چند دنوں کے بعد ہمارے سروں پرنہایت عظیم الشان مہینہ
سایہ فگن ہونے والاہے ، جس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں،جہنم کے
دروازے بند کردئیے جاتے ہیں،سرکش شیاطین جکڑدئیے جاتے ہیں، نیکیوں کا
اجروثواب بڑھادیاجاتاہے، جس کی ہررات اعلان ہوتا ہے’’اے خیر کے متلاشی !آگے
بڑھ اور اے شرکے طلبگار ! پیچھے ہٹ‘‘۔ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل
ہے ، جواس کے خیرسے محروم رہا وہ واقعی محروم ہے۔ روزہ ، تلاوت ِقرآن،
صدقات وخیرات ، قیام اوردعا واستغفار پرمشتمل نیکیوں کے اس موسم بہار کی
آمد آمد ہے۔
جب ہمارے گھروں میں کسی ہردلعزیز مہمان کی آمد ہوتی ہے تواپنے گھروں
کوسجاتے ہیں،اس کی زینت وزیبائش کرتے ہیں،چہرے پر خوشیاں مچل رہی ہوتی
ہیں،دل باغ باغ ہوتاہے اورمہمان کے لیے اپنی آنکھیں فرش راہ کیے ہوتے ہیں۔
کیارمضان کی آمد پر ہم اپنے دل میں یہ کیفیت پارہے ہیں؟اﷲ والے رمضان
المبارک کاچھ مہینہ پہلے سے انتظار کرتے تھے ، مشہور تابعی معلی بن فضل
رمضان المبارک کے بارے میں صحابہ کرام ؓکے اشتیاق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے
ہیں کہ وہ چھ ماہ پہلے سے یہ دعا کرتے تھے کہ ’’اے اﷲ ! ہمیں ماہِ رمضان کی
سعادت نصیب فرما‘‘۔ پھر جب رمضان کا مہینہ گذرجاتا تو بقیہ چھ ماہ دعا کرتے
’’اے اﷲ!جن اعمال کی تونے توفیق دی وہ قبول بھی فرمالے ‘‘۔
کتنے لوگ جو گذشتہ سال ہمارے ساتھ روزے میں شریک تھے آج قبرمیں مدفون
ہیں،کتنے چہرے جنہیں ہم نے گذشتہ سال رمضان میں صحیح سلامت دیکھاتھا‘آج
بسترِ مرگ پر پڑے موت وحیات کے بیچ ہچکولے کھارہے ہیں۔ کیاخبرکہ آنے والا
رمضان ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو ، اس لیے آنے والے مہینے کا خیروخوبی
سے استقبال کریں،ہمارے اوپر طلوع ہونے والارمضان کا چاند خیروبرکت کاچاند
ہو،اسے دیکھ کر ہمارا دل جذبہ اشتیاق سے امڈ آئے، ہماری زبان گویاہو: اللھم
ا ھلہ علینا بالا من والایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اﷲ ’’اے اﷲ! تو
یہ چاند ہم پر امن وایمان اورسلامتی واسلام کے ساتھ طلوع کرنا،اے چاند میرا
اورتیرا رب اﷲ ہے ‘‘۔
ماہ مبارک کی آمد سے پہلے اس کے مقام ،اس کی عظمت، اس کی فضیلت،اس کے مقصد
اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور
فائدہ اٹھاسکیں اوراس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے
اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا ماحصل ہے،ان
معمولات کی تحدید کرلیں جو حقوق اﷲ سے متعلق ہیں ،ان معمولات کی بھی تحدید
کرلیں جو حقوق العباد سے متعلق ہیں،پھر ان معمولات کی بھی فہرست بنالیں
جنہیں رمضان المبارک میں ادا کرنے ہیں، اگرآپ کے ساتھ کاروبار،تجارت کام کے
تقاضے ہیں اورعبادت کے لیے خودکوبالکلیہ فارغ نہیں کرسکتے تو پھر یہ دیکھیں
کہ کن کن کاموں کورمضان کی خاطر چھوڑ سکتے ہیں اور کن کن مصروفیات کو مو
خرکر سکتے ہیں۔اس ماہ مبارک میں ہم اپنی زندگی ،صحت اورجوانی میں فرصت کو
غنیمت جانیں،اپنے سارے گناہوں سے سچی توبہ کریں،واجبات ومستحبات کی ادائیگی
اورمنہیات ومکروہات سے اجتناب کرنے کا خود کو عادی بنائیں، پنج وقتہ نمازوں
بالخصوص نمازِفجر کی باجماعت ادائیگی کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔جولوگ محرمات
کا ارتکاب کرکے اﷲ کی غیرت کو چیلنج کررہے ہیں،بدکاری،شراب
نوشی،ناجائزکاروبار،سودی لین دین جیسے جرائم میں ملوث ہیں وہ توبہ کرکے عزم
کریں کہ وہ ان جرائم سے بالکل دورہوجائیں گے اورپھر عمربھر ان کے قریب نہ
ہوں گے ،قرآن کریم کی تلاوت کا ایک مستقل وقت بنائیں،ہرفرض نماز کے بعد چند
آیات کی تلاوت مع ترجمہ کا معمول بنالیں کہ آنے والا مہینہ قرآن کا مہینہ
ہے جس کے لیے ابھی سے تیاری کرنی ہے،علما ء کرام اور معتبرکتابوں کی مدد سے
روزہ کے احکام ومسائل کی جانکاری حاصل کرلیں،معاشرتی روابط اورحقوق پر خاص
طورسے دھیان دیں ،کسی کا کوئی قرض یا دعوی ہے تو اسے فوراً چکادیں اور
معاملے کا تصفیہ کرلیں،بروزقیامت وہ شخص بڑا بدنصیب اور مفلس ہوگا جو نماز
روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا لیکن اس کے اوپر لوگوں کی طرف سے دعوو ں کا
ایک انبار ہوگا ،کسی کو مارا ہوگا، کسی کو گالی دی ہوگی،کسی کی بے عزتی کی
ہوگی،لہذا اس کی ایک ایک نیکیاں لے لے کر دعویداروں کو دے دی جائیں گی ،جب
اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی اوردعویدار باقی رہ جائیں گے تو دعویداروں کے
گناہ ان کے سروں پر تھوپ دئیے جائیں گے پھر انہیں جہنم رسید کردیاجائے
گا۔اس لیے رمضان کی آمد سے قبل معاشرتی روابط کو مستحکم کرلیں،اوریہ عزم
مصمم کرلیں کہ آپ اپنی زبان کی حفاظت کریں گے ،گالیگلوچ ،لڑائی جھگڑا ،بدکلامی
اورچغل خوری،بہتان تراشی، سے دور رہیں گے ،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں
پیش پیش رہیں گے اورکسی انسان کو ایذا نہ پہنچائیں گے۔رات کے سہ پہر میں
قیام اللیل کی عادت ڈالیں، کیونکہ یہ رات کا وہ حصہ ہے جس میں اﷲ تعالی
سمائے دنیا پر (اپنے شایانِ شان) نزول فرماکر اعلان کرتے ہیں: ’’ہے کوئی
دعا کرنے والا کہ ہم اس کی دعا قبول کریں ،ہے کوئی سوال کرنے والا کہ ہم اس
کے سوال کو پورا کریں، ہے کوئی اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے والا کہ ہم
اس کے گناہوں کو معاف کردیں۔ ‘‘ (بخاری ومسلم)
واقعہ یہ ہے کہ شب دیجورمیں اﷲ کے خوف سے آنسوو ں کا ٹپکنااوربدن پر لرزہ
طاری ہوجاناایک طرف خوشنودی رب کا بہترین ذریعہ ہے تو دوسری طرف کمال شخصیت
کا راز بھی ہے ،آہ سحرگاہی کے بغیر نہ کبھی شخصیتیں بنی ہیں نہ بنیں گی،
علامہ اقبال نے کہاتھا
عطار ہو،رومی ہو،رازی ہو،غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی
اس ماہ مبارک میں اپنے سلوک او رکردار پر دھیان دیں،اپنے آپ کو حسن اخلاق
کا پیکر بنائیں، رذائل اخلاق سے دوری اختیار کریں،اخلاق وآداب پر مشتمل
کتابوں کا مطالعہ کریں اوراچھے اخلاق کے حامل لوگوں کے پاس بیٹھ کر ان کی
خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اپنے آپ کو اﷲ کی راہ میں خرچ
کرنے کا عادی بنائیں کہ رمضان مواسات وغم خواری کا مہینہ ہے ،ہمارے حبیب
صلی اﷲ علیہ وسلم یوں بھی سخی تھے تاہم رمضان المبارک میں تیز ہوا سے بھی
زیادہ سخی ا ورفیاض بن جاتے تھے۔ اس لیے اﷲ پاک نے جس قدربھی دے رکھا ہے اس
میں سے غرباء ومساکین کے لیے ضرور نکالیں، اورحسب استطاعت روزہ داروں کو
افطار بھی کرائیں کہ اس کا اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا خود روزہ رکھنے کا (ترمذی
)۔رمضان کے فیوض وبرکات سے خاطرخواہ مستفید ہونے کے لیے چوبیس گھنٹے کے
اوقات کی منصوبہ بندی کر لیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت اﷲ کی عبادت میں صرف
ہو اور اسے پورے نظم وضبط اور پابندی سے بجالانے کی کوشش کریں۔
اﷲ عزوجل اس رمضان المبارک کو ہم سب کی بے حساب بخشش کا ذریعہ بنا دے(
آمین)۔ |