پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نو تلواریں
تھیں جن میں سے دو انھیں وراثت میں ملیں اور تین مال غنیمت میں حاصل ہوئیں۔
عضب انھیں تحفے میں ملی تھی۔ ان نو میں سے آٹھ تلواریں ترکی کے شہر استنبول
میں واقع توپ کاپی عجائب گھر میں محفوظ ہیں جبکہ ایک مصر کی ایک جامع مسجد
میں موجود ہے۔
پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا نام
ضرب عضب پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ایک تلوار کے نام پر رکھا
گیا ہے۔ العضب کے معنی، تیز چلنے والی اور تیز دھار تلوار ہیں۔ پیغمبر
اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو یہ تلوار صحابی سعد بن عبادہ الانصاری رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے غزوہ اُحد سے قبل تحفے میں دی تھی۔
پیغمبر اسلام کے زیر استعمال رہنے والی
تلواروں کے نام اور تفصیل:
|
الم اثور:
اس تلوار کو ماثور الفجر بھی کہتے ہیں اور یہ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کو اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔ اس تلوار کا دستہ سونے کا
اور اطراف سے مڑا ہوا ہے جس پر زمرد اور فیروزے جڑے ہیں۔ اس تلوار کی
لمبائی 99 سینٹی میٹر ہے۔ یہ تلوار پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
بعد میں اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دے دی
تھی۔ اب یہ تلوار ترکی شہر استنبول کے عجائب گھر توپ کاپی میں موجود ہے۔ |
|
الرسّوب:
الرسّوب من السیوف کے معنی ہیں، اندر گھس جانے والی تلوار۔ اس کی لمبائی
140سینٹی میٹر ہے۔ اس تلوار کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نسل در نسل
منتقل ہوتے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی۔ اس تلوار پر
سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں جن پر امام جعفر الصادق کا نام کندہ ہے۔ یہ تلوار
بھی ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔
|
|
البتّار:
البتّار کے معنیٰ السيف القاطع یعنی کاٹ دینے والی تلوار ہے۔ روایات کے
مطابق اس تلوار کا اصل مالک جالوت تھا جس کا نبی حضرت داؤد علیہ السلام نے
20 برس کی عمر میں سر قلم کر دیا تھا۔ تلوار پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی ہے
جس میں حضرت داؤد علیہ السلام جالوت کا سر قلم کرتے دکھائے گئے ہیں۔ تلوار
پر ایک ایسا نشان بھی بتایا جاتا ہے جو تراشیدہ چٹانوں کی وجہ سے منفرد
شہرت حاصل کرنے والے اردن کے بترا نامی شہر کے تقریباً دو ہزار قدیم باشندے
اپنی ملکیتی اشیا پر بنایا کرتے تھے۔ اس تلوار کو سیف الانبیا یعنی نبیوں
کی تلوار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس پر انبیا حضرات داؤود، سلیمان، ہارون،
یسع، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے نام کنندہ ہیں۔ اس تلوار کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت
عیسیٰ علیہ السلام اسی تلوار سے دجال کا مقابلہ کریں گے۔101 سینٹی میٹر
لمبی یہ تلوار پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو یثرب کے یہودی قبیلے
بنو قینقاع سے مالِ غنیمت میں حاصل ہوئی اور اب توپ کاپی میں محفوظ ہے۔
|
|
الحتف:
حتف کے معنیٰ ہیں مارنا، حتف السیف یعنی مار دینے والی تلوار ۔ یہ تلوار
یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس بنی اسرائیل کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل
محفوظ چلی آ رہی تھی۔ یہ بھی پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بنو
قینقاع سے مالِ غنیمت میں حاصل ہوئی۔ رویات کے مطابق یہ تلوار حضرت داؤود
علیہ السلام نے خود بنائی تھی۔ وہ لوہے کا ساز و سامان اور ہتھیار بنانے
میں خاص مہارت رکھتے تھے۔یہ تلوار البتّار کی طرز پر ہی بنی ہوئی ہے لیکن
سائز میں بڑی ہے۔ تلوار کی لمبائی 112 سینٹی میٹر اور چوڑائی آٹھ سینٹی
میٹر ہے۔ یہ تلوار بھی اب توپ کاپی میں محفوظ ہے۔
|
|
القلعی:
خوبصورت میان والی یہ تلوار بھی البتّار اور الحتف کی طرح پیغمبر اسلام صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو یثرب کے قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ہوئی
تھی۔ اس کے علاوہ اس تلوار کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ پیغمبر
اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے اس تلوار کو اور ہرنوں
کے سونے سے بنائے گئے دو مجسموں کو چاہِ زمزم نکلوایا تھا اور یہ بھی کہ
انھیں نبی اسماعیل کے سسرالی قبیلے نے دفن کیا تھا۔ القلعی کے نام کی وجہ
اس کا شام، ہندوستان یا چین کے سرحدی علاقے سے تعلق ہو سکتا ہے جبکہ محققین
کا ایک حلقہ یہ دلیل بھی دیتا ہے کہ قلعی ایک قسم کی دھات کا نام ہے جو
دیگر دھاتی چیزوں کو چمکانے یا ان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے۔ اس تلوار
کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے۔ اب یہ تلوار بھی ترکی کے عجائب گھر میں محفوظ
ہے۔
|
|
الذوالفقار:
اس تلوار کی شہرت دو دھاری ہونے اور اس پر بنے ہوئے دو نوک والے نقش و نگار
کی وجہ سے ہے۔ یہ تلوار روایات کے مطابق جنگِ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر
حاصل ہوئی تاہم بعد میں پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسے علی
ابنِ ابی طالب کو دے دیا۔ اکثر حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تلوار ان کے
خاندان کے پاس کئی نسلوں تک رہی تاہم اب یہ بھی توپ کاپی میں بتائی جاتی ہے۔
|
|
المِخذم:
اس کے معنیٰ بھی ہیں کاٹ دینے والی۔ اس تلوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
یہ علی ابنِ ابی طالب کو شامیوں کے ساتھ ایک معرکے میں مال غنیمت کے طور پر
ملی تھی۔ تاہم دوسری رائے یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
یہ تلوار علی ابنِ ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خود دی تھی جو ان کے ہاں
نسل در نسل رہی۔ تلوار پر زین الدین العابدین کے الفاظ کنندہ ہیں۔ اس تلوار
کی لمبائی 97 سینٹی میٹر ہے اور یہ تلوار بھی توپ کاپی میں رکھی گئی ہے۔
|
|
القضیب:
قضیب کے معنیٰ ہیں کٹی ہوئی شاخ یا بغیر سدھائی ہوئی اونٹنی۔ یہ تلوار پتلی
اور بہت کم چوڑائی والی ہے۔ یہ تلوار پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے پاس تو ضرور رہی لیکن اس سے کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ تلوار پر چاندی سے
’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب‘ کے
الفاظ کنندہ ہیں۔ تلوار ہمیشہ پیغمبرِ اسلام کے گھر میں موجود رہی۔ کہا
جاتا ہے کہ فاطمیوں کے عہد میں اس تلوار کو استعمال کیا گیا تھا۔ تلوار کی
لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور اس تلوار کی میان کسی جانور کی کھال کی بنی
ہوئی ہے۔ یہ تلوار بھی ترکی کے توپ کاپی عجائب گھر، استنبول میں محفوظ ہے۔
|
|
العضب:
العضب کے معنی ہے تیز چلنے والی، تیز دھار والی تلوار۔ پیغمبر اسلام صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کو یہ تلوار ایک صحابی حضرت سعد بن عبادہ الانصاری رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے غزوہ اُحد سے قبل بطورِ تحفہ دی۔ آپ نے جنگ اُحد میں یہی
تلوار ابو دجانہ الانصاری کو لڑنے کے لیے عطا فرمائی۔ یہ تلوار مصر کے شہر
قاہرہ کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔
|
|
(ان تلواروں کی کم بیش تمام تصویریں محمد حسن محمد التہامی کی لی ہوئی ہیں
جو انھوں نے 1929 میں اپنے اُس مقالے کے لیے کھینچی تھیں جو انھوں نے
پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تلواروں اور سامانِ حرب کے بارے
میں لکھا تھا۔)
بشکریہ : ( بی بی سی اردو) |