رزق میں تنگی کے اسباب

الحمد للہ رب العٰلمین۔ والصلاۃ والسلام علٰی سید المرسلین وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین ۔

رزق ایک ایسی نعمت ہے جس کی تقسیم کا اختیار و ذمہ مالکِ کائنات نے اپنے پاس رکھا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ وہ ہر انسان کو طیؔب و طاہر اور پاک رزق عطا فرماتا ہے اور اس رزق میں اضافہ و فراخی کے مواقع بھی بخشتا ہے۔ مگر اکثر انسانوں کی فطرت ہے کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ رزق کا وعدہ رب تعالٰی کی ذات نے کر رکھا ہے، لہٰذا وہ ہماری قسمت میں لکھا گیا دانہ پانی تقدیر کے مطابق ضرور عطا فرماتا ہے۔ تاہم کچھ لوگ توکؔل اور یقین کی کمی کا شکار ہو کر قبل از وقت، ضرورت سے زیادہ طلب کرتے یا لالچ کا شکار ہو کر بعض اوقات ناجائز و حرام ذرائع کے استعمال سے اپنا حلال کا رزق بھی کھو دیتے ہیں۔

اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب ﷺ نے ہمیں رزقِ حلال کی طلب، کمانے کا طریقہ، تجارت اور کاروبار کے مکمل اصول سکھائے اور بتائے ہیں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب تک ہم اسلامی حدود اور شرعی تعلیمات کے مطابق ملازمت، کاروبار اور تجارت کرتے ہیں تب تک سب کچھ ٹھیک رہتا ہے۔ جب ہم شرعی حدود سے تجاوز اور احکام الٰہی کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں تو رزق میں سے برکت اٹھنا شروع ہو جاتی ہے اور یوں بڑی بڑی فیکٹریوں اور کارخانوں کے مالک بھی بھکاری بن جایا کرتے ہیں۔
رزق کی کمی یا کشادگی کے بارے رب تعالٰی کا فرمان بہت واضح ہے۔
إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيرًا بَصِيرًا۔ (اسرا:۳۰(
ترجمہ: بیشک تمہارا رب جسے چاہے رزق کشادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم دیتا ہےبےشک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا (اوراُن کے احوال کو) دیکھتا ہے۔

دوسری آیتِ کریمہ میں فرمایا۔
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ۔ (سبا:۳۶(
ترجمہ: اے محبوب! فرمادیجئے کہ بےشک میرا رب رزق وسیع کرتا ہے جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے (جس کے لیے چاہے) لیکن زیادہ تر لوگ نہیں جانتے ۔

کاروبار کے اسلامی اصول الگ موضوع ہے اور یہاں پر ایک عام انسان کی زندگی میں کاروبار، رزق اور مال میں کمی کے اسباب اور نحوست کی وجوہات بیان کرنا مطلوب ہے ۔

مثال سے بات واضح ہو جاتی اور اچھی طرح سے ذہن نشین ہو جاتی ہے اس لئیے میں آپ کے سامنے ہمیشہ ذاتی تجربات پر مبنی کچھ باتیں لکھتا ہوں، جس سے عبرت و نصیحت کا سامان بنتا ہے۔ پاکستان، ہندوستان، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی و یورپی ممالک میں مقیم کئی افراد نے مجھے اپنے مسائل سنائے۔ ایک عام مزدور کی حیثیت سے کام شروع کرنے والے ان لوگوں نے حلال کمایا، محنت سے ترقی کی، پھر اللہ تعالٰی نے انہیں بین الاقوامی مارکیٹ میں کاروبار کا موقع بخشا، فیکٹریاں لگ گئیں۔۔۔ ۔ پیسے کا لالچ، اپنے اثاثہ جات میں اضافہ، کاروبار میں توسیع اور مال کی زیادتی کے مقابلے نے نہیں ان ممالک میں موجود سودی بینکاری کا محتاج بنا دیا!!! بہت ساروں کو اپنے کاروبار، ملین اور بلین کے بینک بیلنس اور فیکٹریاں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ ۔۔ اور آج ان کی زندگی اس مزدور سے بھی پتلی ہو گئی جس کی حیثیت سے انہوں نے کام شروع کیا تھا۔

صرف سود ہی کاربار میں بربادی اور بے برکتی کا سبب نہیں ہے، اس کے علاوہ درجنوں ایسی بری حرکات، صغیرہ و کبیرہ گناہ جو ہمیں رحمتِ الٰہی سے دور کر دیتے ہیں اور آہستہ آہستہ ہم بربادیوں کی عمیق گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ میں نے ایک پرانے کالم میں "جادو ، جنؔات اور شیطانی اثرات کے اسباب" لکھے تھے۔ رزق کی تنگی میں وہ تمام چیزیں کارفرما ہیں جو جادو اور نحوست کو دعوت دیتی ہیں اور ان دونون مسائل کے اسباب تقریباً ملتے جلتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہم لوگ رزق کے بے قدری بہت کرتے ہیں، تھوڑی ضرورت کے باوجود زیادہ پکا لینا، پھر اس کا ضائع کرنا۔ عرب ممالک کے بارے عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ وہاں سالانہ کئی ملین کا اناج کوڑے کے ڈھیروں پر جاتا ہے۔ پاک رزق کو ناپاک جگہ پر پھینکنا بے حرمتی ہے۔ کوشش کریں بچ جانے والا کھانا پرندوں کو یا جانوروں کو کھلا دیں۔ امؔ المؤمنین سیدتنا عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ایک حدیث شریف کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و الہ واصحابہ وسلم سلم کاشانہِ نبوت پر تشریف لائے تو روٹی کا ٹکڑا زمین پر پڑا ہو ادیکھا، ھادی ِ عالم ﷺ نے اسے اٹھا یا ، صاف کیا اور تناول فرما لیا۔ غریب پرور آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا اچھی چیز کا احترام کرو ، روٹی جب کسی سے بھا گتی ہے تو لو ٹ کر نہیں آتی ۔ ( اچھی چیز سے مراد اللہ عزوجل کی دی ہوئی تمام نعمتیں ہیں) جو چیز زائد معلوم ہو کسی حقدار کو دے دیا کر و ۔

رزق میں تنگی ، کمی اور نحوست کے چند اسباب درج کر رہا ہوں جو کہ فرامینِ رسالت ﷺ، اور اقوال و مشاہدات ِ حکماء و علماء اور مشائخ و اولیاء پر مبنی ہیں ۔
1) فرض عبادات یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج وغیرہ کا ادا نہ کرنا۔ 2) بے وضو کام پر جانا۔ 3) کھانے سے قبل ہاتھ نہ دھونا۔ 4) ناپاک حالت میں کھانا۔ 5) بے وضو یا ناپاکی کی حالت میں کھانا پکانا۔ 6 ) کھانے سے قبل بسم اللہ شریف نہ پڑھنا کہ شیطان شریکِ طعام ہو جاتا ہے۔ 7) اندھیرے میں بیٹھ کا کھانا۔ 8) راستے میں بیٹھ کر کھانا۔ 9) کھڑے ہو کر کھانا ۔ 10) سونے کی جگہ پر بیٹھ کر اور بغیر دستر خوان کے کھانا۔ 11) کھانا سامنے آ جانے پر دیر سے کھانا۔ 12) کھانے کے دوران دنیا کی باتوں میں مصروف رہنا۔ 13) الٹے ہاتھ سے کھانا۔ 14) ننگے سر کھانا۔ 15) مکروہ اشیاء کھانا مثلاً اوجڑی وغیرہ۔ 16) دانتوں سے کُتر کر یا کاٹ کاٹ کر کھانا۔ 17 ) برتنوں میں کھانا بچا دینا۔ 18) کھانے کے برتن میں ہی ہاتھ دھونا۔ 18) کھانا کُھلا چھوڑ دینا یعنی اسے ڈھانپ کر رکھنا چاہئیے۔ 19) ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا ۔ 20) بغیر دھلے یا داغدار برتن میں کھانا۔ 21) ماں باپ کی نافرمانی کرنا۔ 22) غیبت کرنا۔ 23 ) چغلی کرنا۔ 24) جھوٹ بولنا۔ 25) میاں بیوی کا ایک دوسرے کے حقوق میں شرعی خلاف ورزی کا مرتکب ہونا۔ 26 ) بد کلامی اور فضول گوئی۔ 27) رشتہ داروں سے بلا عذرِ شرعی قطع تعلؔقی کرنا ۔ 28) قبلہ شریف کے طرف منہ یا پیٹھ کر کے پیشاب کرنا۔ 29 ) سایہ دار درخت کے نیچے پیشاب کرنا ۔ 30) بیت الخلا میں ننگے سر جانا۔ 31) غسلِ فرض ہونے کی صورت میں طہارت میں تاخیر کرنا۔ 32) موسیقی کو روح کی غذا سمجھنا کہ اگر اس پر وکالت و دلالت کرے تو یہ حدِؔ کفر تک لے جانے والا عمل ہے۔ 33) شراب پینا اور نشہ آور اشیاء کھانا۔ 34) حرام گوشت و خوراک کھانا۔ 35) مالِ حرام کھانا۔ 36) جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹی قسم کھانا۔ 37) الزام و بہتان لگانا۔ 38) قرآن پاک کی تلاوت نہ کرنا۔ 39) یہ جانتے ہوئے داڑھی منڈوانا کہ یہ سنتِ مؤکدہ ہے۔ 40) کسی پر جادو کرنا یا کروانا۔ 41) کسی مسلمان کو اپنی زبان یا ہاتھ سے نقصان پہنچانا یا ایسا ارادہ رکھنا۔ 42) کسی کا راز فاش کرنا۔ 43) زیادہ سونا۔ 44) فجر کے وقت سوتے رہنا۔ 45) رات دیر تک دنیاوی کاموں کے لئیے جاگتے رہنا۔ 46) رات تاخیر سے اپنے گھر یا قیام گاہ میں آنا۔ 47) بغیر سلام کے گفتگو کا آغاز کرنا۔ 48) گھر میں آتے جاتے افرادِ خانہ کو سلام نہ کرنا۔ 49) اپنے استعمال کے کپڑوں سے منہ وغیرہ صاف کرنا مثلاً کف یا قمیص کے پہلو سے منہ دھونے کے بعد خشک کرنا وغیرہ۔ 50) پھٹے ہوئے اور گندے لباس پہننا۔ 51) والدین کی حیات میں ان کے لئیے خیریت کی دعا نہ کرنا اور بعد از وفات ان کی مغفرت کی دعا نہ کرنا۔ 52) خود نیک بننے کی کوشش اور اہلِ خانہ کو برائیوں سے نہ روکنا۔ 53) گناہ اور برائی کو شرعی طریقہ سے نہ روکنا جب کہ وہ آپ کی استطاعت میں ہو۔ 54) زنا کرنا۔ 55) غیر محرموں سے دوستی و تعلق رکھنا۔ 56) اپنی اولاد کو غیر اسلامی ماحول میں رکھنا۔ ) اپنی اولاد کو بد دعا دینا خواہ وہ دل سے نہ ہی ہو۔ عورتیں بچوں کو ڈانٹتی ہیں، بعد میں ان بچوں کی بد تمیزی کا شکوہ کرتی ہیں یہ بھی نحوست کا سبب ہے۔ 57) ننگے سونا۔ 58) شرعی لباس کی حدود سے مختلف لباس پہننا ۔ 59) بیٹھ کر پگڑی/عمامہ باندھنا ۔ 60 ) کھڑے کھڑے شلوار یا پاجامہ پہننا۔ 61) استغفار نہ کرنا اور چھوٹے گناہ نیز عمومی بری عادتوں کو نظر انداز کرنا۔ 61) گھر میں جالے وغیرہ صاف نہ کرنا نیز گھر میں صفائی کا مناسب انتظام نہ کرنا۔ 62) خواتین کا حیض و نفاس والے کپڑے دیر تک گھر میں ہی رکھنا اور خون بند ہونے پر نہانے میں تاخیر کرنا۔ 63) جنسی تعلقات میں غیر شرعی طریقہ اختیار کرنا وغیرہ وغیرہ

مذکورہ تمام اسباب میں بہت سارے احکام ایسے ہیں جو صریحاً احادیث رسول اللہ ﷺ میں مذکور ہیں۔ اسی طرح متعدد احکام و مشاہدات علماء و اتقیاء کے اقوال و مشاہدات سے ثابت ہیں ۔

یہاں میں ایک بات انتہائی زور دے کر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے دنیا کے کئی ممالک سے رابطہ کرنے والے افراد کی شکایات و سوالا ت سنے۔ یہ خواتین و حضرات رزق میں تنگی، کمی ، کاروبار میں رکاوٹ وغیرہ کے مسائل لے کر آتے ہیں۔ میں نے اوپر جو وجوہات لکھیں وہ ان تمام لوگوں میں کہیں نہ کہیں درست ثابت ہوئیں۔ جب کوئی پریشان حال کسی عامل کے پاس اپنا دُکھڑا سنانے جاتا ہے تو عامل اسے تعویذ، دم، وظائف کا انبار، سلیمانی لوح، نقوش اور نہ جانے کون کون سے طریقوں سے لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض کو فائدہ ہوتا بھی ہے کہ پیسے لے لینے سے عمل اور وظیفہ کا اثر تو ختم نہیں ہو جاتا مگر یہ فائدہ جزوی یا عارضی ہوتا ہے کیونکہ وظیفہ دینے والا صرف "عامل" اور طالبِ دنیا ہوتا ہے (الؔا ماشاء اللہ عزوجل) ، اس کے پاس شرعی علم نہیں ہوتا ہے۔ میری کوشش اور تحریک اسی جہالت کے خلاف ہے۔ میں اپنے تمام محبین، بہنوں اور بھائیوں سے یہی التما س کرتا ہوں کہ اپنی عادات بدلیں، علمِ دین حاصل کریں اور ایسی وجوہات جانیں جن کی وجہ سے رزق تنگ ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے تمام ملنے والوں کو تعلیم دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ ٹونے اور ٹوٹکے نہ کریں بلکہ ذاتِ خدا پر توکل اور بارگاہ مصطفیٰ کریم ﷺ کا قرب ہی ان مسائل کا حل ہے اور یہ منزل پانے کے لئیے شریعتِ مطہرہ کی پابندی کرنی ہو گی۔

اگر آپ یا آپ کے آس پاس کوئی بھی فرد ان مسائل کا شکار ہو تو فی سبیل اللہ عزوجل روحانی مسائل کا حل پانے کے لئیے رجوع فرمائیں۔ آپ کی اس مدد سے کسی کا ایمان بچ سکتا ہے، اجڑتی ہوئی زندگی میں رونق آسکتی ہے اور بالیقین یہ ایک بہترین عبادت اور خدمت ہے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ سرکارِ مکؔہ و مدینہ ﷺ کے ہر امتی کو دنیاوی پریشانیوں سے نجات عطا فرما کر قلبی و روحانی سکون عطا فرمائے۔ ہماری روحانی خدمات بالکل مفت و فی سبیل اللہ عزوجل ہیں۔ کسی قسم کا کوئی ہدیہ نذرانہ وغیرہ نہیں ۔ ان خدمات کے عوض آپ سے مغفرت اور خیریت کی دعا درکار ہے۔
وصل اللہ علی النبی الامی والہ واصحابہ وبارک وسلم

Like us on facebook: www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
Send email: [email protected]
Call @Skype: rizvionline.com

Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 246402 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More