مملکتِ خداداد پاکستان کئی سالوں سے،کئی سالوں کی وجہ سے
مسائل کا شکار چلی آ رہی ہے۔بڑے بڑے مسائل کی فہرست بھی طویل ہے۔ان میں سے
توانائی کا بحران ایک دیوہیکل مسئلہ ہے۔اس مسئلے سے دوچار قوم گرمیوں میں
خاص طور پر عذابِ علیم کا مزا چکھتی ہے۔جب آسماں آتش باری کرنے کا سالانہ
ریکارڈ قائم کر رہا ہوتا ہے یا جون اپنے جنون میں جنوری کی ٹھنڈ کا بدلہ لے
رہا ہوتا ہے۔زمیں بھی آسماں کی تابع ہوتی ہے۔بے چارہ انسان نہ زمیں کا رہتا
ہے نہ آسماں کا۔ایسی صورت میں بجلی کی آنی جانی دیکھنا بہت لاچارگی کی بات
ہے۔
ایسی کیفیت میں واپڈا والے انتہائی مہربانی سے کسی ایک لائن کی سپلائی بحال
کرتے ہیں تو دوسری لائن کی سپلائی بے حال کر دیتے ہیں۔اکثر علاقوں میں ایسا
اتفاق ہو گیا ہے کہ دو ،دو لائنیں بچھی ہوئی ہیں۔ ان خوش نصیب علاقوں میں
رہائش پذیر لوگون نے موقع غنیمت جان کر دونوں لائنوں کا ایک ایک میٹر
لگوالیا ہے۔ جس طرف سے بجلی آرہی ہو اس کا سوئچ آن کر دیا اور یوں گرمی کی
شدت سے محفوط رہے۔واپڈا والے بھی لوڈشیڈنگ کرنے کا شوق پورا کر لیتے ہیں
اور لوگ بھی خوش رہتے ہیں۔
ہمارے علاقے میں بھی ایسی ہی صورتِ حال ہے۔اکثر گھروں نے ڈبل میٹر پر ہی
اکتفا کیا ہوا ہے۔ہمارے علاقے میں دو لائنیں چل رہی ہیں ایک بلہے شاہ فیڈر
اور دوسرا سٹی لائن۔سٹی لائن کی سپلائی بہت کم منقطع ہوتی ہے، جبکہ بلہے
شاہ لائن بار بار منقطع ہو جاتی ہے ۔اس لئے معزز شہریوں نے سٹی لائن سے
میٹر بھی لگوا لیے ہیں۔ہم نے بھی اس مقصد کے لئے درخواست دائر کی تھیاایک
دوست کے توسط سے۔کچھ ماہ بعد پتہ چلا کہ درخواست آخری مراحل تک پہنچنے والی
ہے۔اور ڈیمانڈ نوٹس دروازے پر دستک دینے والا ہے۔چند دنوں بعد پھر پتہ چلا
کہ درخواست غائب ہو گئی ہے کیونکہ اس کے ساتھ کوئی سات آٹھ ہزار کا نذرانہ
نہیں لگا تھا۔ہم نے نذرانہ نہ دے کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ناکام جسارت کی
تھی سو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ہم یہ مضمون اسی لیے لکھ رہے ہیں کہ ہم نے
نذرانہ نہیں دیا اور میٹر نہیں لگوایا۔اور اگر ہم نے ایسا کیا ہوتا تو ہم
یہ مضمون ہرگز نہ لکھتے۔اب چونکہ ہم کسی کے کانے نہیں ہیں اور ہماری بجلی
سپلائی بھی بند ہے تو ہم حق وصداقت کی آواز بلند کیوں نہ کریں۔آخر اتنی
شدید گرمی میں ہمارا ضمیر سویا کیسے رہ سکتا ہے جب ضمیر کا پسینہ بہہ بہہ
کے برا حال ہو چکا ہو۔
کہتے ہیں جیسا دیس ویسا بھیس۔ہم نے ایک لحاظ سے اس اصول کی خلاف ور زی کی
ہے۔جہاں نذرانوں کا اصول ہو وہاں اکیلی درخواست سے تو میٹر نہیں لگ سکتا
اور نہ ہی لگنا چاہیے۔یہ حال وطنِ عزیز کے صرف ایک محکمے کا نہیں اس لیے
اسے برا بالکل نہیں کہنا چاہیے۔یہاں تو ہر ہر محکمہ اور آفس اسی انداز میں
کام کر رہا ہے۔
یہ بزمِ مئے ہے، یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کے خود اٹھا لے ہاتھ میں ـمیٹر اسی کا ہے
قوموں کا مزاج بدلنا کوئی مذاق کی بات نہیں۔ہم تنگ دائروں میں رہنے والے
لوگ ہیں۔ مذہب،اخلاق اور اصلاح نے ہمیں بہتر بنانے کی سر توڑ کوشش کی ہے
لیکن ہم نے کسی کی ایک نہیں چلنے دی۔ اور ہمیشہ اپنی ہی چلائی اورمنوائی
ہے۔اس صورتِ حال کے پیچھے کئی صدیاں اور زمانے کارفرما ہیں۔ بھوک جو یہاں
کی اکثریت کو ورثے میں ملتی ہے، نا خواندگی جو یہاں کی خود رو اٹ سِٹ کی
طرح ہر طرف پائی جاتی ہے، بے لگام خواہش جو آندھی کی طرح ہر کسی کی آنکھوں
میں دھول جھونکتی ہے،بد نظمی جو یہاں دن رات راج کرتی ہے،وغیرہ ایسی
حقیقتیں ہیں جن سے انکار کی سرِ مو گنجائش نہیں ہے۔ہم ابھی اچھی انسانیت سے
کوسوں دور ہیں۔اچھی مسلمانی کی تو بات ہی کیا کرنی!
یہ ڈبل میٹر کلچر صرف بجلی کے معا ملے میں ہی نہیں بلکہ ہر معاملے میں ہم
نے ڈبل میٹر لگوا لئے ہیں۔
ہم کسی عاشقِ نامراد کی طرح سے دو انتہاؤں کے مابین لٹکے ہوئے ہیں:
نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے
تبدیلی آ تو رہی ہے لیکن چونٹی کی رفتار سے، دنیا گلوبل روم میں سما چکی ہے
لیکن ابھی بہت کچھ ہونا اور کرنا باقی ہے۔ہم زیادہ سے زیادہ معیاری یا
سٹینڈرڈ ہو رہے ہیں۔ابھی ایک دو فیصد ہی تبدیلی ہے جب یہ تبدیلی ستر،اسی
فیصد تک پہنچے گی تو اس کو ایک حقیقی تبدیلی کہا جائے گا۔لیکن:
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
زلف ،سر ہو یا زلف ہی نہ رہے یہ علیحدہ بات ہے لیکن تبدیلی دبے پاؤں آ ضرور
رہی ہے۔اوراس تبدیلی کو آنے والی نسلیں ضرور دیکھیں گی۔
مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک |