چند دن پہلے مندرجہ بالا عنوان پر بندہ ناچیز نے ایک
آرٹیکل تحریر کیا جسے اکثریت نے سراہا کیونکہ میں نے اس مضمون میں اسکے
لکھنے کا پس منظر واضع طور پر بیان کردیا تھا جوکہ سراسر منکرین حدیث کا رد
کرنا تھا لیکن چند احباب نے اس پر تنقید بھی کی جو میرے سرآنکھوں پر کیونکہ
میں جانتا ہوں کہ جب میں کچھ تحریر کروں گا تو ظاہری بات ہے اس پر تنقید
بھی ہوگی۔ مگر میں اکثر تنقید کا جواب نہیں دیتا ، اگر میں ہر کسی کا جواب
دینے بیٹھ جاؤں تو میری زندگی دشوار ہو جائے اور مجھے روزانہ ٢٠ آرٹیکل
لکھنے پڑیں حالانکہ مجھے اور بھی غم ہیں غم روزگار کے سوا ۔ آپ سوچ رہے ہوں
گے کہ اگر میں تنقید کا جواب نہیں دیتا تو پھر یہ آرٹیکل کیوں لکھ رہا ہوں
تو اسکی وجہ یہ ہے کہ کراچی سے ایک عبدالله صاحب ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے
اور اپنی تنقید کے ساتھ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئیے کچھ مواد بھی بھیجا
میں نے انکی خدمت میں عرض کیا کہ جناب یہ تمام حوالہ جات میری نظر سے گذر
چکے ہیں اور سب حوالہ جات کو میں نے گذشتہ آرٹیکل لکھتے وقت ملحوظ خاطر بھی
رکھا تھا۔ ایک اور بات کرنا چاہوں گا کہ آرٹیکل میں ہم گنے چنے الفاظ لکھ
سکتے ہیں اور یہ بھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے کہ آرٹیکل کہیں طویل نہ ہو جائے
لیکن چونکہ ہر پڑھنے والے کا دماغی لیول ایک جیسا نہیں ہوتا اسلئیے سمجھنے
میں بعض احباب کو دشواری ہوتی ہے۔ موصوف کے بھیجے ہوئے دلائل کا دارومدار
بخاری شریف کی روایت پر ہے جسکے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 6 برس اور رخصتی کے وقت 9 برس
تھی۔ یہ قول ہے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا ۔ جب میں نے اسے حضرت عائشہ رضی
اﷲ عنہا کا قول کہا تو موصوف بھڑک اٹھے اور کہا کہ تو بخاری شریف کی حدیث
کو قول عائشہ کہہ رہا ہے تو جناب کی خدمت میں گذارش ہے کہ میں نہیں کہہ رہا
بلکہ تمام محدثین نے اسے قول عائشہ ہی لکھا ہے اور یہ ہے بھی حضرت عائشہ
رضی اﷲ عنہا کا قول جو مختلف واسطوں سے امام بخاری تک پہنچا ۔ اب اگر قول
عائشہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرق موصوف کو سمجھانے بیٹھ جاؤں
تو کئی آرٹیکل لکھنے پڑیں گے حدیث کی مختصر تعریف کرکے آگے بڑھوں گا اور
ترجمہ بھی نہیں کروں گا تاکہ آپکی علمی استعداد کا بھی پتہ چلے ۔ کل ما
اضیف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من قول او فعل او تقریر او صفۃ۔ اب آئیے
انکے دعوے کا دارومدار جس روایت پر ہے اس پر عرض کرتا ہوں ۔ نکاح کے وقت
سیدہ کی عمر وہ نہیں تھی جو بیان کی جاتی ہے ، بلکہ وہ ایک بالغ اور نوجوان
خاتون تھیں۔ نکاح کے وقت ان کی عمر سولہ برس اور رخصتی کے وقت انیس برس
تھی۔مگر راوی نے اسے غلطی سے چھ اور نو بنا دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عربی
زبان میں دس سے اوپر کے اعداد کو ایک مرکب عدد کے طور پر بولا جاتا ہے
۔انگریزی میں یہ بیس کے بعد ہوتا ہے ۔ اس لیے اکیس کے عدد کو Twenty one
کہتے ہیں۔ عربی میں دس سے اوپر یہی اصول ہے ۔چنانچہ سولہ کا ہندسہ الفاظ کی
شکل میں ست عشرۃ اور انیس کا ہندسہ تسع عشرۃ کے طور پر بیان کیا گیا ہو گا
جسے راوی کی غلطی نے ست(6) اور تسع(9) بنادیا۔ جناب اب اگلا اعتراض یہ نہ
کردینا کہ پچھلے آرٹیکل میں میں ١٧ اور انیس سال لکھا تھا اور آج سولہ اور
انیس لکھ رہا ہوں جناب گذارش ہے کہ ایمانیات کا تو یہ مسئلہ ہے نہیں کہ ایک
سال کے فرق سے میں کافر ہو جاؤں اور دوسرا آپ کے لئیے یہ ہوم ورک ہے کہ
دونوں آرٹیکل کو سامنے رکھ کر وجہ تلاش کریں کہ کیا لاجک ہے کہ وہاں میں نے
١٧ سے ١٩ لکھا اور یہاں ١٦ سے ١٩ ؟ کیونکہ میں بغیر لاجک کے نہیں لکھتا،
خدارا اب کوئی بچکانہ سوال نہ اٹھا دینا جواب کی نہ مجھ میں توانائی ہے نہ
وقت ۔ موصوف کے دعوے کی دلیل روایت کی جو سند ہے اس میں ہشام بن عروہ ہیں
اور موصوف کے بقول اس روایت کی اعلی ترین سند ہے موصوف کے الفاظ من و عن
نقل کرتا ہوں The most well-known chain of narration is that of Hishaam
ibn ‘Urwah اب سنئیے ہشام بن عروہ پر محدثین نے جرح کی ہے کہ اسے آخر عمر
میں بھول جانے کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور 6 سے 9 سال حضرت عائشہ کی عمر
والی روایت اس نے اپنی آخر عمر میں بیان کی۔ یہ پورا واقعہ صرف ایک صاحب
ہشام بن عروہ سے مروی ہے ۔وہ بھی اسے اپنی پوری زندگی میں کبھی بیان نہیں
کرتے سوائے عمر کے آخری حصے کے جب وہ مدینہ سے عراق منتقل ہوئے ۔ 131ھ کے
بعد کا یہ وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں تمام محققین یہ کہتے ہیں اس زمانے
میں ان کی یادداشت متاثر ہو چکی تھی۔ابن حجر نے تہذیب التہذیب اور حافظ
ذہبی نے میزان میں ہشام کے اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔اسی لیے
اہل علم ہشام کی ان روایات کو لینے میں بہت محتاط رہتے ہیں جو انہوں نے عمر
کے آخری حصے میں عراق میں بیان کیں ۔سیدہ کے نکاح کی روایت ایک ایسی ہی
روایت ہے ، مگر چونکہ اس کا تعلق حلال و حرام سے نہیں ، بلکہ ایک تاریخی
بیان سے ہے اس لیے اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ ہمارے اہل علم کا
عام طریقہ ہے کہ زیادہ سختی صرف حلال و حرام اور احکام کی روایات پر کرتے
ہیں۔ حالانکہ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہر حلال و
حرام سے زیادہ اہم ہے اور اس روایت پر اس پہلو سے غور کیا جانا چاہیے ۔
جناب دعوئے ضعیف روایت سے ثابت نہیں ہوتے خدارا ایک روایت کو بچانے کے لئیے
منکرین حدیث کو رسول کی عزت پر حملے کی اجازت نہ دو ۔۔ صحیح بخاری ہی میں
بعض ایسی احادیث ہیں جو بالواسطہ طور پر سیدہ کی صحیح عمر خود بیان کر دیتی
ہیں ۔مثلاًبخاری میں کتاب التفسیر کی ایک روایت ہے جس میں سیدہ سورۂ قمر کی
ایک آیت کا حوالہ دے کر کہتی ہیں کہ اس کے نزول کے وقت میں ایک ’جاریۃ‘
یعنی لڑ کی تھی اور کھیلا کودا کرتی تھی۔ سورۂ قمر میں شق قمر کا مشہور
واقعہ بیان ہو ا ہے ۔اس واقعہ کی بنا پر مفسرین اور محدثین اس سورہ کے
زمانۂ نزول کے بارے میں متفق ہیں کہ یہ سورت نبوت کے پانچویں برس نازل
ہوئی۔ ہشام بن عروہ کی روایت کی رو سے سیدہ کی پیدایش 5نبوی میں ہونی چاہیے
۔ گویا ہشام کے مطابق جس سن میں ان کی پیدایش ہونی چاہیے ، بخاری کی اِس
روایت کے مطابق ٹھیک اسی سن کا واقعہ سیدہ بیان کرتی ہیں کہ میں اس وقت
کھیلنے کودنے کی عمر میں داخل ہوجانے والی ایک لڑ کی تھی۔اس واقعے کے آٹھ
برس بعد ہجرت ہوئی اور ہجرت کے ایک دو برس بعد آپ کی رخصتی ہوئی ۔اس حساب
سے سورۂ قمر کے نزول کے نو دس برس بعد رخصتی کے وقت آپ لڑ کپن سے نکل کر
جوانی کے دور میں داخل ہو چکی تھیں ۔ بخاری و مسلم کی مستند روایات کے
مطابق سیدہ جنگ بدر اور احد میں شریک تھیں ۔جنگ احد کے موقع پر آپ ام سلیم
کے ہمراہ پانی کے مشکیزے اٹھائے مسلمانوں کو پانی پلاتی پھر رہی تھیں (بخار
ی کتاب الجہاد و السیر، باب غزوالنساء وقتالھن مع الرجال )۔ جنگ جنگ ہوتی
ہے بچوں کا کھیل نہیں ہوتی۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے
موقع پر 15برس سے کم عمر بچوں کو جنگ میں شرکت سے منع کر دیا تھا۔ جبکہ
سیدہ کی عمر جنگ احد کے وقت ہشام کی روایت کے مطابق گیارہ برس کی تھی۔ یہ
کیسے ممکن ہے کہ اتنی کم سنی میں انہیں جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی
جائے ۔اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ کی عمر سے متعلق ہشام کی روایت
درست نہیں ، بلکہ سیدہ کی عمر نکاح کے وقت زیادہ تھی۔ تاریخ کی کتب سے
مستند حوالے میں نے گذشتہ آرٹیکل میں پیش کر دیے تھے ۔۔متعدد تاریخی حوالے
بھی یہ بات واضح کرتے ہیں کہ سیدہ کی عمراس سے زیادہ ہے جتنی ہشام کی روایت
میں بیان ہوئی ہے۔ مثلاًمورخ طبری اپنی کتاب تاریخ طبری میں حضرت ابو بکر
کے حالات کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ ان کی چار اولادیں تھیں اور سب کی سب
زمانۂ جاہلیت یعنی اعلان نبوت سے قبل پیدا ہوئیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدہ
5نبوی کو نہیں ، بلکہ اس سے کہیں پہلے پیدا ہوئی تھیں ۔ |