فرقہ واریت کی بنیادیں کہاں کھودی جارہی ہیں؟

آج ہمارے ہاں شیعہ، سنی، بریلوی، اہل حدیث کی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ ہر طرف افراتفری اور بد امنی کا دور ہے۔ کوئی مدارس کو اس کا الزام دے رہا ہے، کوئی ایران کو اور کوئی سعودی عربیہ پر الزام لگا رہا ہے۔ اصل مرض کہاں ہے، اس کے لیے اردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ قارئین کے استفادے اور قومی مفاد میں پورا قصہ من و عن کالم میں بلا تبصرہ شامل کیا جارہا۔شائید ہمیں اپنی راہیں متعین کرنے میں مددگار ثابت ہو۔

’’نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940 ء کی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے۔انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔نواب چھتاری اپنی یاداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا۔ان کے ایک پکے انگریز دوست نے جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا ،نواب صاحب سے کہا ’’آئیے ! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کراوں جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔‘‘نواب صاحب خوش ہوگئے۔انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔دو روز بعدکلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا ’’ہم کل صبح چلیں گے‘‘ لیکن میری موٹر میں‘موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں۔

اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے۔شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا۔جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا۔سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا نہ کوئی پیدل مسافر نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراْدھر دیکھ رہے تھے موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا۔پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی،اس کے چاروں طرف کانٹے دور جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی جسے عبور کرنا ناممکن تھا،عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔

اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے اس میں سوار ہو جائیں،نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا،وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا :’’بس منزل آنے والی ہے۔‘‘آخر دورایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا ’’یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جا سکتے ہیں ‘‘راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا ’’یاد رکھیں ‘کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں۔‘‘

عمارت کے شروع میں دالان تھا اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے۔پہلے نے عربی لہجے میں ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔دوسرے نے ’’وعلیکم السلام !کیا حال ہے ؟‘‘نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھاہے عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔طلباء عربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے۔نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے ،کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا۔ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے۔مثلاً وضو،روزے،نماز اور سجدہ سہو کے مسائل ،وراثت اور رضاعت کے جھگڑے ،لباس اور ڈاڑھی کی وضع قطع،چاند کانظر آنا،غسل خانے کے آداب ،حج کے مناسک،بکرا ،دنبہ کیساہو،چھری کیسی ہو ،دنبہ حلال ہے یا حرام،حج بدل اور قضاء نمازوں کی بحث،عید کا دن کیسے طے کیاجائے اورحج کا کیسے؟پتلون پہنناجائزہے یا ناجائز ؟عورت کی پاکی کے جھگڑے ،امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں ؟تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟وغیرہ۔ایک استاد نے سوال کیا،پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شستہ اردو میں!’’جماعت اب یہ بتائے کہ جادو ،نظربد،تعویذ ،گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں ؟‘‘پینتیس چالیس کی جماعت بہ یک آواز پہلے انگریزی میں بولیTRUE,TRUE پھر عربی میں یہی جواب دیا اور اردو میں!

ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر سوال کیا ’’الاستاد ،قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔‘‘استاد بولے ’’قرآن کی بات مت کرو،روایات اور ورد میں مسلمان کا ایمان پکا کرو۔ستاروں ،ہاتھ کی لکیروں ،مقدراور نصیب میں انہیں اْلجھاو۔‘‘

یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا ’’اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھا ہے؟‘‘انگریز نے کہا ’’ارے بھئی ،ان سب میں کوئی مسلمان نہیں یہ سب عیسائی ہیں تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوں خصوصاًمشرق وسطی،ترکی،ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں۔انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں ،یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں،وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے ،صرف کھانا،سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔وہ موذن،پیش امام ،بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طورپراپنی خدمات پیش کرتے ہیں ،تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقررہوجاتے ہیں۔جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔‘‘

نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ عظیم مدرسے کے بنیادی اہداف یہ ہیں:
(۱) مسلمانوں کو وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔
(۲) حضوراکرم صعلم کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے ،گھٹایا جائے۔اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اس طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا اسکی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔

اب جنگل کی حویلی کے ایک مکین سے ملاقات کیجئے۔یہ واقعہ میرے دوست ،حسین امیر فرہاد کے ساتھ کویت میں پیش آیا۔واقعہ انہی کی زبانی سنئیے : یہ 1979ء کا واقعہ ہے ان دنوں میں کویت کی ایک کمپنی میں مندوب تعلقات العامہ (افسر تعلقات عامہ) تھا۔ ہماری کمپنی کے ڈائریکٹر نے سری لنکا سے گھر کے کام کاج کیلئے ایک خادمہ منگوائی۔دوسرے دن مجھ سے کہا’’اس خادمہ کو واپس بھیج دو۔وہ ہمارے کسی کام کی نہیں کیونکہ عربی جانتی ہے نہ انگریزی۔‘‘میں اسکی دستاویزات لے کر متعلقہ جگہ پہنچاتو پتہ چلا کہ فی الحال سری لنکن سفارت موجود نہیں البتہ برطانوی باشندوں کے معاملات دیکھتے ہیں۔

برٹش کونسل میں استقبالیہ کلرک نے میرا کارڈ دیکھا تو مسٹر ولسن سے ملایا۔وہ بڑے تپاک سے ملے اور بٹھایا۔جب اس نے اندازہ لگایا کہ میں بھارتی یا پاکستانی ہوں ،تو اردو میں کہا ’’میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘میں نے سری لنکن خادمہ کے متعلق بتایا ،تو اس نے کہا ’’کوئی مسئلہ نہیں ،اسے ہم رکھ لیں گے۔آپ کا جو خرچ آیا ،وہ ہم ادا کریں گے ،یہ بتاوکہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘میں نے کہا ’’پاکستان۔‘‘ وہ بولا‘‘وہ تو بہت بڑا ملک ہے۔‘‘میں نے کہا ’’پشاور کا رہنے والا ہوں۔پشتو میں پوچھا :’’کون سی جگہ؟‘‘میں نے بتایا ’’نوشہرہ۔‘‘جب میں نے گاوں کا نام بتایا تو اسکی آنکھوں میں عجیب چمک پیدا ہوگئی۔پھر وہ مختلف لوگوں کا پوچھنے لگا۔میں نے بتایا کہ کون مرگیا ہے اور کون زندہ ہے۔میں نے سوچا،ہوسکتا ہے یہ نوشہرہ چھاونی میں ملازمت کرتا رہاہو،لیکن اس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔لیکن اس نے کچھ اور کہانی سنائی۔پہلے اس نے کافی منگوائی پھر انٹر کام پر کلرک سے کہا کہ اس کے پاس کسی کو مت بھیجنا۔وہ اتنا خوش تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔کافی کے دوران اس نے بتایا ’’میں آپ کے گاوں ،محلہ عیسیٰ خیل میں چار سال تک پیش امام رہا ہوں۔میں نے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘وہ بولا میں نے چار سال تک آپ کے گاوں کا نمک کھایا ہے۔آپ کے گاوں والوں نے مجھے بڑی عزت دی۔میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔میں عیسائی یوں یعنی اہل کتاب۔‘‘

اس کے بعد میرا اس کے ہاں آناجانا رہا۔وہ مجھے اپنا ہم وطن سمجھتا رہااور تقریباً میرا ہم عمر تھا۔تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاں پاکستان بننے کے بعد رہاتھا۔ایک میں پوچھا’’آپ پٹھانوں کاکھانا کیسے کھاتے رہے؟‘‘وہ کہنے لگا ’’آپ لوگوں کا کھانا اتنا مزیدار ہوتا ہے کہ میں یہاں آج بھی گھر جاتے ہوئے ایرانی تندور سے روٹی لے کر موٹر میں روکھی کھاتا ہوں۔‘‘جب میں کویت سے پاکستان آرہا تھا تو میں نے اس سے وہی سوال پوچھا جسے وہ ہمیشہ ٹالتا رہا تھا۔میں نے دریافت کیا ’’اب تو بتا دو کہ تم عیسائی ہوکر پٹھانوں کے گاوں میں روکھی سوکھی کھاتے اور پیش امام کی خدمات انجام دیتے رہے۔۔۔۔آخر کیوں ؟‘‘

وہ کافی دیر سر جھکائے سوچتا رہا پھر سر اْٹھا کر میری آنکھوں میں جھانکا اور کہا ’’ہمیں اپنے ملک کے مفادات کی خاطر بعض اوقات بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ہمارے ہاں لندن کے مضافات میں ایک مرکز ہے جہاں شکل وشباہت دیکھ کرانگریزوں کو بیرونی مذاہب اور زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر پھر ہمیں مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔‘‘گاوں آکر میں نے عیسیٰ خیل کے بزرگوں کو یہ واقعہ سنایا تو ایک بوڑھے طالب گل نے کہا’’مجھے شک پڑا تھا،مگر سب کہہ رہے تھے کہ یہ چترالی ہے۔‘‘وہاں اکثر چترالی مولوی امام ہیں۔وہ بھی گورے ہیں بالکل انگریزوں کی طرح۔پھر طالب گل نے کہا’’چلو بھائی۔‘‘اب چار سال کی نمازیں لوٹائیں جو ہم نے انگریز کے پیچھے پڑھیں۔۔۔۔خانہ خراب ہو اس کا۔‘‘

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105635 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More