اردو:معیار اور استعمال

’لسانی مطالعے‘ پر تبصرے اور خطوط:ایک مطالعہ

’’اردو:معیار اور استعمال‘‘ پروفیسر غازی علم الدین کی کتاب ’لسانی مطالعے‘ پر لکھے گئے تبصروں اور تبصراتی خطوط پر مشتمل تالیف ہے جسے معروف نقاد،شاعر،محقق اورادیب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے مرتب کیا ہے اور اسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے ۲۰۱۴ء میں شایع کیا ہے۔کتاب ۲۶۳ صفحات پر مشتمل ہے اور خوب صورت گٹ اپ میں ہے۔گفتنی میں ڈاکٹر ہرگانوی نے تبصرہ نگاروں اور خطوط تحریر کرنے والوں کا مختصر تعارف اور مندرجات کا تذکرہ بھی کردیا ہے ۔اس طرح اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہو کہ اس کتاب میں کیا کیا کچھ ہے تو وہ ’گفتنی‘ کا مطالعہ کرلے۔کتاب میں ۴۷ تبصرے اور ۱۶ تبصراتی و نیم تبصراتی خطوط شامل ہیں۔یہ تبصرے اور خطوط ہندوستان ، پاکستان، برطانیہ ، کینیڈا اور ترکی کے محققین کے تحریر کردہ ہیں۔۳۰ تبصرے اور ۱۲ خطوط پاکستانی محققین کے ہیں۔۱۳ تبصرے اور ۲ خطوط ہندوستانی محققین کے ہیں جبکہ باقی برطانیہ ،کینیڈا اور ترکی سے ہیں۔

کچھ خطوط بہت مختصر اور توصیفی ہیں جیسے اختر شاہ جہاں پوری ، ڈاکٹر محمد صغیر ، انورسلیم کنجاہی ، سید اظفر رضوی ، افتخار مجاز ، پروفیسر صفدر شاہ۔اسی طرح تبصروں میں ڈاکٹر انور سدید ، ڈاکٹر سعادت سعید ، افتخار امام صدیقی ، پروفیسر مسعود علی بیگ ، حفیظ الرحمٰن احسن ، بشیر حسین ناظم ، سردار عتیق احمد ، طارق اسد ، امین جالندھری ،ڈاکٹر ارشد خانم ،ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی ،ڈاکٹر عائشہ مسعود ملک ، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں، ڈاکٹر محمدسہیل شفیق اور علی سفیان آفاقی نے بڑی محبت اور محنت سے ’لسانی مطالعے‘ پر اپنے اپنے تبصرے لکھے ہیں۔تاہم ان تمام تبصروں میں کوئی نئی بات نہیں۔اکثر نے کتاب کے موضوعات پر سرسری بات کی ہے اور اس طرح ان تبصروں میں تقریباً ایک ہی طرح کی باتیں بار بار دھرائی جاتی رہی ہیں۔بہت بڑے بڑے نام ہیں اور میں یہ کہنے کی گستاخی تو نہیں کرسکتا کہ انھوں نے کتاب کا بغور مطالعہ کرکے تبصرہ نہیں کیا لیکن ان کے تبصرے پڑھ کر مایوسی ہوئی ہے۔انھوں نے کوئی دقیق نکتہ اٹھایا ہی نہیں۔اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ان کو مندرجات سے مکمل اتفاق ہو۔

ہندوستان اردو کا مولد و مسکن ہے لیکن اتنے کم تبصرے پڑھ کر مایوسی ہوئی۔اسی طرح اردو اگر سب کی زبان ہے تو ہندو، سکھ اور عیسائی محققین کے تبصرے بھی شامل ہونے چاہیے تھے۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دھیرے دھیرے سب نے اسے مسلمانی بھاشا تسلیم کر لیا ہے البتہ ہمارے کچھ مسلمان محققین کو اس بات پر اصرار ہے اور اعتراض بھی کہ یہ مسلمانوں کی زبان نہیں۔کتاب میں کچھ تبصرے مختصر لیکن بہت معیاری ہیں اور انھیں کتاب کے ابتدا میں جگہ دی جانی چاہیے تھی جیسے عظیم اختر کا تبصرہ۔تاہم یہ ضروری نہیں کہ میں جن تبصروں کو بہت معیاری محسوس کروں ،مرتب بھی ان کو ایسا ہی سمجھیں۔باقی تبصروں اور خطوط میں کتاب اور اس کے مندرجات پر کچھ اعتراضات ، کچھ مباحث اور کچھ ’فرینڈلی فائر‘ کیے گئے ہیں اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان سب کو زیر بحث لایا جائے۔

معروف محقق پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنے مختصر تبصرے میں ’لسانی مطالعے‘ کو سیاسیات کی قلم رو سے جوڑا ہے۔ویسے اس سیاست نے سب کو گندا کردیا ہے۔ملک صاحب ہر چیز کو جانے کیوں سیاست کے ساتھ نتھی کردیتے ہیں۔انھوں نے تبصرے کو بہت مختصر کردیا۔ان سے طویل مباحث کی توقع تھی لیکن شاید عمر اور ان کی مصروفیات آڑے آئیں۔دوسرے دانشور جن سے طویل تبصرے کی امید تھی وہ ڈاکٹر رشید امجد تھے لیکن انھوں نے بھی ٹرخا دیا ہم تشنگان ادب و لسانیات اردو کو۔ان کا انداز بھی سیاسی ہے۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کتاب کو سرسری انداز سے پڑہیں۔رشید امجد صاحب نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ’ اردو زبان کو ہمارے نشریاتی ادارے جس طرح بگاڑ رہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ اس کی بنیادی پہچان ہی ختم ہوجائے گی‘۔اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کی جو وبا پھیل چکی ہے وہ نہ صرف اردو کا حلیہ بگاڑ رہی ہے بلکہ ہم کو اس تہذیبی ورثے سے بھی لاتعلق کردے گی جس پر ہمارا سماج قائم ہے۔انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ’ اردو بنیادی طور پر مسلمانوں کی زبان ہے‘ اور فراق کا حوالہ دیا ہے کہ’ اردو غزل لکھنے کے لیے آدھا مسلمان ہونا پڑتا ہے اور میں آدھا مسلمان ہوں‘۔ڈاکٹر سعادت سعید نے اپنے تبصرے میں مولوی احمد دین کی ’سرگزشت الفاظ‘ کا تذکرہ کیا ہے۔جو بات وہ بین السطور کہنا چاہتے ہیں،درست نہیں۔احمد دین کی کتاب اس انداز میں نہیں لکھی گئی ہے۔اس کا انداز تحقیقی نہیں اور سرسری زیادہ ہے۔انھوں نے گہرائی میں جاکر الفاظ و معانی کی بحثیں نہیں کی ہیں۔ان دونوں کا کوئی تقابل نہیں۔وہ ابتدائی نوعیت کی کتاب ہے اور ’لسانی مطالعے‘ انتہائی نوعیت کی۔ایک کا انداز Academic ہے اور دوسرے کا Scholarly ۔

مقصود الٰہی شیخ نے کچھ محاوروں کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ’کچھ محاورات تو اب استعمال ہی نہیں ہوتے ۔اس لیے ان کو لتاڑنا فضول ہے‘۔ان کا موقف ہے کہ’ برصغیر میں مسلمانوں کا کلچر خالص اسلامی نہیں بلکہ مخلوط سماج کی دین ہے۔اس لیے ہر محاورے کو اسلام کی کسوٹی پر نہ کسا جائے‘۔لیکن جناب شیخ اصل مسئلہ ہی یہی ہے۔ہم کو غلط اور صحیح کا شعور ہی نہیں رہا۔مسجد مندر ایشور اﷲ رحمان رام کا فرق کرنا تعصب تو نہیں۔ہندو جنم جنم کا ساتھ استعمال کرے ،ہم اسے منع تو نہیں کرتے۔ہم تو اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ مسلمانوں میں اردو کے حوالے سے جو محاورات اور ضرب الامثال مروج ہیں، ان کو احتیاط سے استعمال کیا جائے۔نکاح اور سات پھیرے لینے میں فرق تو ہونا چاہیے۔سیکولر روایات کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ دوسرے مذاہب کی رواداری میں اپنے مذہب ،زبان اور روایات کو تج دیں۔تاہم اس طرح کا اعتراض ہندوستانی محققین کی طرف سے آتا تو بات بھی تھی لیکن آپ کی طرف سے یہ اعتراض بنتا نہیں۔

پروفیسر انوار احمد زئی نے اپنے تبصرے میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ’اگر کتاب کے اگلی اشاعت میں فارسی اردو کے باہمی روابط کے حوالے سے کچھ مضامین شامل کر لیے جائیں تو اردو زبان کے طالب علم ایک نئی جہت سے واقف ہو سکیں گے‘۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کام کا بیڑہ کسی اور کو اٹھانا چاہیے اور ویسے بھی کتاب کی ضخامت میں اضافہ قاری کے لیے مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔اس طرح کا ایک کام ڈاکٹر صدیق خان شبلی نے کیا ہوا بھی ہے۔پروفیسر صاحب کی یہ تمنا بھی ہے کہ ’اردو زبان کی ترقی کے لیے اسے صرف نمایش کے لیے رائج نہ کیا جائے بلکہ جدید علوم کی منتقلی کا کام بھی تیز رفتاری سے کیا جائے‘۔پروفیسر صاحب مسئلہ صرف نیت کا ہے ورنہ اردو میں اتنا کام ہوچکا ہے کہ اسے ہر سطح پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔تاہم پاکستان میں اردو انگریزی آویزش اتنی بڑھ چکی ہے کہ مقتدر طاقتیں اسے نافذ نہیں ہونے دے رہیں۔عدلیہ ،فوج اور مقابلے کی زبان انگریزی ہے۔اور یہ پاکستان کی اشرافیہ ہے جو اردو کے نفاذ میں رکاوٹ ہے اور اب مڈل طبقہ بھی اس کا حامی بن چکا ہے۔ سب آدھے تیتر آدھے بٹیر ہو چکے۔

ڈاکٹر نذیر فتح پوری تحریر کرتے ہیں کہ ’تلفظ اور املا کسی بھی زبان کی عمارت کے بنیادی پتھر ہوتے ہیں اور لکھے ہوئے لفظ کی عمر بولے ہوئے لفظ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے‘۔ساری بحث ہی یہی ہے۔جس زبان کا اپنا رسم الخط ہے اور اس میں ادب تخلیق ہو رہا ہے تو اس کو ختم کرنا آسان نہیں۔رسم الخط کو تبدیل کردیں تو وہ زبان خود بخود اپنی موت آپ مر جائے گی۔اردو کے ساتھ یہی ہو رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ احساس زیاں بھی نہیں۔ڈاکٹر نذیر کا یہ فرمانا بھی درست ہے کہ ’لفظ کی حفاظت کا فریضہ ہم پر عاید ہوتا ہے‘۔ڈاکٹر صاحب نے املا کے مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو میرے نزدیک اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔جیسے مؤذن ، اناؤنسر ، ساؤتھ ۔تو ہم بھی ایسے ہی لکھتے ہیں۔اعلیٰ کو اعلا کے طورپر اس لیے بھی قبول نہیں کیا گیا کہ اس کو ایک تو ہم طول دے کر پڑھتے ہیں ،اجلٰی کو نہیں۔اجلا سے نکلنے والے الفاظ پر بھی غور کر لیں جیسے اجلی اجلی، اجلے اجلے ، اجالا،اجلی، اجلے،اجالنا۔اعلیٰ سے کیا اس طرح کے یا اس سے کم ہی سہی کون سے الفاظ بن سکتے ہیں؟’چھے‘ کو ہم بھی چھ لکھتے ہیں اور یہ متروک تو نہیں۔املا کو مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال کیا جا رہا ہے تاہم مذکر کا پلڑا بھاری ہے۔رائے زنی تو ٹھیک ہے لیکن ابھی ہمارے اخبارات ’آگ زنی‘ کی جرات نہیں کرتے۔تاہم ’آتش زنی‘ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ڈاکٹر صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ ’کیا واقعی اس لسانی تخریب کاری کے پس پردہ کسی قسم کے سیاسی محرکات کام کر رہے ہیں‘؟اس میں کوئی شک نہیں کہ کر رہے ہیں۔اس میں فرقہ واریت کا کردار بھی ہے۔محرم کے دنوں میں استعمال کی گئی زبان اور شاعری نیز شاعری میں استعمال ہونے والی تلمیحات و استعارات پر غور کر کے دیکھ لیں۔فارسی کے اردو میں دخیل الفاظ کا مطالعہ نئے در وا کرتا ہے۔

ڈاکٹر فراز حامدی نے ’تخالیق ‘ استعمال کیا ہے جو عجیب لگتا ہے۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ’ پاکستان میں اردو لسانیات کی قندیل غاز ی صاحب نے اسی طرح روشن کی ہے جس طرح ہندوستان میں گوپی چند نارنگ نے روشن کی ہے‘۔ڈاکٹر محبوب راہی کا اظہار ہے کہ ’اردو زبان سے شرکیہ یا کفریہ الفاظ یا شعائر اسلام کی تحقیر کرنے والے الفاظ کو زبان و ادب سے علیحدہ کرنا گوشت سے ناخن ، رگوں سے خون یا زندگی سے سانسوں کے علیحدہ کرنے کے مترادف ہوگاتاہم نور حق و صداقت کے متلاشیوں کو احتیاط کرنی چاہیے‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ الفاظ ہماری سماجی زندگی کا جزو بن چکے ہیں تاہم ایک اچھا جراح بھی تو ناسور کو کمال مہارت سے محدود کرتا ہے اور بعض اوقات جسم سے جدا بھی کردیتا ہے۔اگرچہ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو کچھ کے نزدیک لطف دیتا ہے،کچھ اس کو ناسور گردانتے ہی نہیں اور کچھ کو احساس ہی نہیں کہ اس کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔تاہم مایوسیوں میں امید کے چراغ جلانا ہی تو اصل کام ہے۔

ڈاکٹر محمد شفیق نے کتاب پر بہت محنت اور محبت سے قلم اٹھایا ہے اور ان کے کچھ اعتراضات قابل غور بھی ہیں۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ’تقابل لسانیات‘ کی اصطلاح غلط استعمال ہوئی ہے۔اسی طرح ’اردو صوتیات‘ بھی۔ان کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ ’لسانی تقابل،تقابلی لسانیات درست لگتا ہے‘۔ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ’زبانیں مومن ومشرک نہیں ہوتیں‘۔یہ بات اگر ہندوستانی قلم کار لکھے تو اس پر بات کی جا سکتی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالخلافے میں بیٹھ کر یہ کہنا صرف اعتراض ہی ہے۔زبانیں مومن و مشرک نہیں ہوتیں لیکن ڈاکٹر صاحب اس کے بولنے والے مومن و مشرک ضرور ہوتے ہیں اور یہی بولنے والے زبان کو عروج و زوال پر لے جاتے ہیں۔زبانوں کا تعلق بولنے والوں سے ہوتا ہے اور اس طرح سماج سے جڑتا ہے۔ہمارا سماج مسلم سماج ہے ۔اس لیے اس سماج کے مطابق بات کریں۔ڈاکٹر صاحب کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ’ادب کے حوالے سے فحش گوئی ، جنسیات اور خمریات وغیرہ پر دلچسپ گفتگو ملتی ہے۔جس پر بھرپور تبصرہ کیا جاسکتا ہے لیکن فتوے کا خوف مانع ہے‘۔ڈاکٹر صاحب محقق فتوؤں سے نہیں ڈرتا۔

آپ کا اعتراض ہے کہ ’مقالے میں ایک بڑی خرابی اصل بحث سے متعلق مآخذ کی عدم نشاندھی ہے‘۔جو اپنے اندر وزن رکھتا ہے۔اس پر بات کی جانی چاہیے اور غازی صاحب کی طرف سے اس کا جواب تیسری اشاعت میں آنا چاہیے۔ڈاکٹر صاحب غازی صاحب کی اس بات پر بھی معترض ہیں کہ’ عربی الفاظ کو اردو میں جوں کا توں لکھا جائے۔یہ بھی بحث طلب ہے۔ویسے بھی عربی کا سخت اعرابی نظام قرآن کی حد تک درست تسلیم کیا جاسکتا ہے باقی اس پر زور نہیں دیا جانا چاہیے‘۔ڈاکٹر صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ’زبان کو مذہب کے حوالے سے ناپا تولا جانا قابل قبول نہیں۔اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں اور اس کی تشکیل میں صرف عربی کا حصہ نہیں‘۔آپ کی یہ بات طویل بحث کو جنم دینے کے علاوہ کچھ اورنہیں دے گی۔مختصر یہ کہ اردو زبان کے وارث ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ۹۷ فی صد مسلمانوں کا ملک ہے۔اس کی تشکیل میں ہندوؤں کا کتنا حصہ ہے وہ بھی آپ ہی بیان کردیں۔خاص طور پر پاکستانی ادب میں ان کا کتنا حصہ ہے۔اردو کی تشکیل میں عربی ہی کا حصہ نہیں،درست لیکن عربی کابڑا حصہ ضرور ہے۔اس بات سے اندازہ آپ کو ہوجانا چاہیے کہ پاکستان میں اس کے وارث منبر ومحراب ہی نظر آرہے ہیں۔جامعات میں موجود علم و ادب کے ٹھیکہ داروں سے سو بار الحذر۔

ڈاکٹر شفیق نے غازی صاحب کے اس نقطہ نظر کو بھی رد کیا ہے کہ’اردو زبان میں جنسیات ، دیگر ادیان کے تصورات اور متفرق ثقافتی مظاہر قابل مذمت ہیں‘۔لیکن کیا ہم کو اپنی روایات ، مذہب اور نظریہ کے مطابق زندگی گزارنے کا حق نہیں؟کیا مغربی نظریہ جنس اور ہندو نظریہ آواگون کو اس ملک میں پنپنے کی کھلی چھٹی دی جا سکتی ہے؟ اس ملک میں فرد کو کتنی مذہبی آزادی دی جا سکتی ہے؟ اس کی کیا حدود و قیود ہوں گی؟ ریاست کے کیا فرائض ہیں؟ان سب کے لیے ایک نئے معاہدہ عمرانی کی ضرورت ہے جناب؟ہمارا ملک ایک نظریاتی اسلامی جمہوریہ ہے اور ہم ایسی روایات کو یہاں پنپنے نہیں دیں گے جو ہمارے اسلامی نظریے کو نقصان پہنچائے۔

ڈاکٹر سیفی سرونجی نے گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمٰن فاروقی کی طرح غازی صاحب کو محسن اردو قرار دیا ہے۔ان کی یہ بات جلی حروف میں لکھی جانے کے قابل ہے کہ ’یہ کتاب ایسے بے شمار اساتذہ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی جو زبان کے تئیں لاپرواہی برتتے ہیں اور صرف اپنی تنخواہ پانے کے لیے اردو کے پروفیسر بنے ہوئے ہیں جب کہ ان کے دل میں اردو کے لیے کوئی جذبہ نہیں ہوتا‘۔اور اس کا گواہ تو میں بھی ہوں۔ایسوں کو جانتا ہوں جو نصاب کی کتاب کو بھی بوجھ گردانتے ہیں۔جو ایک جملہ درست نہیں لکھ سکتے اور نہ لکھنا چاہتے ہیں۔جو نصاب میں تبدیلی کا سن کر چڑ جاتے ہیں۔ڈاکٹر سید یحیٰی کا تبصرہ سوچ کے نئے در وا کرتا ہے۔ان کا اظہار ہے کہ’ غازی صاحب نے پہلے باب کو صرف اردو کی تاریخ تک ہی محدود رکھا ہے ، وگرنہ تاریخ عالم اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ معاشرے کے اثرات دنیا کی ہر زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔ہم صرف برصغیر ہی کی مثال لیں تو پتا چلتا ہے کہ بدھ مذہبی معاشرے کے افکار کی بدولت ’سنسکرت‘ سے ’پالی‘ وجود میں آئی۔دراصل یہ تبدیلی سماج میں کثرت سے پھیلے بدھ افکار ونظریات سے جڑے لفظیات کا نتیجہ تھا‘۔یہی حال اسلام اور مسلمانوں کا ہندوستان کے معاملے میں تھا۔اس کے اثرات ہمہ گیر ہیں۔تمام ہندوستانی مذاہب پر ان کے اثرات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر سید کا فرمانا ہے کہ ’مصنف نے حروف تہجی کی ترتیب سے کم و بیش سو الفاظ وتراکیب کا جائزہ لیا ہے۔اس میں تین تیرہ نو اٹھارہ ،تین تیرہ کرنا ،سات سو چھیاسی جیسی ہندی اصطلاحوں کو بھی دینی عقائد سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہندسوں کے تئیں اس عقیدت کا مرجع ہندوستانی اوہام پرستی ہوسکتی ہے۔چناں چہ ان علاقوں میں آٹھ اور گھاٹ ، سو کے ساٹھ جیسے فقرے معروف ہیں اور کسی نقصان یا گھاٹے کے وقت ان کو بولتے ہیں۔مراٹھی ،ہندی اور گجراتی جیسی زبانوں کے علاقے میں آٹھ کے ہندسے کو غیرمتبرک مانا جاتا ہے‘۔یہ بات میرے لیے بھی نئی اور حیرت انگیز ہے۔وہ مزید تحریر کرتے ہیں کہ ’دکن میں’ تیرہ تیجی‘ کی ایک اصطلاح عورتوں میں مشہور ہے۔اس اصطلاح کا اطلاق صفر کے مہینے کے ابتدائی تیرہ دنوں پر ہوتا ہے۔عورتیں ان ایام کو منحوس سمجھتی ہیں اور شادی بیاہ کی رسومات سے رک جاتی ہیں۔بہرحال تین تیرہ نو اٹھارہ کو غزوہ بدر سے جوڑنے میں مجھے تامل ہے‘۔کچھ یہی صورت حال ہمارے ہاں بھی ہے۔یہاں ’تیرہ تیجی‘ کو ’تیرہ تیزیاں‘ بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ’بارہ وفات‘ کو بھی جوڑتے ہیں اور اس سب کو حضورؐ کی بیماری سے نتھی کرتے ہیں۔اس طرح اس کا تعلق بہرحال مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے اور عقیدتوں کے راستے عقیدے بنتے ہیں۔فرقہ واریت اسی راستے درآتی ہے۔

شمیم طارق کی مرتب کردہ ’سیرۃ الرسول‘ میں ’ذرہ ذرہ میں ہے شان مصطفائی دیکھو‘ کا تذکرہ بھی ڈاکٹر سید نے خوب کیا ہے۔جس میں مضمون نگار نے ریاضی ہنرمندی کے ذریعے سے کسی بھی لفظ سے ۹۲برآمد/ مستخرج کرنے کی کوشش کی تھی۔ڈاکٹر سید نے ’اراقت‘ کی بحث بھی خوب کی ہے کہ مہاراشٹر کے گاؤں تانڈے میں بنجارہ قوم کی عورتیں پیشاب سے فراغت پانے کے بعد عربی لفظ ’اراقت‘ کا استعمال کرتی ہیں کہ ’اراقتیر جاؤں چھوں‘(پیشاب کے لیے جاتی ہوں)۔یہ بحث طلب ہے کہ یہ لفظ ان گاؤں کے لوگوں تک کیسے پہنچا۔یہی حال ہمارے ہاں گوجر قبائل میں مروج ایک لفظ ’lick ‘ کا ہے۔ان پڑھ بوڑھیاں بھی ایسے بولتی ہیں کہ ’کتو پانڈا لک گؤ‘(کتا برتن چاٹ گیا ہے)۔کیا یہ لفظ گوجری سے انگریزی میں گیا یا وہاں سے آیا،بھی بحث طلب ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے تائے قرشت اور ہائے ہوزپر بھی بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ ’عربی کے قاعدے پر اردو میں بعض اوقات لفظ کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔مثلاً شرارت کو عربی قاعدے (تائے تانیث) کے تحت مونث باندھتے ہیں مگر شربت ہمارے یہاں مذکر باندھا جاتا ہے‘۔ڈاکٹر صاحب کی املا سے متعلق یہ بحث بھی قابل غور ہے۔’تم نے شربت پی لیا ہے‘ اور’میں نے شربت پی لی ہے ‘دونوں ہی استعمال ہوتے ہیں۔ایک اور بحث ’کبھی بھی‘ اور ’ابھی بھی‘ کی ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے محل نظر قرار دیا ہے اور تحریر کیا ہے کہ موقع محل کے لحاظ سے یہ ترکیبیں بعض اوقات ضروری ہوجاتی ہیں۔’وہ کبھی آئے گا‘ اور ’وہ کبھی بھی آسکتا ہے‘ میں واضح فرق ہے۔اپنے تبصرے میں فاضل تبصرہ نگار نے غازی صاحب کی اس بات کو ہدف تنقید بنایا ہے کہ اردو مسلمانوں اور پاکستانیوں کی زبان ہے۔ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے ان کی یہ بات درست ہے اور ان کے جذبے اور درد دل کی قدر کی جانی چاہیے۔

رؤف خیر کے تبصرے میں اردو کے قدیم مرکز لکھنو میں اردو کے بولی ہوکر رہ جانے کا پڑھ کر ایک لمحے کے لیے میں سکتے میں آگیا۔کیا اردو نے یہ دن بھی دیکھنے تھے؟رؤف خیر نے درست تجزیہ کیا ہے کہ ’انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنا اعزاز سمجھا جانے لگا ہے۔خود اردو والے اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے۔کم ازکم زبان دوم کے طور پر ہی سہی اگر اردو پڑھائی جاتی تو مادری زبان کا حق ادا ہو جاتا ورنہ اردو ان بچوں کو دودھ نہیں بخشے گی‘۔یہ تو ہندوستان کی صورت حال ہے لیکن ادھر پاکستان اور آزادکشمیر کی صورت حال اس سے مختلف نہیں۔ہندسوں کی بحث میں رؤف خیر نے غازی صاحب کی توجہ ’تین تیرہ نو اٹھارہ ‘ اور ’سات سو چھیاسی‘ کی طرف دلائی ہے۔۷۸۶ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک حسن آغاز کو ہندسوں میں ڈھال کر بے برکت بنا دیا گیا ہے‘۔ان کی ’لولاک لما خلقت الافلاک‘ اور’انا مدینۃ العلم وعلی بابھا‘ پر بحث توجہ طلب اور باعث عبرت ہے خاص طور پر ’علامہ اقبال سے لے کر چندر بھان خیال تک لولاک کی گونج ہے‘۔

عظیم اختر کا تبصرہ ان کے دل کی پکار ہے۔ان کی تمام باتیں دل کے نہاں خانوں سے نکلی ہیں اور اسی لیے اثر رکھتی ہیں۔ان کی باتوں کو حوالے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے ’ہندوپاک کا موجودہ شعری منظر نامہ مشاعروں اور سیمی ناروں سے مملو ہے۔اردو زبان کی ترویج وترقی کے نام پر قومی و عالمی مشاعروں اور سیمی ناروں کا بازار گرم ہے‘۔یہ درست تجزیہ ہے۔ہم نے اردو کو صرف شاعروں اور مشاعروں کی زبان بنا دیا ہے حالانکہ زبان کا تعلق زندگی کے تمام فنون سے ہوتا ہے۔عظیم اختر کا یہ فرمانا بھی درست ہے کہ ’سرحد کے اس پار جہاں اسے قومی زبان کی صورت میں ٹھور ٹھکانا مل گیا،اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہے‘۔اب تو یہ بے اعتنائی اس حد تک جا پہنچی ہے کہ اردو کو پاکستان کی علاقائی زبانوں کے مساوی قرار دیے جانے کی قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں۔یہ سوال بھی اٹھایا جا چکا کہ اردو کس کی زبان ہے۔اور یہ سب پاکستان کی خالق مسلم لیگ کے دور میں ہو رہا ہے۔

رؤف خیر نے تو صرف لکھنو کا رونا رویا تھا ۔عظیم اختر تحریر کرتے ہیں کہ ’دہلی ، رام پور ،لکھنو ،بھوپال ، حیدرآبادوغیرہ ادبی مراکز کی عام سماجی زندگی سے اردو عنقا ہوچکی ہے۔اکثریتی طبقے نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی اردو کو اسلامی اساس رکھنے کی پاداش میں اپنے شب و روز سے کھرچ کر پھینک دیا ہے۔مسلمانو ں کی نئی نسلیں اردو زبان کا رسم الخط پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔کسی حد تک دینی مدارس نے اس بے گھر اور بے در زبان کو سہارا دیا ہوا ہے‘۔یہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ اردو کے وارث اب منبر و محراب ہی نظر آتے ہیں۔’مسلم گھرانوں میں شادی بیاہ کے دعوت نامے ہندی رسم الخط میں لکھے جانے لگے ہیں‘۔اور یہاں انگریزی میں لکھے جا رہے ہیں۔ان پڑھ بھی رومن رسم الخط میں دعوت نامے لکھوا کر خوش ہوتا ہے۔’قبرستانوں میں تاحدنظر ہندی کے کتبے ہی نظر آتے ہیں‘۔یہ یہاں نہیں ہوا اور نہ ہوگا کہ اردو مقبروں کی زبان توبہرحال رہے گی ۔’مساجد کے نوٹس بورڈ اور مذہبی کتابیں دیوناگری رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں۔اردو شعراء اپنا کلام ہندی رسم الخط میں چھپوا کر شاعری کو کیش کروا رہے ہیں۔چائے خانوں اور نائیوں کی دوکانوں پر اب اردو نہیں ہندی اخبار ملتے ہیں‘۔یہ صورت حال اس سے زیادہ خوف ناک ہے جس کا ہم کو معلوم ہے۔وہ مزید تحریر کرتے ہیں کہ ’ریاستی اکیڈیمیوں ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جیسے نیم سرکاری اداروں کی گولیوں اور ٹانکس کے ذریعے اس زبان کو زندہ رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔جامعات کی صورت حال اس سے دگر گوں ہے ‘۔اور ایسا ہی ادھر بھی ہے۔جامعات کے پروفیسروں کو اردو کی دگرگوں حالت کا ادراک ہی نہیں۔

عظیم اختر کا کہنا ہے کہ ’تدریس کا حال یہ ہے کہ ایم اے اردو کے طلبہ اور ریسرچ سکالرز غالب و اقبال کے اشعار کی صحیح قرات تو کجا ڈپٹی نذیر احمد، میر امن دہلوی اور رجب علی بیگ سرور کی نثر صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے‘۔ہندوستان میں آزادی کے بعد اردو کے لیے حالات کبھی بھی سازگار نہیں رہے ۔اصل مسئلہ تو ادھر کا ہے۔جو ریاست اسلام اور اردو کی بنیاد پر بنی۔وہ مزید تحریر کرتے ہیں کہ ’مملکت خداداد پاکستان میں اردو بظاہر نہایت ہی مستحکم پائدان پر کھڑی ہے اور قومی زبان ہونے کے ناتے اسے سرکاری سرپرستی اور تمام مراعات حاصل ہیں۔لیکن عجیب اتفاق ہے کہ جس ملک کی یہ قومی زبان ہے ،وہاں کے کسی بھی علاقے یا خطے کے عوام کی مادری زبان کبھی نہیں رہی اور نہ ہے‘۔حقیقت یہ ہے کہ اردو پاکستان میں اب اتنی ہی مظلوم ہے جتنی آزادی کے بعد ہندوستان میں تھی۔۱۹۷۳ء کے آئین کے آرٹیکل ۲۵۱میں اسے آئینی تحفظ تو دیا گیا ہے لیکن ۴۱ سال بعد بھی وہ اسی مقام پر تنہا کھڑی ہے۔یہ ملک کی سرکاری زبان نہیں بن سکی۔انگریزی کی بالادستی جاری اور اس قوم پر طاری ہے۔یہ اچھا ہی ہے کہ اردو پاکستان کی کسی اکائی کی مادری زبان نہیں ورنہ دوسری اکائیاں اسے تسلیم ہی نہ کرتیں۔اردو کی لسانی ہیئت اور صحت زبان سے ادھر بھی کسی کو دلچسپی نہیں اور اسی کا تو رونا غازی صاحب نے رویا ہے۔

عظیم اختر درست تحریر کرتے ہیں کہ ’پاکستان کی اردو دنیا خوش قسمت ہے کہ وہاں شاعری ،فکشن اور تنقید کے نام پر اردو سے جزیہ وصول کرنے والے شاعروں ، ادیبوں اور نقادوں کے جم غفیر میں پروفیسر غازی جیسے ماہر لسانیات کا دم غنیمت ہے‘۔پاکستان کی اردو دنیا اتنی بھی خوش قسمت نہیں۔انتظار حسین کا اس کتاب پر تبصرہ پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔آپ کا یہ تجزیہ درست ہے کہ ’تنقید کتابوں سے اردو کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہااور غازی صاحب کی یہ ایک کتاب درجنوں تنقید کتابوں پر بھاری ہے‘۔تبصرے کی آخری سطور غور طلب ہیں اور دعوت فکر و عمل دیتی ہیں کہ’اگر غازی صاحب جیسے درد مند اردو والوں کی خدمات سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب مملکت خداداد پاکستان بھی اردو الفاظ کا صحیح تلفظ ،درست املا اور موزوں استعمال گزرے زمانے کی باتیں ہو کر رہ جائیں گی۔اور آنے والی نسلوں کے لیے وہ اردو معتبر ہو جائے گی جو آج ریڈیو ،ٹی وی اور فلموں کے ذریعے سنائی جا رہی ہے۔اور اخبارات میں نظر آرہی ہے‘۔

پروفیسر خالد محمود نے دو سوال اٹھائے ہیں:’کیا کسی زبان کو جو اپنے عروج کو پہنچ رہی ہو،اخلاقی انحطاط کا سامنا ہو سکتا ہے؟یہ اخلاقی انحطاط جو ظاہر ہے معاشرے کے اخلاق کا آئینہ دار ہوتا ہے ، کسی طور پر زبان کے عروج میں مزاحم ہوسکتا ہے؟اور غازی صاحب پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ’فاضل محقق نے زبان کے اس مظہر کو زبان سے منسلک کیا ہے جو محل نظر ہے۔زیادہ سے زیادہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کے اندر ان محاوروں اور کہاوتوں کا جگہ پانا معاشرتی وعمرانی انحطاط کا لازمی شاخسانہ ہے‘۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا اردو زبان عروج کو پہنچ رہی ہے یا زوال کا شکار ہے؟پروفیسر صاحب نے ہمارے مزید مطالعے کے لیے کچھ اور کتابیں تجویز کی ہیں۔ان میں آسی ضیائی کی ’درست اردو‘ ،ماہر القادری کی ’ہماری نظر میں‘شامل ہیں۔وہ ماہر کے مباحث اور فضل الٰہی عارف کے مضامین کو مرتب کرنے کا کام بھی غازی صاحب کو سونپنا چاہتے ہیں۔جناب اردو ادب کے ٹھیکہ داروں کے لیے بھی کچھ کام چھوڑ دیں۔

ندیم صدیقی کے مطابق یہ کتاب لغت تو نہیں مگر لغت ہی کے قبیل سے تعلق رکھتی ہے اور ہرگانوی صاحب نے اس لغت کو علیحدہ سے شایع کرکے آپ کی خواہش کی تکمیل کر دی ہے۔(اگرچہ اس کا نام صرف ’لسانی لغت‘ ہوتا اور ڈاکٹر ہرگانوی کے نام سے پہلے مرتب لکھا ہوتا تو میرے نزدیک درست تھا)۔آپ نے ہندوستانی ٹی وی چینل پر مخالفت کے معنوں میں ایک لفظ ’خلافت‘ کا تذکرہ کیا ہے تاہم یہاں یہ استعمال نہیں ہوتا۔ہاں ہمارے ہاں ان پڑھ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔آپ نے مستنصر حسین تارڑ پرگرفت کی ہے یہاں تو اکثر اس زبان زدگی کا شکار ہیں اور ایسا کرتے ہوئے واقعی ان کی ’انسلٹ‘ ہوتی ہے بے عزتی نہیں۔اردو والوں نے طعام کے لیے’ ظہرانہ‘ اور رات کے کھانے کے لیے ’عشائیہ‘ جیسے لفظ کیوں دیار غربت میں پہنچا دیے ،اس پر تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا بھی ایک فرقہ وارانہ پس منظر ہے۔لفظوں کے بارے میں باقر مہد ی کا شعر برمحل لگا
ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑیے صاحب
کہ اس مکاں میں ایک عمر تک رہے گا کوئی

ندیم صدیقی نے تبصرے کے آخر میں تحریر کیا ہے کہ’ غازی صاحب سے کہیں کہیں کلمہ حصر کے لکھنے میں سہو ہوگیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ نئی اشاعت میں اس کی اصلاح کی جائے گی‘۔یاسمین گل نے درست لکھا ہے کہ ’طالب علم نمبر لینے کے لیے سب کچھ یاد کرتا ہے لیکن زندگی پر لاگو کرنے کے لیے اپنے پاس کچھ بھی محفوظ نہیں رکھتا،نہ وہ بیدار ہے نہ محتاط‘۔یاسمین صاحبہ بیدار اور محتاط تو ہم اساتذہ نہیں رہے وہ بیچارہ کیا کرے۔یاسمین گل کا اصرار ہے کہ آیندہ ’اطلاقی اہمیت‘ کے باب کا کتاب میں اضافہ کیا جائے‘۔کس کس چیز کا اضافہ ہوگا اس کتاب میں۔یہ تو ’انسائیکلو پیڈیا‘ بن جائے گی۔شمس جیلانی کا اظہار ہے کہ ’انگریز نے اردو اور ہندی کو بڑھوتری دی لیکن لکھنو اور دہلی میں لسانی تضاد عروج پر رہا‘۔انھوں نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کی بات کی ہے تو ہندوستانی فلم بہت تیزی سے ہندی اور ہندی رسم الخط کے حصار میں جا رہی ہے اور اس کا اردو سے ناتاٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ان کا یہ مشاہدہ درست ہے کہ ’عوامی مطالبوں کے باوجود پاکستان میں اشرافیہ کی زبان اردو نہیں انگریزی ہے‘۔ان کی خواہش ہے کہ ’اردو کو بے لوث لوگوں کی ضرورت ہے جو پیٹ سے بالا ہو کر اور یکسو ئی سے کام کریں۔کاروباری ذہنیت نے اردو کا بیڑا غرق کیا ہے‘۔بے لوث لوگ ، یکسوئی اور پیٹ سے بالا افراد کہاں سے آئیں گے؟

رشید افروز تحریر کرتے ہیں کہ ’بیشتر لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ مل جانے سے یا اردو اکادمیوں کے قیام سے اردو کے مسائل حل ہو جائیں گے۔برصغیر کی تاریخ شاہد ہے کہ اردو زبان کا فروغ حکومت کا مرہون منت کبھی نہیں رہا‘۔لیکن رشید صاحب ماضی کے بے لوث لوگوں کا جذبہ اب کہاں سے آئے گا۔پہلی بات آپ شاید ہندوستان کے تناظر میں کہہ رہے ہیں۔جو شاید درست ہو۔آپ کی دوسری بات کا تعلق ہندوپاک دونوں سے ہے اور درست ہے۔اردو زبان کا رشتہ جب تک ہم اپنے دل اور بل دونوں سے نہیں جوڑیں گے صرف جذبات سے پیٹ نہیں بھرے گا۔اب مسائل بہت بڑھ چکے ہیں۔ڈاکٹر ارشاد شاکر کا اظہار ہے کہ ’کیا ہم جنسیت کا تعلق حضرت لوطؑ سے تھا ؟یا صدوم میں رہنے والے بدفطرتوں سے۔پھر اسے لواطت کے بجائے ’صدومیت‘ نام کیوں نہ دیا گیا‘۔تو جناب اب دیا جاسکتا ہے ۔یہ تو اساتذہ پر ہے کہ وہ لفظ صدومیت استعمال کریں یا لوطی۔

ڈاکٹر صاحب سمجھتے ہیں کہ ’عربی فارسی سے دوری اب ہمارا قومی نشان بنتا جا رہا ہے‘۔ورنہ ’علماء‘ کو ’علما‘ لکھنے کی حمایت کون کرتا۔عربی الفاظ کا آخری حرف ساکن نہیں ہوتا۔ہمزہ ہٹانا کسی بھی قاعدے کلیے سے محروم ہے۔انھوں نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ ’غازی کے کام کو سرکاری سطح پر آگے بڑھایا جائے۔غلط عقاید پر استوار سارے محاورات اور ضرب الامثال کے ناسور سے جسد اردو کو پاک کردیا جائے‘۔خواب اچھا ہے لیکن اس کی تعبیر اتنی اچھی نہیں اور بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟

بشیر حسین ناظم لفظ ’کتاب‘ کو عربی کی مناسبت سے مذکر باندھنے کی حمایت کرتے ہیں۔اور اس کے لیے حوالہ ’ذلک الکتاب ‘ کا لاتے ہیں۔الکتاب سے مراد قرآن ہے۔عام کتاب اور قرآن میں فرق تو ہونا چاہیے۔اسی طرح ’ناقہ‘ کو بھی مونث باندھنے پر زور دیتے ہیں جو بحث طلب ہے۔خواجا عارف نے بھی ’لسانی مطالعے‘ کو حوالہ جاتی کتاب قرار دیا ہے اور تحریر کیا ہے کہ ہر اہل علم کا اخلاقی اور سماجی فرض ہے کہ وہ غلط کے مقابل صحیح کی نشاندھی کا عمل جاری رکھے اور غلط الفاظ و تراکیب کے استعمال سے اجتناب کرتے رہیں۔انھوں نے ’برادران یوسف‘ کی ترکیب ردکرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ اس سے بھی عصمت انبیاء پر حرف آتا ہے جو اختلافی ہے۔’ڈھا دے مسجد۔۔۔‘ والا شعر الحاقی ہے اور اس کے بارے میں عارف کا کہنا ہے کہ ’شاعر کا نام تلاش کیا جائے‘۔ویسے یہ مبارک کام خواجا صاحب ہی کردیں تو میاں محمد بخش اور ’سیف الملوک‘ پر احسان ہوگا۔

ڈاکٹر جمیل احمد میر کا مشاہدہ ہے کہ ’پچھلی دو دہائیوں میں والدین میں اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم دلانے کا رجحان بڑھا ہے۔چناں چہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر گلی محلے میں نجی سکول برسات کی کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں‘۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کی ان پڑھ ماں بھی ’ٹی ڈرنک کرلو‘۔’گڈ مارننگ‘ اور ’روف پر فین رن کر رہا ہے‘ جیسی انگریزی زدہ اردو بولتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔میر صاحب کا یہ طنز بھی بجا ہے کہ ’اردو شاعری سے اگر مینا وساغر کو نکال دیں تو پیچھے حالی ہی بچتے ہیں۔حالی بھی کہاں ، وہ بھی نشاط نغمہ و مے ڈھونڈتے ہیں‘۔سفیر اختر نے املا اور اصلاح زبان کے لیے مخزن ، ہمایوں ، الحمراء ، معارف ، برہان اور فاران کے مضامین کو بھی سامنے رکھنے اور ان کے مطالعہ پر زور دیا ہے۔’اشرفی‘ اور ’مستری‘ پر سفیر اختر نے بحث کی ہے اور مستری کو غیر سامی قرار دیا ہے۔ وجہ انھوں نے نہیں بتائی۔کیوں نہ ان الفاظ کو عربی سے مشتق قرار دیا جائے؟انھوں نے کچھ تسامحات کا حوالہ دیا ہے اور ان کو دور کیا جانا چاہیے۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’لسانی تحقیق کے کچھ نئے زاویے‘ میں صرف نو جگہ حاشیہ نمبر دیا گیا ہے مگر خاتمہ مضمون پر ۱۷ حاشیوں کا اندراج ہے۔حاشیہ ۱۰ تا ۱۷ کا تعلق بظاہر مضمون کے باقی ماندہ مندرجات سے نظر نہیں آتا۔غالباً مضمون کا کچھ حصہ حذف کردیا گیا ہے مگر متعلقہ حصے کے حواشی حذف ہونے سے رہ گئے ہیں‘۔ یہ کمی میں نے بھی محسوس کی ہے۔غازی صاحب کو اسے دیکھ لینا چاہیے۔

پروفیسر محمد اویس سرور نے ڈاکٹر حلیمہ منصور کے مقالے ’اردو زبان پر عربی کے اثرات‘ کا تذکرہ کیا ہے۔اس کے مباحث کو بھی ڈاکٹر صاحبہ یا پروفیسر صاحب کو سامنے لانا چاہیے۔انھوں نے ’ذومعنی‘ لفظ پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ ’یہ دو عربی الفاظ کامجموعہ ہے۔اسے ’ذومعانی‘ لکھا جائے تو زیادہ پرمعنی ہوگا۔کیونکہ ’ذومعنی‘ کا مطلب ’ایک معنی دینے والا لفظ‘ کے ہیں جبکہ ’ذومعانی‘ کا مطلب ’زیادہ معنی دینے والا لفظ‘ کے ہوں گے۔اسی طرح ’ذولسانی‘ اور ’پرمعنی‘ کی جگہ ’ذولسانیاتی‘ اور ’پرمعانی ‘ زیادہ وقیع ہے۔لوطی پر بحث کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’اس لفظ کو تو عربی فقہاء اور محدثین نے استعمال کیا ہے اور اسے معاشرتی اور اخلاقی پستی کا تسلسل قرار دینا محل نظر ہے‘۔پروفیسر صاحب کی اس بات میں بھی وزن ہے۔محدثین کے بیان کے مطابق اس فعل قبیح و شنیع کا تعلق حضرت لوطؑ سے نہیں بلکہ قوم لوط کی طرف ہے۔کمپوزنگ کی غلطیوں کی بات کی ہے ،نشاندہی نہیں کی۔

طارق اسد کا خیال ہے کہ ’یہ زبان لشکر گاہ میں موجود اجنبی جنگ جوؤں کی باہمی ضروریات کی تکمیل کے لیے وجود میں آئی‘۔ان کا یہ موقف درست نہیں۔زبانیں اس طرح وجود میں نہیں آتیں۔اسپرانتو کا حال دیکھ لیں۔اردو کی مماثلت ہندوستان کی اکثر زبانوں سے اتنی زیادہ ہے کہ اسے لشکر گاہ کی مصنوعی زبان قرار دیا ہی نہیں جا سکتا۔پروفیسر جہانگیر عباسی نے ڈاکٹر مصطفٰی خان کے ’ہمارا تلفظ‘ او رپروفیسر عزیز جبران کے ’بیلاگ‘ کے مطالعہ پر زور دیا ہے۔محمد طارق علی کا مشاہدہ ہے کہ برصغیر کا کوئی بھی خطّہ اس زبان کو اپنانے کی بجائے ڈس اون کرتا ہے۔چناں چہ اپنی پیدایش کے سینکڑوں سال بعد بھی برصغیر میں اس کی حیثیت ایک من موجی اور منزل ناآشنا مسافر سے زیادہ نہیں۔یوں کہنے کو اسے ایک بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ہر اہم ملک میں اردو بستیاں بھی موجود ہیں۔ان کا تحریر کرنا ہے کہ کم و بیش تمام محاوروں اور الفاظ کا استعمال نہیں رہا۔عربی زبان بھی آلائشوں سے پاک نہیں‘۔ان کا یہ تجزیہ کافی سے زیادہ درست ہے۔اس سے بھی انکار نہیں کہ دنیا کی کوئی بھی زبان کسی بھی قسم کے لسانی سانچے سے ڈھل کر نہیں بنتی بلکہ بھانت بھانت کے لوگوں کے برتنے سے بنتی اور تقویت پاتی ہے‘۔لیکن محترم اس کی کانٹ چھانٹ تو کرنا ہی پڑتی ہے اور یہ استادان فن ہی کرسکتے ہیں۔

پروفیسر محمد جنید اکرم نے ’پڑھے لکھوں‘ کی بات کی ہے۔فرماتے ہیں’غازی صاحب کی مادری زبان اردو نہیں بلکہ پنجابی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اردو کی جس قدر خدمت پنجابیوں نے کی ہے،اردو دانوں نے نہیں کی(جانے پروفیسر محترم کس کو اس ملک میں اردو دان قرار دے رہے ہیں)۔میں زبانوں کے معاملے میں ہر طرح کے تعصب سے پاک ہوں مگر میرا ایمان یہ ہے کہ مجھ پر مادری زبان کا حق سب سے زیادہ ہے‘۔یہ تعصب نہیں تو اور کیا ہے۔پروفیسر صاحب اس کو بدترین تعصب کہتے ہیں اور آپ کی اس بات سے دکھ ہوا۔مزید تحریر کرتے ہیں کہ ’کاش پروفیسر غازی اسی طرح کی ایک کتاب اپنی مادری زبان میں لکھ کر اپنی ماں کی مامتا کا حق ادا کریں تو مجھے اور بھی خوشی ہوگی‘۔اس پر مزید تبصرے کی ضرورت میں نہیں سمجھتا۔یہی وہ تعصب ہے جو اردو کو مستقبل میں درپیش ہے۔

ڈاکٹر ہرگانوی کی یہ بات ہندوستان کی حد تک درست ہے کہ ’مسلمان تعداد میں تھوڑے تھے لہٰذا اپنی زبان مقامی لوگوں پر تھوپ نہیں سکتے تھے۔انھوں نے ہندوستان ہی کی کسی مقامی بولی کو اپنایا اور اسے اپنے خیالات و احساسات کا ذریعہ اظہار بنایا۔اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل کیے۔اور مقامی اثرات اور مسلمانوں کے لسانی اور تہذیبی اثرات کے امتزاج سے اس بولی نے ایک نیا رنگ و آہنگ اختیار کرلیا۔اس طرح یہ بولی آہستہ آہستہ مقبول عام ہوتی گئی۔ہندوی ،ہندستانی،ہندوستانی،گوجری ،دکنی وغیرہ کے نام حاصل کرتی ہوئی ریختہ اور اردو کی شکل میں نمودار ہوئی۔یہ کسی خاص لمحے کی پیداوارنہیں۔اس نے مختلف بولیوں کے اثرات قبول کیے۔۔۔عام زندگی میں بھی الفاظ اور معنی و مفہوم کی کارفرمائی کا ادراک ضروری ہے۔اور اسی ادراک کا نام ’لسانی مطالعے‘ ہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے کہ ’معاشرہ ، بڑوں کا طریق عمل اور کتابیں :یہ تین چیزیں مل کر کسی شخص کو زبان کا باصلاحیت بولنے والا بناتی ہیں۔ان بنیادی چیزوں کو نظرانداز کرکے آپ نے اردو زبان کے ساتھ بڑی ناانصافی کی ہے۔ادب اور خاص کرشاعری میں کہی ہوئی بات کو لغوی معنی میں نہ لینا چاہیے‘۔فاروقی جلالی طبیعت کے مالک سیکولر روایات کے علمبردار محقق ہیں اور ان کی نجی زندگی اس پر دال بھی ہے۔وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’کیا عربی میں ایسی کہاوتیں اور محاورے نہیں جو مذہب اسلام یا شریعت اسلام کے خلاف ہیں؟عربی زبان میں حشرات الارض کو ولدالزنا کیوں کہتے ہیں۔’جنازہ بردار‘ کو عربی میں ’ابن النعش‘ کہتے ہیں جو مذکر ہے لیکن اس کی جمع بنات النعش کیوں ہے؟اور وہ پھر بھی مذکر کیوں ہے؟داڑھی جار کے مطلب ’حرام زادہ‘ پر فاروقی کو اعتراض ہے۔اسی طرح انھوں نے ’ریش خندہ‘ کو غلط کہا ہے کہ یہاں اضافت نہیں اور ’ریش‘ کا لفظ داڑھی کے معنی میں نہیں ’زخم‘ کے معنی میں ہے۔لواطت تو عربی میں ہے اور ان الفاظ کو خلق کرنے کے لیے عربی کو ماخوذ کریں‘۔یہ تمام باتیں وزن رکھتی ہیں اور درست بھی ہیں۔ان پر سوچا جانا چاہیے اور ان کا جواب بھی آنا چاہیے۔فاروقی کے مطابق’لوطی‘ کے معنی ’بازاروں میں بے مطلب پھرنے والے‘ کے ہیں۔

خلیل طوقار کا تبصرہ املا کے حوالے سے ہے اور وہ کچھ الفاظ کو توڑ کر لکھنے پر احتجاج کرتے نظر آئے جیسے بیدار اور تہبند۔پروفیسر ظفراقبال نے وہی مکھی پر مکھی ماری ہے کہ ’آپس کے میل جول سے ایک مخلوط اور نئی زبان کی داغ بیل پڑی‘۔ان کے نزدیک ’کچھ لفظ مرجاتے ہیں تو کچھ نئے وجود میں آ جاتے ہیں‘۔ویسے میرے نزدیک تو لفظ مرتا نہیں اور نہ متروک ہوتا ہے۔ان کا فرمانا ہے کہ ’زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘۔لیکن بولنے والوں کا تو ہوتا ہے جناب۔’کچھ محاورے اور الفاظ اگر نتھی ہوگئے تو ان سے اسلام کو کیا خطرہ درپیش ہے‘۔ان کی یہ بات تحقیق طلب ہے کہ ’آپ کو یہ تحقیق فرما لینی چاہیے کہ وحشت کا لفظ عربی زبان میں وحشی بن حرب کے بعد ہی داخل ہوا ہے‘۔’غزنی سے دوارکا پر باربار حملہ آور ہونے والا کسی کے نزدیک(کسی؟)بت شکن ہے تو کسی کے نزدیک لٹیرا‘۔جناب کھل کر بات کریں کہ مسلمانوں کے نزدیک بت شکن ہے اور سندھیوں کے نزدیک لٹیرا اور یہی زبان انھوں نے ہندوؤں کو بھی دے دی ہے۔کبھی موقع ملے تو ’سومناتھ‘ کا مطالعہ ضرور کریں۔’بربریت کی اصطلاح اگر مسلم دشمنی کی عکاس ہے تو ہوگی‘۔آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کا اسلام سے دور کا بھی تعل نہیں۔تاہم پروفیسر ظفراس بات پر معترض ہیں کہ ’پیش لفظ میں شامل الفاظ ’تاہم ماجرا یہ ہے ۔۔۔توجہ دینی چاہیے‘۔تک شامل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پیش لفظ اور آراء محاکمہ کے لیے نہیں ہوتے‘۔یہ مصنف کی مرضی ہے کہ وہ تیسری اشاعت میں اسے نکال دے۔

ڈاکٹر صابر لودھی کا خیال ہے کہ ’اردو جنوبی ایشیا کی مقبول ترین زبان ہے۔اسے کسی مذہب یا قوم سے متعلق کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا‘۔لیکن ڈاکٹر صاحب یہ زبان صرف ہماری قومی زبان ہے اور ہمار ی ریاست کا مذہب اسلام ہے۔اس میں شک نہیں کہ یہ جنوبی ایشیا ہی نہیں اس سے آگے بھی معروف ہے لیکن ہم اس پر تو تنقید نہیں کرتے کہ وہ اسے کیسے بولتے اور تولتے ہیں۔تاہم آپ کی یہ بات درست ہے کہ ’فارسی کا گلا گھونٹ کر انگریز نے اردو کو عوام میں مقبول بنایا‘۔یہ بھی یاد رکھیں کہ انگریر سے پہلے ہی صوفیاء اس کو استعمال کررہے تھے اور یہ عوام کی اور فارسی خواص کی زبان تھی۔اپنی فارسی دانی پر فخر کرنے والا غالب ’دیوان غالب‘ اردو کی وجہ سے مشہور ہوا اور اقبال کی اردو شاعری کے چرچے ہیں فارسی کو سمجھانے کے لیے آپ کو اساتذہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ویسے بھی فارسی کو رونا چھوڑیں۔ہماری قومی زبان کی بات کریں۔صابر لودھی ’رانی کیتکی اور قصہ اودھے بھان‘ کی اردو بھگت کبیر اور خان خاناں کے دوہوں کو اردو شمار کرتے ہیں۔حالانکہ ’رانی کیتکی کی کہانی‘ مصنوعی زبان ہے اور اسپرانتو کی طرح ہی کی ہے۔انشاء نے اسے مختلف زبانوں کا ملغوبہ بنا کر پیش کیا ہے اور شیخی بگھاری ہے کہ مجھے ساری دیسی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اردو میں ہندی ،انگریزی اور مقامی الفاظ کے الفاظ کو بھرتی کرنا درست سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر معین نظامی نے کعبے پر قلب مومن کی فضیلت کو تمام صوفیاء کے ہاں متفقہ اور مسلمہ قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کی اہمیت نہیں صوفیاء کے اوال کی ہے۔’حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی کی مادری زبان غالباً فارسی تھی ،عربی نہیں‘۔’غالباً‘ تحقیق رویہ نہیں ۔’حافظ شیرازی بذات خود شراب کے رسیا اور دلدادہ تھے جیسا غیر محتاط جملہ تاریخی شواہد مانگتا ہے‘۔بالکل درست فرمایا آپ نے۔تحقیق کا اصول بھی یہی ہے۔انھوں نے کچھ تسامحات کی نشاندھی کی ہے جو ’اردو:معیار اور استعمال‘ کے صفحہ ۲۵۵ پر موجود ہے اور اس کو تیسری اشاعت میں ضرور زیر غور لایا جانا چاہیے۔انور سلیم کنجاہی اپنے خط میں تحریر کرتے ہیں کہ ’مجوزہ اغلاط کی تصحیح اسی صورت میں اردو ادب کے نوجوان لکھاریوں کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہیں جب تک تمام مروجہ اردو لغتوں کے پیش لفظ (دیباچے) کے طور پر آپ کی تصنیف ’لسانی مطالعے‘ کو ان کا حصہ نہ بنایا جائے‘۔کنجاہی کا مشورہ صائب ہے لیکن اس طرح کے خطوط ارباب اختیار اور اردو ادب کے پنڈتوں کو بھی ارسال کیے جانے چاہیے۔

کتاب ’اردو:معیار اور استعمال‘ کا ایک تفصیلی مطالعہ پیش خدمت ہے۔کوشش کی ہے کہ جملہ نکات زیر بحث لائے جائیں تاکہ غازی صاحب کے لیے تیسرے ایڈیشن میں آسانی ہو ۔ کچھ نکات رہ بھی سکتے ہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ جن کو میں نے چھوڑ دیا وہ واقعی غیرضروری ہوں۔میری نالائقی گردانیے کہ ہندوستان کے ایک جید محقق کی آج تک کوئی کتاب،شعری مجموعہ میں نہیں پڑھ سکا۔تاہم امید ہے کہ ہرگانوی صاحب اس گستاخی پر قید بامشقت کے طور پر کچھ اپنی تخلیقات سے نوازیں گے۔ان کی صلاحیتوں اور عمر میں برکت کے لیے دعاگو ہوں۔

abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51464 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More