعودی قونصل خانے تک آباد ہے۔ اس قبرستان میں چند قبریں ایسی بھی ہیں جن پر انتہائی جدید انداز کی تراش خراش والے جاپانی اسٹائل سے ملتے جھلتے لکڑی کے پائیوں اور چھت والے شیڈز موجود ہیں جبکہ کتبوں کے ڈیزائن بھی ’نہایت دلکش ڈیزائن‘ اور جدید اسٹائل کے ہیں جنہیں دیکھ کر ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مرحوم معاشرے میں اعلیٰ حیثیت یا اونچا اسٹیٹس رکھنے والا تھا اور اس کے لواحقین بھی کچھ کم حیثیت والے نہیں۔

یہیں ایک قبر کے سرہانے قیمتی پتھر سے بنی اور جدید تراش خراش اور بیل بوٹوں سے کندہ ایک بنچ بھی موجود ہے جس پر بیٹھ کر آپ مرحومین کے لئے دعا اور تلاوت کرسکتے ہیں۔ ایک قبر تو بلیک سنگ مرمر کی ہے، شاید بلیک سنگ مرمر ،سفید رنگ کے سنگ مرمر سے بھی کچھ مہنگا ہوتاہے۔تبھی اس کا استعمال بھی نسبتاً کم ہوتا ہے۔

اس قبرستان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ پہاڑ پر بناہے۔ کچھ قبریں انتہائی اوپر، پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہیں اور جیسے جیسے پہاڑی راستے نیچے اترتے جاتے ہیں قبروں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ تاہم عام قبرستانوں کی بہ نسبت یہاں صفائی ستھرائی کا بہت اچھا انتظام ہے، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ نہایت وسیع و عریض اورجاذب نظر بنگلوں کے درمیان واقع ہے ۔ کیوں کہ یہاں وی آئی پی لوگ دفن ہیں۔کراچی شہر میں 34 سے زائد قبرستان ہیں اور جس طرح زندہ آبادی کو متوسط، غریب، رولنگ کلاس یا ’پیسے والوں‘ کے طبقات میں شمار کیا جاتا ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد بھی انہیں مختلف ’کلاسز‘ میں تقسیم کرتے ہوئے قبرستانوں میں اتاردیا جاتا ہے۔قبرستانوں کی تقسیم ایسے ہی ہے جیسے نیوکراچی، اورنگی ٹاون، نارتھ کراچی، موسیٰ کالونی، عیسیٰ نگری کی غریبوں کی بستیاں ہیں، سو یہاں کے قبرستانوں کا پرسان حال بھی کوئی نہیں۔۔اینٹ اور گارے سے بنی۔۔ٹوٹی ہوئی اور زمین میں دھنسی قبریں۔۔ان پر اگتے جھاڑ جنکار۔۔۔کچھ قبرستانوں میں منشیات استعمال کرنے والوں کے ڈیرے۔۔جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں جو سبزے کو ترستے ہوئے لق دق صحرامیں بدل گئے ہیں۔اور ان کے مقابلے میں ہیں کلفٹن اور ڈیفنس جیسے پوش علاقوں کے وی آئی پی قبرستان ہیں۔ اس تضاد کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انسان کا ’اونچا اسٹیٹس‘ مرنے کے بعد بھی اس کا ’پیچھا‘ کرتا رہتا ہے۔ زندگی میں حیثیت اعلیٰ ہو اور رتبہ بڑا ہو تو مرنے کے بعد بھی اسے ’وی آئی پی قبرستان‘ سے کم حیثیت کی جگہ نہیں ملتی۔بصورت دیگر بعض دفعہ کفن دفن کے لئے بھی چندہ کرنا پڑتا ہے۔اور اس کے بعد بھی جو قبر ملتی ہے وہ کسی غریب بستی میں قائم قبرستان سے گزرتے گندے نالے سے زیادہ دور نہیں ہوتی۔ دنیا میں قبرستانوں کی بھی تقسیم ہوگئی ہے۔ جرمنی میں ہم جنس پرست خواتین کے لئے ایک علیحدہ قبرستان ہے۔ یہ نیا قبرستان برلن میں انسانوں کی جس ابدی آرام گاہ کے اندر قائم کیا گیا ہے، وہ خود دو سو برس پرانی ہے اور برلن کے مشرقی حصے میں Prenzlauer Berg نامی علاقے میں قائم ہے۔اس ’قبرستان کے اندر قبرستان‘ کا رقبہ 400 مربع میٹر یا چار ہزار تین سو مربع فٹ بنتا ہے۔ اس آخری آرام گاہ میں بہت سے درخت بھی لگے ہوئے ہیں اور وہاں ریت سے ایسا پْرخم راستہ بھی بنایا گیا ہے جسے باقاعدہ لینڈ اسکیپ کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔اس قبرستان میں مجموعی طور پر 80 قبروں کی گنجائش ہے، جہاں انتقال کر جانے والی ہم جنس پرست خواتین یا میت سوزی کی صورت میں ان کی راکھ کو دفنایا جا سکے گا۔ ایسا ہی ایک قبرستان دہلی کا نکلسن قبرستان ہے۔ جو پْرآشوب ماضی کی کہانی ہے۔ نئی دہلی کا نکلسن مسیحی قبرستان ایسی جگہ ہے جہاں زیادہ تر نو آبادیاتی دور میں ہلاک ہونے والوں یا انتقال کر جانے والے برطانوی شہریوں کی قبریں ہیں۔ کئی ایک ایسے بھی ہیں جنہوں نے جیتے جی قبرستان کو گھر بنا لیا ہے۔ سندھ میں ’’کاریوں کا قبرستان‘‘ بھی ہے۔ جہاں کاری کی جانے والی مظلوم عورتوں کو دفن کیا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی انھیں عام قبرستان میں دفن نہیں کیا جانے دیا جاتا۔سربیا میں ایک بے گھر شخص نے گزشتہ پندرہ برس سے زائد عرصے سے ایک قبرستان میں ایک کھلی قبر کو رہائش گاہ بنا رکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے مْردوں سے نہیں، زندہ انسانوں سے ڈر لگتا ہے ۔ تاریخ کے ثبوت ہمیں مقبروں، مزاروں اور دوسرے بے شمار پھیلے ہوئے کھنڈرات کی صورت میں ملتے ہیں۔ جسے دیکھتے ہی ماضی کا شاندار عکس ذہن میں ابھر آتا ہے ایسے عام آثار دیکھنے والوں کے لیے عبرت کا مقام بھی ہیں۔ ایسے ہی تاریخی آثاروں میں سندھ کی قدیم تاریخ کا لازوال شہرہ آفاق قبرستان مکلی بھی ہے جو دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے دنیا میں مسلمانوں کے اس سب سے بڑے قبرستان میں لاکھوں قبریں اور مقبرے عہد پارینہ کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا خاموش شہر مکلی کے چھ مربع میل سے زائد رقبہ پر محیط ہے اس سے ماضی کی چار سو سال پرانی ایک عظیم تہذیب وابستہ ہے۔ مکلی محض ایک قبرستان نہیں بلکہ اپنے عہد کا جیتا جاگتا تاریخی ہنرمندی کا ثبوت ہے قبروں اور مقبروں کی عمدہ نقش نگاری، بے مثال خطاطی اور اعلیٰ کندہ کاری اپنی مثال آپ ہے مکلی قبرستان کی ہر قبر اور ہر مقبرہ جاذب نظر اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس قبرستان میں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں موجود ہیں۔ ان میں ایک لاکھ سے زائد اولیا کرام 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں۔ اس قبرستان کا نام مکلی اس لیے پڑا کہ یہاں پر جو پہلی قبر تعمیر ہوئی وہ ایک عورت کی تھی اور وہ علاقے میں مکلی کے نام سے معروف تھی۔

کراچی میں ایک جدید قبرستان کی بھی شہرت ہے۔ یہ سپر ہائی وے پر وادی حسین کا قبرستان ہے۔ انسان انفورمیشن ٹیکنولوجی کی دنیا میں بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ پہلے انسان صرف انفورمیشن ٹیکنولوجی کا استعمال زندہ لوگوں کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے کے لئے کرتا تھا مگر اب مردہ لوگوں کی قبر کو دیکھنے اور فاتحہ خوانی کرنے کے لئے بھی انفورمیشن ٹیکنولوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ آپ اگر کسی وجہ سے اپنی کسی عزیز کی قبر پر نہ آ سکے ہوں تو اس قبر کو آن لائن دیکھا اور فاتحہ خوانی کی جا سکتی ہے، آن لائن قبر کو دیکھنے کے لئے صرف قبر کا نمبر یا نام درکار ہو تا ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلا آن لائن قبرستان میں سپر ہائی وے کراچی پر واقع ہے اور اس کا نام وادیِ حسین قبرستان ہے۔ اس آن لائن طرز کے قبرستان کی بنیاد دو بھائی شیخ سخاوت علی اور شیخ یاور علی نے 1999 میں رکھی۔ قبرستان کو بنانے کا خیال مرحوم حاجی محمد یوسف نقوی کا تھا۔ سب سے پہلے ان ہی کے بڑے بھائی کو اس قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس قبرستان کا کل رقبہ کم سے کم بارہ ایکڑ سے زیادہ ہے۔ آپ وادیِ حسین قبرستان کی انتظامیہ کو صرف ایک فون کال کر کے سارے انتظامات کروا سکتے ہیں۔ قبرستان کی طرف سے فراہم کردہ سروسز میں ایمبولینس سروسز جو کہ میت کو لے کر جانے کے لئے ضروری ہے فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ قبر کشائی کے انتظامات، میت کے عزیزوں کے لئے ٹرانسپورٹ ، قبر کی بکنگ اور قبر کو بنانا سب کچھ انتظامیہ خود کرتی ہے۔ قبروں کا ڈیزائن اور سائز بھی ایک جتنا ہی رکھا جاتا ہے۔ آن لائن انتظامات ہمیشہ ہی بہترین ہوتے ہیں اسی لئے وادیِ حسین قبرستان کے انتظامات کو بھی آن لائن رکھا گیا ہے۔

اب حال ہی میں اسلام آباد کے مرکزی قبرستان جو اس شہر کا سب سے بڑا قبرستان بھی ہے کی ویب سائٹ بھی منظر عام پر آ گئی ہے۔ آپ اس قبرستان میں آسودہ خاک ہونے والوں کی تدفین کو بذریعہ انٹرنیٹ باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ اسلام آباد اگر دنیا کا نہیں تو ایشیا کا واحد شہر ضرور ہے جہاں دفن ہونے والے تمام افراد کی قبریں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔خضر عزیز اسلام آباد قبرستان کے انتظامات سنبھالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ویب سائٹ میں سن دو ہزار سے سن دو ہزار تین تک کے دوران قبرستان میں دفن ہونے والے ساڑھے تین ہزار افراد کے کوائف اکھٹے کئے ہیں اور اس قبرستان میں پینتیس ہزار قبریں ہیں جن کے کوائف وہ آہستہ آہستہ انٹرنیٹ پر منتقل کر رہے ہیں۔ شاعر نے شچ ہی کہا تھا کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی اگر چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

یہ بات شاعری کی حد تک رہتی تو ٹھیک تھی مگر کسے معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کو قبروں میں بھی چین نصیب نہیں ہوگا۔ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ اس جہان فانی میں اگر عبرت حاصل کرنی ہے تو پھر قبرستان کا رخ کرو کہ کیسے کیسے لوگ منوں مٹی تلے دبے جاتے ہیں۔ لیکن اب تو زمانہ ہی الٹا چل رہا ہے۔ قبرستان برائی کے اڈے بنتے جارہے ہیں۔ اور عام انسان اتنا وحشی ہوگیا ہے کہ وہ قبروں میں ابدی نیند سوئے ہوؤں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387635 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More