خواہشیں اور منزل

اِس دنیا میں رہنے والا ہر انسان دل میں کوئی نہ کوئی خواہش لئے زندگی کے دن گزار رہا ہے۔اور یہی زندگی کا اصول بھی ہے کہ خواہشیں اور امیدیں زندگی گزارنے کا سہارا بنے۔اسی وجہ سے کوئی مال و دولت حاصل کرنا چاہتا ہے اور کسی کو شہرت پانے کی خواہش ہوتی ہے۔کسی کے دل میں گاڑیوں اور بنگلوں کی خواہش ہوتی ہے اور کوئی جائیداد کا مالک بننا چاہتا ہے۔کسی کو بڑے کاروبار کا شوق ہوتا ہے اورکوئی کسی خوبرو عورت سے شادی کر کے گھر بسانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔اِس طرح مختلف دلوں میں مختلف خواہشات کا ہونا ایک انسانی فطرت ہے۔اور یہ خواہش کسی بھی طرح یا کسی بھی چیز کی ہو سکتی ہے۔میرے ایک دوست نے ایک دن مجھے ایک لنگری کا قصہ سنایاجو چرس پینے کا سخت عادی تھا۔اس نے بتایا کہ جب لنگری سے اس کی خواہش کے بارے میں پوچھا جاتا تو اس کا ایک ہی جواب ہوتاکہ اگر اس کے پاس پیسے ہوتے تو وہ بہت سارا چرس خریدتا اور ساری زندگی چرس پیتا رہتااور بس پیتا رہتا۔اگرچہ یہ ایک عجیب خواہش ہے لیکن یہ بھی ایک دل کی خواہش ہے۔اِس طرح ہر کسی کے دل میں کوئی نہ کوئی خواہش ضرور پائی جاتی ہے۔یہ خواہشات اگر چہ مختلف ہیں لیکن ہر دل میں موجود خواہش کے پیچھے ایک ہی بات ہے اور وہ ہے سکون ، اطمینان یاخوشی بھی کہ سکتے ہیں۔ہر دل دراصل سکون اور اطمینان کا طلبگار ہے اور ہر کوئی یہی سکون اور اطمینان اِن خواہشات میں طلب کرتا ہے۔اور جب یہ کسی کو جانے یا انجانے میں مل جاتی ہے تو وہ خود کو کامیاب تصور کرنے لگتا ہے۔

اگر کوئی مال و دولت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا اصل مقصد مال و دولت نہیں بلکہ وہ مال و دولت کے حصول سے سکون اور اطمینان کی زندگی حاصل کرنا چاہتا ہے چاہے اسے اپنی منزل کا پتہ ہو یانہ ہو۔اس طرح شہرت پانے کا خواہش مند بھی یہی سمجھتا ہے کہ شہرت حاصل کر کے اسے خوشی ملے گی۔بعض اوقات وہ بھی منزل سے واقف نہیں ہوتا لیکن اپنی راہ پر اس منزل تک پہنچنے کے لئے چلنا چاہتا ہے۔جائیداد ، بنگلوں اور گاڑیوں کا شوقین بھی ان اوزارکا استعمال جس مقصد کے لئے کرتا ہے وہ بھی اس مقصد سے آشنا ہوتا ہے یا نہیں لیکن اوزار کا استعمال ضروری سمجھتا ہے۔اور یہی حال ہر اس بندے کا ہے جو دل میں کوئی نہ کوئی آرزو لیا ہوا ہے۔

اِس طرح دل رکھنے والا ہر انسان اپنی اپنی راہ پر چلنے لگا ہے۔کبھی کبھی کسی چیز کا آرزومند وہی چیز پا بھی لیتا ہے اور اس کی خواہش پوری ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسے ناکامی سی محسوس ہوتی ہے۔یہ احساس اِس وجہ سے ہو جاتی ہے کیونکہ یہ سارے مسافر منزل سے بے خبر اپنی اپنی راہ پر محوِ سفر ہیں۔لیکن جس کومنزل معلوم ہے ا و ر جو منزل تک پہنچنے والا صحیح راستہ جانتا ہے وہ بھی خواہشات کی کشتی میں سوار ہو کر اندھا ہو جاتا ہے یا پھر حقیقت سے آنکھیں چرا کر گمنام راستے پر نکلتا ہے اور خواہشات کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے۔اور خواہش ایک ایسی چیز ہے کہ ایک خواہش کے بعد دل میں دوسری پھر تیسری اور پھر مزید خواہشیں پیدا ہو جاتی ہیں اور اِس طرح خواہشوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔پھر اِن خواہشات میں منزل ااِس طرح گم ہو جاتی ہے جس طرح رات کی تاریکی میں یہ دنیا نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔خواہشوں کے پیچھے اِن گمنام راستوں پر چلتے چلتے جب اِنسان کافی آگے نکلتا ہے اور ناکامی دیکھ کر درست سمت سمجھنے لگتا ہے اور پلٹ کر درست سمت پر چلنا چاہتا ہے تو پھر اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب اِس سمت پر چلنے کے لئے وقت ناکافی ہے۔
Munib Khan
About the Author: Munib Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.