مشکور احمد۔ چند یادیں ۔۔۔ چند باتیں

بعض سانحے ایسے ہوتے ہیں کہ ہر دل شکن منظر کھلی آنکھوں دیکھنے کے باوجود یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ مشکور احمد صاحب کی موت بھی میرے لیے ایک ایسا ہی سانحہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے وہ اب بھی یہیں کہیں موجود ہیں حالانکہ اس سانحہ کو ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں اور میں نے انہیں زندگی کے آخری ایام میں( ایک سے زیادہ بار )بہت قریب سے دیکھا حتیٰ کے ان کی تجہیز و تکفین میں بھی شریک ہوا لیکن ان سے طویل رفاقت ، دوستانہ مراسم اور خاندانی ایسو سی ایشن ’’ ینگ مین حسین پوری ایسوسی ایشن‘‘ جس کے وہ صدر اور میں سیکریٹری رہ چکا تھا کی سر گر میوں کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ہم سالوں سر گرم عمل رہے یہ سب کچھ نظروں کے سامنے ایسے گھومنے لگتا ہے کہ جیسے ایک ویڈیو چل رہی ہو ۔ جانا تو ہم سب کو ہے لیکن میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس قدر جلد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے۔

میں اور مشکور صاحب خاندان باری بخشؒ سے تعلق رکھتے ہیں جو خاندان حسین پور کے نام سے بھی معروف ہے۔ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمتہ ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان سے تھے۔ ان کازمانہ۱۱۴۸ بکرمی یا ۱۰۸۸ء تھا۔ یہ خاندان ہندوستان کے علاقہ راجستھان میں ریاست بیکا نیر کے مقام پر آباد تھاجو بھٹنیر (ہنو مان گڑھ) کہلاتا تھا۔پندرھویں صدی میں یہ سر زمین راجپوتوں کے زیر اثر تھی ۔ اسی قوم کے ایک راٹھور راجپوت ’سردار راؤ بیکا جی نے ۱۴۸۸ء میں اس علاقہ پر اپنی حکمرانی کا باقاعدہ آغاز کیاساتھ ہی اس علاقے کا نام اس نے اپنے نام کی مناسبت سے ’’بیکانیر‘‘ رکھا۔

غزنوی حکمراں سلطان محمود غزنوی نے جب بھٹنیر پر حملہ کیا تو ہمارے خاندان کے جدِ امجد بھٹنیر (موجودہ بیکانیر) سے دہلی منتقل ہو گئے اور دہلی سے منسلک شہر کھڈی ضلع شکار پور کو اپنا مسکن بنایاغزنوی حکمراں کی جانب سے اس خاندان کے مورث اعلیٰ کو کھڈی ضلع شکارپور کا دیوان مقرر کیا گیا ۔اس طرح یہ خاندان ابتدائی طورپر بیکانیر سے کھڈی ضلع شکار پور منتقل ہو گیا۔ شہاب الدین شاہجہاں کے عہد میں حسیں خان صاحب کو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر میں ایک وسیع جاگیر انعام میں ملی۔انہو ں نے اس علاقہ کا نام حسین پور رکھا اور چونکہ ان کو انتظام ِ جائیداد اور ریاست کے لیے ایک صاحب تجربہ وعقل وفرزانہ کی ضرورت تھی اس لیے آپ کی نظر ہمارے مورث عبدالقدوس صاحب پر پڑی، بڑے اصرار کے بعد خان صاحب موصوف عبدلقدوس صاحب کو باعزاز حسین پور لائے اوردیوان مقرر کیا چنانچہ آپ معہ اہل و عیال شکار پور سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور میں مقیم ہو گئے اور اس وقت سے یہ خاندان حسین پوری مشہور ہوگیا۔حسین پور ضلع مظفر نگر میں ہمارے جدِ امجد جناب عبدالقدوس کو وہ تمام اعزازات حاصل تھے جو ایک صوبے کے گورنر کو حاصل ہوتے ہیں لیکن یہ اعزاز اور مرتبہ خاندان باری بخش کے لیے نئی بات نہیں تھی ، یہ خاندان ابتداہی سے حکمراں خاندان میں سے رہا ۔

خاندانی ایسو سی ایشن ’’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن‘‘۱۹۴۰ ء میں قائم ہوئی ۔اس وقت سے فعال چلی آرہی ہے لیکن کبھی کبھی تعطل کا شکار بھی ہوئی ۔ اس قسم کے فلاحی ادارے اکثر غیر متحرک بھی ہو جایا کرتے ہیں سو یہ انجمن بھی وقفہ وقفہ سے غیر متحرک رہی۔ میں نے باقاعدہ طور پر ۱۹۸۰ء میں بہاولپور میں منعقد ہو نے والے اجلاس عام سے اس خاندانی انجمن میں شمولیت اختیار کی ۔جس میں مشکور صاحب کے بڑے بھائی منظور احمد صاحب ایسو سی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔۱۹۸۳ء میں ایسو سی ایشن کا فائینانس سیکریٹری اور کراچی کا لوکل سیکریٹری بن گیا اس طرح اس ایسو سی ایشن کی سرگرمیوں میں خاصا فعال رہا۔ ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۳ء ایسو سی ایشن کا سیکریٹری اور مشکور صاحب اس کے صدر رہے ۔ اس عرصہ میں ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگئے۔ ایسوسی ایشن کو فعال اور سرگرم کر نے کی منصوبہ بندی کی جس میں بڑی حد تک کامیابی ہوئی۔ فیصل آباد کے گاؤں ’بابے والا ‘ میں جہاں پر خاندان کے متعدد لوگ رہائش پذیر ہیں ایسو سی ایشن کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں صرف کراچی سے ۲۶ خواتین و حضرات بابے والا پہنچے جلسہ عام میں شریک خواتین، مرد اور بچوں کی تعد اد ۱۶۱ تھی جو ۱۹۴۰ء (امرتسر) سے ۱۹۹۰ء (کراچی) کے تما م جلسوں سے زیادہ تھی۔ یہ سب کاوش مشکو ر صاحب ہی کی تھی اس اجلاس کو کامیاب بنا نے کے لیے انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں کے دورے بھی کیے اور خاندان کے افراد کو ایسو سی ایشن کی جانب مائل کیا جس کے نتیجے میں دور دراز کے شہروں سے سے تعلق رکھنے والے بے شمار احباب ایسو سی ایشن میں شامل ہوئے ۔

جناب مشکو ر احمد نے ایسو سی ایشن کے صدر کی حیثیت سے ۱۹۹۰میں جناب تابشؔ صمدانی مرحوم ، رشید احمد صمدانی مر حوم ، جناب خالد احمد، جناب فہیم احمد صدیقی اور ملتان شہر میں رہائش پذیردیگر اہل خاندان کو ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں فعال کردار اداکر نے کی دعوت دی۔ مشکور صاحب کی دعوت پر نہ صرف تابش صمدنی نے بلکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام ہی حسین پوریوں نے لبیک کہا اور ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں بھر پور کردار ادا کیا۔۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ء کو ایسو سی ایشن کا اجلاس عام فیصل آباد کے شہر ’’بابے والا‘‘ میں منعقد ہوا جس میں صرف ملتان شہر سے تعلق رکھنے والے تقریباً۲۰ اراکین نے شرکت کی جن میں جناب تابش صمدانی مر حوم ، رشید احمد صمدانی مرحوم بھی شامل تھے ۔ اجلاس عام میں جناب تابش صمدانی نے تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا : ؂
ذرے میں آنکھ ملتا نظر آئے آفتاب
قطرے میں سانس لیتا سمندر دکھا ئی دے

آپ نے کہا ’’کبھی بچپن میں ایسو سی ایشن کے بارے میں سنا تھا اب مشکور صاحب کے ملتان آنے کے بعد مجھ تک یہ پیغام پہنچا کہ ینگ مین حسین پوری ایسوسی ایشن کا اجلاس ہورہاہے تو میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے ، میرے سامنے ایسو سی ایشن کا منشور نہیں تھا اس لیے نے میں سوچا کہ ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن کے لیے میں مدعو کیا جارہا ہوں ، میں تو اب پچاس کے پیٹھے میں ہوں ، میں بڑی الجھن میں رہا کہ مجھے اس میں شریک ہونا چاہیے یا نہیں ، میرے برادر گرامی رشید احمد صمدانی اس میں جائیں یاا پنے بچوں کو بھیجیں تو اس کے نام میں ایک ابہام ہے اسے دور ہونا چاہیے‘‘۔آپ نے مزید فر مایا کہ ’’ میں موجودہ انتظامیہ کو ہدیہ تبریک پیش کر تا ہوں ان کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہ ہے کہ مجھ جیسے رسوائے زمانہ اور گوشہ عافیت میں رہنے والے شخص کو وہ اسٹیج پر لے آئے تو کیا یہ ان کی ولایت نہیں ہے۔ میں تو مشکور صاحب کو صدر ہی نہیں سمجھتا بلکہ دور حاضر کا ولی سمجھتا ہوں اور جناب مشکور احمد کا کردار یہ کہہ رہا ہے ؂:
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں

مشکور صاحب سے میں پہلی بار ان کے اپنے گھر جب وہ پا پوشنگر میں رہا کرتے تھے ملاتھا ۔ ان کے بڑے بھائی منظور احمد صاحب ایسو سی ایشن کے صدر۱۹۸۰ء میں منتخب ہوئے۔راقم کے علاوہ پروفیسرراشد حئی، شاہد اطہر، طاہر حسن قریشی اور دیگر احباب اکثر ایسوسی ایشن کے معاملات کے سلسلے میں منظور صاحب کے گھر واقع پاپوش نگر جایا کر تے تھے ،کبھی کبھی ان کے آفس واقع فرید چیمبر عبداﷲ ہارون روڈ بھی جا نا ہوتا دونوں جگہ مشکور صاحب سے رسمی سلام دعا ہوا کرتی ۔ منظور صاحب ۱۹۸۲ء میں اﷲ کو پیارے ہوگئے جس کے بعد ایک طویل عرصہ تک مشکور صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ایسو سی ایشن کے لوکل اجلاس اکثر مختلف احباب کے گھر منعقد ہو ا کرتے رفتہ رفتہ وہ بھی دم توڑ گئے ۔ پروفیسر راشد حئی اور میں طویل عرصہ تک عبداﷲ ہارون گورنمنٹ کالج میں رہ چکے تھے بعد میں ان کا تبادلہ نیشنل کالج اور میرا گورنمنٹ کالج برائے طلبہ نا ظم آباد میں ہو گیا اس حوالہ سے وہ میرے ساتھی بھی تھے اور ایک خاندان سے تعلق ہو نے کی وجہ سے ہم دونوں ہی غیر ارادی طور پر ایک دوسرے کا خیال کیا کرتے تھے انہوں نے ،اپنے کزن اور بہنو ئی شاہد اطہر جو پروفیسر محمد محصی کے صاحبزادے ہیں، جناب انعام احمد صدیقی اور میں نے باہم مل کر ایسو سی ایشن کو از سر نو فعال کر نے کا پروگرام بنا یا اس مقصد کے لیے ہم خاندان کے اکثر احباب کے گھروں پر گئے اور انہیں ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ اس تحریک میں جناب مشکور صاحب کو بھی ایسو سی ایشن میں فعال کر دار ادا کرنے پر تیار کرلیا گو وہ بہت عرصہ تک ٹال مٹول سے کام لیتے رہے با لا آخر وہ اس کے لیے تیار ہوگئے۔ اب ہم اور مشکور صاحب ایسو سی ایشن کو فعال رکھنے ، خاندان کے احباب کو اس میں شریک کرنے کے حوالے سے اکثر و بیشترملاکرتے اور گھنٹوں مختلف معاملات پر گفتگو ہوا کرتی۔ بقول شاعر :
و ہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے ان کو کس طرف

ایسو سی ایشن کے حوالے سے مشکور صاحب کا ایک عظیم کارنامہ جناب خالد پرویز کے اشتراک سے ’’شجرہ خاندان حسین پور ‘‘ کی تدوین ہے جسے ایسو سی ایشن نے ۱۹۹۰ء میں شائع کیا۔خاندان حسین پور کا اولین شجرہ ۱۹۲۵ء میں جناب محمد حنیف صاحب نے مر تب کیا تھا۔ مرتبین نے ۶۵ سال کے وقفہ کے بعد خاندان کی لڑیوں کو خوبصورتی سے تر تیب دیا۔ شجرہ کا بنیادی مقصد موجودہ نسل کو اس اہم بات سے باخبر رکھنا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کون تھے اور ہمارے رشتہ دار کون ہیں۔مشکور صاحب کے مرتب کردہ شجرہ میں خاندان حسین پور کے ذکور و اناث کا تذکرہ حتی الوسع کیا گیا ہے ۔ایسو سی ایشن کے صدر جناب انعام احمد صدیقی نے پیشوائی کے عنوان سے تحریر فر ما یا کہ ’’ یہ شجرہ انہی دونوں حضرات(مشکور احمد۔خالد پرویز) کی کاوشوں اور جانکاہی کا ثمر ہے ۔تحقیق و جستجو کی وادیٔ پرُ خار سے سلامت روی سے گزرنا اور گوہر مقصود کا حاصل کر لینا بے شک ان حضرات کا ایک عظیم کارنامہ ہے اور اس کے لیے وہ ہم سب کی داد وتحسین کے جائز حقدار ہیں‘‘۔

قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان ہندوستان کے شہر امرتسر میں مقیم تھا۔ آپ نے اپنے والد صاحب (میاں احمد مرحوم )کے ہمراہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور لااہور کو اپنا مسکن بنایا، آپ کے والددرس و تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے چنانچہ لاہور میں ایم اے او کالج میں استاد کی حیثیت سے ملازمت اختیارکی اور اسی کالج میں رہا ئش بھی مل گئی۔ مشکور صاحب کی شادی جناب حسن عسکری صاحب کی صاحبزادی محتر مہ آمنہ پروین سے۳ نومبر ۱۹۵۹ء کو کراچی میں ہوئی۔ااﷲ تعالیٰ نے آپ کو اولاد ذکور (عادل، عارف اور عاصم) اور اولاد اناث (سہلا،ثمرہ اور سبیلہ) سے نوازا۔آپ صو م و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ دیو بندی عقائد رکھتے تھے۔ ان کے بھائی محبوب احمد صاحب کا انتقال ۱۹۹۰ء میں ہوا، جسدخاکی کو لہد میں اتار دیا گیا ، فاتحہ ہوئی بعد میں کسی نے کہا کہ سوئم کا اعلان کر دیں، مشکور صاحب میرے برا بر میں ہی تھے گو یا ہوئے جسے جو کچھ پڑھنا اور ایصال ثواب کر نا ہے اپنے اپنے طور پر ہی کردے۔ مالی طور پر خوش حال تھے ساتھ ہی دریا دل واقع ہوئے تھے، ہمدرد ، محبت کر نے والے اور مدد کرکے بھول جانے والوں میں سے تھے۔مستحقین کی مدد اس طرح کرتے کہ کسی کو کانو ں کان پتہ نہ چلتا، خاندان میں کون ضرورت مند ہے انہیں اس کی مکمل آگاہی ہوتی اور ان سے مسلسل روابط ہوتے۔ اپنا کاروبار تھا۔ جبیس ہوٹل کے برابر فرید چیمبر میں ساتویں منزل پر آفس تھا۔ اکثر ایسو سی ایشن کے معاملات کے لیے جانا ہوتا۔ رفتہ رفتہ کاروبار سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی ،عاصم ابھی پڑھائی کے مراحل میں تھا اور عارف ملک سے باہر ، عادل ہی تمام کاروبار کے ذمہ دار تھے ۔ کاروبار کے سلسلے میں وہ متعدد بار سو ئیزرلینڈ، امریکہ ، برطانیہ، اٹلی ، آسٹریا بھی گئے۔

مشکور صاحب کراچی میں کرایہ کے مکان میں رہے، عام طور پر تجارت پیشہ لوگ کرایہ کے مکان میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔نوے کی دھائی میں گلستان جوہر میں اپنا مکان بہت ہی شوق سے بنوایا ،ستمبر ۱۹۹۵ء میں اس میں منتقل بھی ہوئے ان دنوں کراچی کے حالات خراب تھے چوری اور ڈاکہ زنی عام تھے ۔گلستان جوہر میں اس قسم کے واقعات زیادہ ہی ہو رہے تھے چنانچہ مشکور صاحب اور ان کے اہل خانہ بھی اس سے دوچار ہوئے ان کے گھر ڈاکہ پڑا اور تمام مال و متا ع جاتا رہا ، شاید اس سانحہ کا بھی ان کے ذہن پر اثر ہوا اور دل بر داشتہ ہو کر انہوں نے دسمبر ۱۹۹۵ء میں کراچی کو الوداع کہا اور لاہورمنتقل ہوگئے۔ابتدا میں کرایہ کے مکان میں رہے پھر جوہر ٹاؤن میں اپنا گھر بنا یا۔

انسان کی پہچان اس کے ساتھ سفر کر نے سے بھی ہوتی ہے مجھے مشکور صاحب کے ہمراہ ایک سے زیادہ بار سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔کراچی سے بہاولپور(۱۹۸۰ء) ، راولپنڈی (۱۹۸۳ء)اور فیصل آباد، بابے والا(۱۹۹۲ء) ایسوسی ایشن کے اجلاسوں میں ہم نے دیگر احباب کے ساتھ سفر کیا ، فیصل آباد اور پھر بابے والا کے سفر میں ہمارے اہل خانہ بھی ساتھ تھے ۔ تمام سفر بہت یاد گار تھے۔مشکور صاحب دوران سفر انتہائی خوشگوار موڈ میں ہوا کرتے ۔ سفر سے پہلے سفر کے لوازمات کا بہت خیال کیا کرتے ۔

مشکور صاحب کی زندگی کے آخری ایام میں ہماری دوستی نے ایک نیا موڑ اختیار کیا جس کے بارے میں کم از کم میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور یقینا مشکور صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ ہمارا یہ تعلق قریبی رشتہ داری اختیار کر لے گاجس کے نتیجے میں وہ اور میں ایک دوسرے کے’’ سَمدھی ‘‘ بن جائیں گے۔ ۱۹۹۹ء کی بات ہے مجھے اپنے فلیٹ (واقع نارتھ کراچی)منتقل ہو ئے(۸جو لائی ۱۹۹۹ء) صرف ایک مہینہ ہی ہوا تھا اپنے چھوٹے ہم زلف ’’شفیق‘‘ کی زبانی پیغام ملا کہ مشکور صاحب اپنے چھوٹے صاحبزادے ’عاصم‘ کا رشتہ میری بیٹی فاہینہ سے چاہتے ہیں۔میرے فلیٹ میں ابھی ٹیلی فون بھی نہیں لگا تھا چنا نچہ وقت طے کر کے میں ارم اور شفیق کے گھر گیا ، آمنہ بھابی (بیگم مشکور احمد ) نے اپنا مدعا بیان کیا ۔میں نے ان کی بات سنی اور چند روز میں جواب دینے کے لیے کہا۔ میں ان دنوں شدید الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہو نے کے ساتھ ساتھ اپنو ں اور پرایوں کی سنگ باراں سے دو چار تھا ۔۵۱ سال (۱۹۴۸ء ۔ ۱۹۹۹ء)کی اپنائیت کو ہمیشہ ہمشہ کے لیے خیر باد کہتے ہوئے اپنے ہی گھر سے(والدین کا گھر ہر اعتبار سے اپنا ہو تا ہے ) اپنے ذاتی گھر منتقل ہوا تھا ۔ اپنی ماں کو روتا اور افسردہ چھوڑ آیا ، اس عمل سے میرے مرحوم والد کی روح کو بھی یقینا دکھ ہوا ہو گا ۔ کر تا بھی کیا ، میری سمجھ میں صرف یہی بات آئی کہ مسئلہ کو جڑ سے ختم کردینا ہی مسئلہ کا صحیح حل ہے پھر یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا آخر دنیا اسی طرح ہی تو پھیلی ہے۔ اس فیصلہ پر میں بہت پہلے عمل کر چکا ہو تا لیکن میں دل سے محسوس کر تا تھا کہ میرے والدنہیں چا ہتے تھے کہ میں ان سے جدا ہوجا ؤں چنانچہ ان کی خواہش کو ہر بات پر مقدم جانا ،اپنی طبعیت اور مزاج کے خلاف ہونے والی ہر بات کو صرف اور صرف سننے سنا نے تک ہی محدودکر دیااور ایک اچھا سامع بن گیا ، یہ عادت بھی بہت خوب ہے ، بہت کام آتی ہے ، بہت سی برائیوں اور پریشانیوں سے انسان کو دور رکھتی ہے حالانکہ اس دوران کبھی کبھی بہت ہی تکلیف دہ باتیں بھی برداشت کر نا پڑیں۔ بات مشکور صاحب سے قریبی تعلقات قائم ہونے کی ہو رہی تھی ، یہ ماضی کے دریچے بھی خوب ہوتے ہیں جب یاد آجاتے ہیں توگو یایادوں کی ایک بارات بن کرانسان کو ماضی میں دھکیل دیتے ہیں۔ میں نے مشکور صاحب کے بیٹے عاصم سے اپنی بیٹی کے رشتہ کے بارے میں تنہا خوب غور کیا ، ہر ہر پہلو سے سوچا آخر کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ من جانب اﷲ ہے۔ میرے سامنے انکار کی کوئی معقو ل وجہ نہیں تھی ۔خاندان ایک، خوش حال،تمام لوگ بلند اخلاق اور اچھے کردار کے مالک، ملنسار ،عاصم تعلیم یافتہ ، خوب شکل و خوب سیرت ،بر سرِ روزگار، سب سے بڑھ کر میرا مشکور صاحب سے تعلق ، ان سب باتوں نے مجھے اس رشتہ کو قبول کرنے کی تر غیب دی ،البتہ ایک بات جس کی جانب میرے بعض کرم فرماؤں نے توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ تمہاری اکلوتی بیٹی تم سے دور یعنی لاہور چلی جائے گی۔مجھے اس بات میں وزن محسوس نہیں ہوا ،کیوں کہ بیٹی کو ایک نہ ایک دن پرائے گھر جانا ہی ہوتا ہے وہ نزدیک ہو یا دور، اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں خوش وخرم رہے۔الحمد اﷲ آج وہ اپنے گھر میں خوش ہے، میری پیاری سی نواسی’ نہا ‘اسکول جانے لگی ہے، کیوٹ سا نواسہ’ ارحم‘ دو برس کاہو چکا ہے۔خوب شرارتیں کرتا ہے، فون پر اپنے نانا سے باتیں بھی کرنے لگا ہے ۔اﷲ تعالیٰ دونوں بچوں کو سلامت رکھے، علم کی دولت سے مالا مال کرے۔

ایک ماہ کے بعد(۲ ستمبر ۱۹۹۹ء) مشکور صاحب اپنے تمام اہل خانہ کے ہمراہ کراچی تشریف لائے مقصد رشتہ کو باقاعدہ قائم کرنا تھا۔تقریب سے ایک روز قبل وہ اور ان کے تمام اہل خانہ میرے گھر آئے ، معمولی سی دعوت کا اہتمام تھا ،بعد اختتام دعوت تمام لوگ کھڑے تھے مشکور صاحب میری بیٹی کا ہاتھ اوپر اٹھا تے ہوئے گو یا ہوئے ’ ’یہ اب ہماری ہوئی‘ ‘، یہ ان کا خاص انداز تھاجس سے خلوص ، محبت اور اپنائیت صاف عیاں تھی ۔مشکور صاحب سے کئی سال بعد ملاقات تھی ملے تو اسی طرح لیکن مختصر گفتگو کے بعد بالکل ایسے ہو جاتے جیسے کوئی بات ہی نہیں ہو ئی ، میں اس وقت تک ان کی بیماری کے بارے میں لا علم تھالیکن اندر ہی اندر فکر بھی لاحق تھی کہ ضرور کوئی بات ہے۔ اس سے قبل۱۹۹۷ء میں میرا اپنی فیملی کے ساتھ لاہور جانا ہوا تھا ۔ ہو ٹل میں پڑاؤ تھا دیگر احباب سے ملاقات کے ساتھ ساتھ مشکورصاحب سے ملاقات ایجنڈے کا حصہ تھی چنانچہ ہوٹل سے انہیں فون کیا گفتگو شروع ہوئی اپنا بتا یا کہ میں لاہور میں ہوں اور آپ سے ملاقات بھی ہو جائے تو اچھاہے گفتگو میں وہ بات نہیں تھی ایسا لگا کہ کوئی بات ضرور ہے۔ خیر ملاقات نہ ہوسکی بات آئی گئی ہوگئی۔

معلوم ہوا کہ مشکور صاحب یادداشت کمزور ہوجانے والی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسے میڈیکل کی اصطلاح میں (Parkinsonism)بھی کہا جاتا ہے۔ اس مرض میں مریض لڑکھڑا کر چلتا ہے اور بدن میں ریشہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ انگلیاں اور ہاتھ تھرانے اور لڑکھڑانے لگتے ہیں ، چہرے سے کسی قسم کے تاثرات نہیں ملتے ، نظر ملا نے سے کتراتا ہے، بات کم کرتا ہے، بسا اوقات عجیب و غریب باتیں کر تا ہے، چھوٹے چھوٹے قدم سے چلتاہے لیکن تیز تیز ، الفاظ کی ادئیگی درست نہیں ہوتی،دھیمہ لہجہ اختیار کر لیتا ہے،پہچان جاتی رہتی ہے مختصر یہ کہ مریض ذہنی طور پر دنیا سے دور چلا جاتا ہے۔یہ مرض عام طورپر بڑھاپے میں لاحق ہو تا ہے۔خدا معلوم مشکور صاحب کو یہ مرض کیوں کر لاحق ہوگیا ۔ علاج میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھی گئی حتیٰ کہ انہیں علاج کی غرض سے امریکہ بھی لے جایا گیا۔جو لائی ۲۰۰۰ء میں وہ امریکہ اپنے بڑے بیٹے عارف کی شادی کے سلسلے میں امریکہ گئے لیکن ان کے لیے یہ بیماری بہت سی بیماریوں کی طرح لاعلاج ہو گئی۔

میں اپنی بیگم (شہناز) کے ہمراہ ستمبر ۲۰۰۰ء میں مشکور صاحب کو دیکھنے لاہور گیا۔ ہم ائیر پورٹ سے گھر پہنچے تو وہ اپنے بیڈ پر سفید کپڑوں میں ملبوس لیٹے ہوئے تھے دیکھ کر فوری طور پر گرم جوشی سے ملے میرا نام لے کر مجھے مخاطب کیا شاید ایک آدھی بات بھی کی ہوگی اس کے بعد گفتگو میں تسلسل نہیں رہا۔ میں دل ہی دل میں بے انتہا دکھی ہو رہا تھا کہ ہم اس قدر قریب آئے بھی تو اس کیفیت میں کہ قریب آکر دور اور بہت دور بلکہ ہمیشہ کے لیے دور ہو گئے۔شاید خدا کو یہی منظور تھا۔ ان کی اس کیفیت میں مسلسل اضافہ ہو تا رہا حتیٰ کہ باہمی مشورے سے ہم دونوں خاندانوں نے اپنے بچوں(عاصم ۔ فاھینہ ) کی شادی کی تاریخ ۲۵ دسمبر۲۰۰۱ء طے کر دی۔

شادی کی تاریخ قریب آرہی تھی ۱۵نومبر ۲۰۰۱ء کومیں اور شہناز لاہور گئے ،مقصد شادی کے جملہ معاملات کو حتمی شکل دینا تھا مشکور صاحب ذہنی طور پر دنیا سے اپنا تعلق ختم کر چکے تھے ، میں اندر ہی اندر ہاتھ ملتا رہ گیا ،ایک لمحے کو ان کے اچھے دنوں کی ایک فلم چل پڑی کہ کس قدر صحت مند،ہشا ش بشاش ، خوش اخلاق ، مسکراہٹ سے لبریز چہرے کو کس کی نظر لگ گئی۔ تندرست و توانا شخص چند مہینوں میں کیا سے کیا ہو گیا۔باغ باں کی فکر میں ہر کلی غم زدہ تھی ، ہر پھول محو حیرت تھا ، غنچے سہمے ہوئے تھے،ٹہنیاں جھک جھک رہی تھیں لیکن باغ باں جس نے خون دل سے کلیوں کی آبیاری کی تھی،شگفتہ پھولوں کو مہک عطا کی تھی، غنچوں کو گدگدایا تھا رفتہ رفتہ اپنا ناتا اپنے ہی گلشن سے توڑتا جارہا تھا۔وہ اس فکر سے آزاد تھا کہ اس کے بعد اس کے گلشن کا کیا ہوگا ۔ شاید اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ وقت کا صیاد اپنا تیر چلانے کو تیار بیٹھا ہے، مہلت ختم ہو نے کو ہے ۔

میں اور شہناز دکھی دل کے ساتھ رمضان سے ایک روز قبل واپس آگئے ۔ فکر لگی ہوئی تھی کہ ایسی صورت حال میں شادی کیسے اور کس طرح ہوگی، ادھر امریکہ میں موجود مشکور صاحب کا بڑا بیٹا عارف اپنی بیگم اور بچے کے ہمراہ شادی میں شرکت کے لیے پاکستان آنے کا پروگرام بنا چکے تھے۔ انہیں یکم دسمبر ۲۰۰۱ء (۱۵ رمضان المبارک ) کو لاہور پہنچنا تھا ،جوں ہی ان کا طیارہ لاہور کی سر زمین پر اترا ، عارف ، بیگم عارف اورمشکور صاحب کے پوتے طلحہٰ نے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا مشکور صاحب جو کئی روز سے بے چین اور مشکل میں تھے سکون میں آگئے ،انتظار کی تمام گھڑیاں اختتام کو پہنچیں، انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کی تمام اولاد اب ان کے پاس ہے،شاید انہیں اسی لمحے کا انتظار تھا، جوں ہی بیٹے کا سفر اختتام پزیرہوا اوروی منزل پرپہنچا باغ باں جو اپنے سفر پر جانے کے لیے بے تاب تھا ہرچیز کی پرواہ کیے بغیر اس نے رخت سفر باندھا ، اس جانب جہاں سے انسان دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا، یکم دسمبر ۲۰۰۱ء مطابق ۱۵ رمضان المبارک آپ نے اپنی جان مالک حقیقی کے سپرد کردی۔میں نے بھی تدفین میں شرکت کی میری خواہش تھی کہ شادی ملتوی کردی جائے لیکن آمنہ بھابی (بیگم مشکور احمد)، نجم الحسن(برادر آمنہ بھابی)،عبد الخالد(مشکور صاحب کے ہم زلف)، خورشید احمد (برادر مشکور احمد)، مبین الحسن(داماد مشکور احمد)، عابد علی خان(داماد مشکور احمد) ،عبدالوحید ،(داماد مشکور احمد)عادل، طلعت عادل ، عارف، نورین عارف، سہلہ ، ثمرہ ،سبیلہ اور دیگر احباب نے بہت ہی ہمت ، حو صلے اور جرآت کا مظاہرہ کیا ، شادی طے شدہ تاریخ ۲۵ دسمبر ۲۰۰۱ء پر ہی ہوئی۔آج ہم ایک دوسرے کے ’سمد ھی ‘ تو بن چکے ہیں لیکن مشکور صاحب کے بغیریہ تعلق ادھورا سا لگتا ہے۔مجھے ان کی کمی شدت سے محسوس ہو تی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنامشکل ہے۔اﷲ تعالیٰ مشکور صاحب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین ؂
چراغ بجھتے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

میں نے یہ مضمون کئی نشستوں میں لکھا شاید اسے ایک سال کا عرصہ لگا۔ جب بھی لکھنے بیٹھتا مشکورصاحب کی صورت آنکھوں میں آجاتی ،وہ صورت بھی جب وہ تندرست و توانا تھے اور وہ کیفیت بھی جب وہ بستر سے لگ گئے تھے ،متو سط قد، ہنستا مسکراتا زندگی سے بھر پور کتا بی چہرہ ، پیشانی کشادہ قدرے باہر کی جانب ابھری ہوئی،روشن آنکھیں، بالوں میں قدرے سفیدی، آخر میں سفیدی نمایاں تھی اور سر پر چند بال ہی رہ گئے تھے۔پہلے کلین شیو تھے زندگی کے آخری سالوں میں داڑھی اور وہ بھی زیادہ سفید، لہجے میں نر می، آواز میں اعتماد، اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی الفاظ کا استعمال نمایاں تھا،ہر ایک سے جھک کر ملنا اور محبت سے پیش آنا ، میں نے کبھی کوئی بھدی بات ان کی زبان سے نہیں سنی،کس قدر نفیس انسان اور کیسا پیار ا دوست تھا، کس قدر جلد چلا گیا۔ شاید اچھے لوگ جلد ہی چلے جاتے ہیں : ؂
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ ٔنور ستہ اُس گھر کی نگہبانی کرے
( مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں شامل )

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284794 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More