ہر انسان فطری طور پر بھر پور صلاحتوں کا مالک ہوتا ہے۔
یہ صلاحتیں فطری ہوتی ہیں لیکن اس کے آس پاس کے ماحول سے ابھرتی اور نکھرتی
ہیں۔ غالب کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں جس پر نقادانِ فن نے طرح طرح سے
اظہار خیال کیاہے۔ ان میں سے ایک پہلو ان کا علمی ماحول ہے مرزا صاحب کا
تعلق ایک سپاہی پیشہ خاندان سے تھا ان کے علوم و فنون کی کمی تھی اس کے
باوجود غالب جیسی شخصیت کو علمی ماحول نصیب ہوا اور وہ باکمال علمی و فنی
شخصیت کے مالک بن گئے۔
مرزا غالب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کی والدہ ماجدہ نے ان میں لکھنے پڑھنے
کاشوق پیدا کیا اورا نہوں نے ابتدائی تعلیم شروع کر دی لیکن حقیقت میں غالب
کو مطالعہ اور تعلیم کا جو شوق پیدا ہوا وہ محلہ کے ماحول سے ہوا انہوں نے
ہوش سنبھالتے ہی اپنے ارد گرد ماد محمد معظم اور میرا عظم جیسی باکمال اور
قابل شخصیات کو موجود پایا ان افراد نے اپنے محلے میں اسکول قائم کئے اور
تعلیم کا ماحول پیداکردیا۔ اس وجہ سے آگر ہ فارسی زبان کا سب سے بڑا مرکز
سمجھا جانے لگا۔ مرزا صاحب کو سب سے پہلے مولوی محمد معظم کی صحبت میسر
ہوئی غالب نے ان کی صحبت کا بڑا گہرا اثر لیا اور فارسی زبان میں ایک خاص
دلچسپی پیدا ہوگئی۔ محمد معظم کے بعد میر اعظم جیسے مشہور اور قابل استاد
کی علمی صحبت سے فیض یاب ہوئے جس کے نتیجے میں غالب کو فارسی شعرو ادب میں
لگاؤ اور دلچسپی پیدا ہو گئی۔ شیخ محمد اکرم اپنی تصنیف’’حیاتِ غالب‘‘ میں
مرزا غالب کے علمی ماحول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’ میر اعظم علی نے ۱۸۰۵ ء میں جب مرزا ابھی نو سال کے تھے، سکندر نامہ کا
اردو ترجمہ کیا تھا اور ۱۸۴۵ء تک ان کا سلسلہ تصنیف و تالیف جاری رہا۔ میر
اعظم کے سارے خاندان کو فارسی شاعری سے لگاؤ تھا۔ ان کے نانا ولی محمد نے
مثنوی مولاناروم کی شرح لکھی تھی ۔ یہ سب لوگ اور خلیفہ محمد معظم اسی محلے
میں رہتے تھے جس میں غالب کا قیام تھا۔ یہ محلہ گلاب کہلاتا تھا، اس میں
کئی مدرسے تھے اور اسی ماحول میں نہ صرف غالب کو علم و فن سے لگاؤ پیدا ہو
گیا بلکہ فارسی شاعری سے وابستگی شروع ہوئی جو ہندوستان کی ادبی تاریخ میں
ایک نئے باب کا اضافہ کرنے والی تھی۔‘‘
مرزا صاحب نے اور بھی بہت سے لوگوں سے علمی استفادہ کیا ان میں ایک نو مسلم
’’ہرمز‘‘ایرانی پارسی تھا وہ مسلما ن ہوا اور اسکا نام اسلامی نام عبد
الصمد تھا یہ شخص بڑا ذہین اور صاحب علم تھا خصوصاً فارسی زبان پر ؓڑا عبور
حاصل تھا اس کی فارسی دانی کے بارے میں مولانا عبد الکلام آزاد لکھتے ہیں:
’’ ایک بات بالکل واضح ہے کہ یہ عبد الصمد غیر معمولی قابلیت و اسعداد کا
آدمی ہے۔ مرزا غالب نے ’’درفش کا ویانی‘‘ کے آخر میں جو قاعد لکھے ہیں اور
انہیں عبد الصمد کی طرف نسبت دی ہے اس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ
فارسی زبان کے اصول و قواعد اور قدیم فارسی کے رموزز و اوقاف کا اگر وہ
ماہر تھا تو کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن عجیب بات یہ ہے ہ سنسکرت
اور قدیم فارسی کے باہمی رشتے کا راز اس پر کھل چکا تھا اور دونوں زبانوں
کے مرادف کی صحیح مثالیں بڑی تعداد میں اس پر نمایاں ہو چکی تھیں‘‘۔
غالب نے عبد الصمد سے سب سے زیادہ فیض حاصل کیا ان کی صحبت اور شخصیت کا
غالب پر بہت گہرا اثر ہوا۔ مرزا صاحب ایک خط میں اپنی تدریس کے بارے میں
عبد الصمد کی تعریف میں یوں لکھتے ہیں:
’’ میں نے ایام وبستان نشینی میں ’’شرح ماتہ عامل‘‘ تک پڑھائی کی،بعد اس کے
لہو لہب اور آگے بڑھ کر فسق و فجور یاعیش و عشرت میں منہک ہو گیا، فارسی
زبان سے لگاؤ اور شعر و شخن کا ذوق فطری و طبعی تھا نا گہ ایک شخص کہ
ساسانِ پنجم کی نسل میں تھا، معہذا منطق و فلسفہ میں مولوی فضل حق مرحوم
(خیر آبادی)کا نظیر اور مومن موحد و صوفی صافی تھا۔ میرے شہر(آگرہ)میں وارد
ہوا اور لطائف فارسی بحث (خالص فارسی بے آمیزش عربی) اور غوامض فارسی
آمیختہ بہ عربی اس سے میرے حالی ہوئے۔ سونا کسوٹی پر چڑھ گیا۔ ذہن معوج نہ
تھا۔ زبان دری سے پیوندازلی اور استادی بے مبالغہ جانا سپ عہد وبز رجمہر
عصر تھا۔ حقیقت زبان دل نشیں و خاطر فشاں ہوگئی‘‘۔
غالب کی شخصیت پر محمد معظم اور میر اعظم کی صحبت کے اثرات تو نظر آتے ہیں
لیکن کہا جاتا ہے کہ ان دونوں سے زیادہ فیض عبد الصمد سے حاصل کیا اور
فارسی زبان و ادب کے رموز سیکھتے ۔ اب سوال یہ ہے کہ عبدا لصمد حقیقت میں
کوئی شخصیت تھی یا نہیں کیوں کہ غالب لکھتے ہیں کہ:
’’ مجھ کو مبداء فیاض کے سوا کسی سے تلمیذ نہیں اور عبد الصمد محض ایک فرضی
نام ہے۔ چوں کہ لوگ مجھ کو بے استاد کہتے تھے۔ ان کا منہ بند کرنے کو ایک
فرضی استاد گھڑلیا‘‘۔
عبد الصمد کے وجود کے ہونے نہ ہونے پر قاضی عبدا لودود نے مفصل بحث کی ہے:
’’ یہ کہنا عبد الصمد ایک فرضی شخص ہے ظرافت نہیں لیکن اگر عبد الصمد کے
معاملے کو غالب کی شوخی طبع کا نمونہ قرار دینے پر اصرار ہے تو میں یہ کہوں
گا کہ ظرافت عبد الصمد کی تخلیق میں ہے اور غالب کے تیر ظرافت کی آماجگاہ
وہ اصحاب ہیں جو اس کے وجود خارجی کے قائل ہیں‘‘۔
اب اس سے بحث نہیں عبد الصمد کا کوئی وجدو تھا یا نہیں لیکن یہ بات ہمارے
سامنے آتی ہے کہ صرف دوہی شخصیات ہیں جو مرزا غالب کی شخصیت کے ابتدائی
علمی ماحول پر اثر انداز ہوتی نظر آتی ہے۔ جستجو اور جدت پسندی غالب کے
مزاج میں شامل تھی لہٰذا اس کی تکمیل میرا عظم اور محمد معظم کی صحبتوں میں
ہوئی اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا غالب کی ابتدائی علوم و فنون کی
تکمیل اور فارسی ذوق کی نشو نما میں ان دونوں حضرات کا ہاتھ ہے۔
مرزا غالب کے علمی ماحول کا دوسرا رخ آپ کے دہلی میں قیام سے شروع ہوا۔
دہلی کی علمی فضانے غالب کے علمی ماحول میں بہت تغیر پیدا کیا۔ انہوں نے
دہلی کے ماحول سے مثبت اثرات قبو ل کیئے۔ غالب جب دہلی پہنچے تو وہاں بڑے
بڑے باکمال اصحاب فن موجود تھے جو مختلف علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے۔
یہاں علماء میں مولانا فضل حق خیر آبادی، شاہ عبد العزیز اوران کا خاندان ،
مفتی صدر الدین آزردہ، شعراء اکرام میں ابراہیم ذوق، شاہ نصیر، مومن خان
مومن موجود تھے۔ نقادوں میں نواب مصطفی خاں شیفتہ اور اطباء میں ارتضیٰ خاں
اور حکیم محمود خان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام ماہرین فن کی صحبت میں رہ
کر مرزا غالب نے ترقی کے مدراج عبور کئے اور ایسے جوہر دھائے کہ لوگ ان کو
قددر کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ بڑے بڑے ماہرین فن اور قابل ہستیاں ان کے حلقۂ
احباب میں شامل ہونے لگیں۔ ان ہستیوں کی علمی صحبت سے غالب کی شخصیت میں
مزید نکھار آیا، علمی فضا میں ترقی کرتے ہوئے دوسرے علوم میں بھی دسترس
حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ دہلی کے ماحول میں حکمت ، نجوم اور تصوف کو
بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی لہٰذا مرزا غالب کو ان تینوں علوم مین لگا ؤ پیدا
ہوا اور انہوں نے اپنی شاعری میں ان مضامین کو شامل کر نا شروع کر دیا۔
مرزا اپنے ایک خط میں انوارالدولہ شفیق کو لکھتے ہیں۔
’’آرائش مضامین کے واسطے کچھ تصوف، کچھ نجوم لگا رکھا ہے۔ ورنہ سوائے
معزونی طبع کے یہاں کیا رکھا ہے‘‘۔
غالب ایک اور خط میں رقم طراز ہیں:
’’ مبدا فیاض کا مجھ پر احسان عظیم ہے مآخذ میرا صحیح میری سلیم ہے۔ فارسی
کے ساتھ ایک مناسب ازلی وسرمدی لایا ہوں۔ مناسبت خداداد اور ترتیب استاد
حسن و قبح ترکیب پہچانئے فارسی کے غوامض جاننے لگا‘‘۔
یہ تو قطعی تور پر نہیں کہا جا سکتا کہ غالب کسی استاد کے تلمیذ تھے بلکہ
یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے ذوق اور مطالعے سے مختلف علوم میں کمال
حاصل کیا۔ دہلی کے اصحاب علم و فن کے ماحول میں انہیں تحریر کا سلیقہ آ
گیااورا ن کی صلاحتیں اجاگر ہوئیں۔
غالب نے اکبر آبادی میں فارسی شعراء کے کلام کا مطالعہ کیا اور فارسی زبان
کی بھید معلوم کئے۔ دہلی میں علم نجوم، حکمت اور تصوف کے مطالعے میں مصروف
رہے۔اس سے آگے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی شخصیت پر علمی
ماحول کے گہرے اثرات غالب کی فنی ترقی میں معاون ثابت ہوئے۔
خطوط غالب کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بڑے باصلاحیت اور باکمال
شخصیات کی صحبت اور علمی ماحول کے اثرات نے غالب کی شخصیت میں علمی استعداد
اور ذہنی صلاحیت پیدا کی اور ان کے کردار و مزاج کو پر اثر بنایا۔ غالب نے
اپنے شاگردوں کو بھی خطوط لکھے۔ چند قابل ذکر اور ممتاز شاگرد یہ ہیں۔ انور
الدولہ شفیق، غلام بے خبر ، قاضی عبد الجلیل ، میر حبیب اﷲ ذکا، عبد الغفور
نساخ، قدر بلگرامی ضیا الدین احمد نیر، نواب مصطفی خان شیفتہ اور نبی بخش
حقیر۔
مرزا غالب اپنے شاگروں کی علمی قابلیت کا یوں اعتراف کرتے ہیں۔
عبد الغفور نساخ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ دیوان فیض عنوان اسم بامسمی ہے ۔ ’’دفتر بیمثال‘‘اس کا نام بجا ہے ۔
الفاظ متین ، معانی بلند، مضمون عمدہ، بندش دل پسند، ہم فقیر لوگ، اعلائے
کلمۃالحق میں بے باک و گستاخ ہیں۔ شیخ امام بخش طرزِ جدید کے موجد اور
پرانی ناہموار روشوں کے ناسخ تھے۔ آپ ان سے بڑھ کر بصیغۂ مبالغہ، بے مبالغہ
نساخ ہیں۔ تم دنائے رموزِ اردو زبان ہو، سرمایۂ نازشِ قلمر و ہندوستان
ہو‘‘۔
انور الدولہ شفیق کی فنی صلاحیت کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’ غزلوں کو پرسوں سے پڑھ رہا ہوں اور وجد کر رہا ہوں خوشامد میرا شیوہ
نہیں جو ان غزلوں کی حقیقت میری نظر میں ہے مجھ سے سن لیجئے اور میرے
دادینے کی داد دیجئے۔مولانا قلق نے متقدمین یعنی امیر خسرو، سعدی و جامی کی
روش کو سرحد کمال پر پہنچایااور میرے قلبہ و کعبہ مولانا شفیق اور مولانا
ہاشمی اور مولانا عسکری ، متاخرین یعنی صائب و کلیم و قدسی کے انداز کو
آسمان پر لے گئے ہیں ۔ اگر تکلف اور تملق سے کہتا ہوں تو مجھ کو ایمان نصیب
نہ ہو۔ یہ جو اپنے کلام حک و اصلاح کے واسطے مجھ سے فرماتے ہیں یہ آپ میری
آبرو بڑھاتے ہیں۔ کوئی بات بیجا، کوئی لفظ ناروا ہو تو میں حکم بجالاؤں‘‘۔
اپنے ایک اور شاگرد نبی بخش حقیر کی علمی استعداد کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ خدا نے میری بے کسی اور تنہائی پر رحم کیا اور ایسے شخص کو میرے پاس
بھیجا جو میرے زخموں کا مرہم اور میرے درد کا درما اپنے ساتھ لایا اور جس
نے میری اندھیری رات کو روشن کر دیا۔ اس نے اپنی باتوں سے ایک شمع روشن کی
جس کی روشنی میں میں نے اپنے کلام کی خوبی جو تیرہ بختی کے اندھیرے میں خود
میری نگاہ سے مخفی تھی ، دیکھی۔ میں حیران ہوں فرزانہ یگانہ یعنی منثی نبی
بخش کو کس درجہ کی سخن فہمی اور سخن سنجی عنایت ہوئی ہے۔ حال آں کہ میں شعر
کہتا ہوں اور شعر کہنا جانتا ہوں۔مگر جب تک ان بزرگوں کو نہیں دیکھا یہ
نہیں سمجھا کہ سخن فہمی کیا چیز ہے اور سخن فہم کس کو کہتے ہیں‘‘۔
ان شاگردوں کا مختصراً تذکرہ کرنا یوں ضروری تھا کہ ہمیں یہ معلوم ہو سکے
کہ غالب کی صحبت میں ایسی علمی باکمال شخصیات موجود تھیں جن کو خود مرزا
غالب تعریف کرتے ہیں ۔ غالب کے دوستوں اور احباب کی جو محفلیں منعقد ہوئی
تھیں ان میں علمی مثائل پر بحث ہوتی تھی ان مباحثوں کے نتیجہ میں غالب کو
اپنی علمی صلاحیتیں ابھارنے کا موقع ملا۔ ان علمی مباحثوں کے بارے میں خطوط
غالب سے معلومات ملتی ہیں اور فن لغت اور فن شاعری کے متعلق واضح ہوتا ہے۔
مرزاغالب سرور کونثر کی اقسام کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ نثر عاری، نہ قافیہ، نہ وزن، نثر مسجع قافیہ موجود وزنمفقود، مگر اس میں
ترجیح کی رعایت ضروری ہے یعنی فقرے میں الفاظ مماثل اور ملائم و گرہوں اور
اگر یہ بات نہ ہوگی اور صرف قافیہ ہوگا تو اس کو مقفیٰ کہیں گے نہ مسجع ،
نثر مر جز وہ ہے کہ وزن ہو اور قافیہ نہ ہو۔
فن لغت کے بارے میں میاں داد خاں سیاح کو رقم طراز ہیں:
’’ اب تم سنو فن لغت میں ایک امر ہے کہ اس کو تصحیف کہتے ہیں یعنی لفظ کی
صورت ایک ہو اور لفظوں میں فرق جیسا سعدی بوستان میں کہتا ہے۔
مرزا بوسہ گفتا بہ تصحیف دہ
کہ درویش را تو شہ از بوسہ بہ
’’توشہ و بوسہ و نوشہ یہ تین لفظ مصحف ہم گیر ہیں حالانکہ معنی میں وہ فرق
جیسا زمیں آسمان میں ، توشہ ترجمہ زادکا، بوسہ ترجمہ قبلہ کا، نوشہ اسم
دولہ کا‘‘۔
نواب مصطفی خان شیفتہ کو ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’ اب جو فقیر کا یہ مطلع مشہور ہوا
از جسم بہ جاں لقاب تاکے
بہ گنج دریں خراب تاکے
حضرت کو اس میں تامل ہے خرابہ کی خراب کو نہیں مانتے۔ آیا یہ نہیں جانتے کہ
لغت عربی اصل’’ خراب اور خرابہ‘‘ مزید علیہ ’’ویران‘‘ لغت فارسی اصل اور
’’ویرانہ‘‘ مزید علیہ۔ ’’موج‘‘ لغت عربی اصل ’’موجہ ‘‘مزید علیہ ہے‘‘۔
مندرجہ بالا تمام باتوں کو مدِ منظر رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ فن
لغت میں بڑی مہارت رکھتے تھے دہلی کے اس علمی ماحول نے غالب کی شخصیت کو
نئی نئی راہیں تلاش کرنے کا موقع دیا ان کے افکار و خیالات جامع انداز میں
ہمارے سامنے آئے غالب نے علمی ماحول کے اثرات سے اپنے فن کے ہر ہر پہلو کو
اجاگر کیا۔ |