ایک آدمی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوا ‘ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ ! میں پیسے والا آدمی ہوں ۔ میرے بیوی بچے
بھی ہیں اور ماں باپ بھی ۔ میرے باپ کو میرے روپے کی ضرورت ہے میں کیا کروں؟
سنن ابوداؤد میں ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ ہی
کا ہے، پھر ارشاد فرمایا کہ اولاد پاکیزہ ترین کمائی میں سے ہے۔ لہٰذا تم
ان کی کمائی کھاسکتے ہو۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بچے بڑے ہوجائیں اور ماں باپ بوڑھے۔ تو
بوڑھے ماں باپ کو سوسائیٹی میں ناکارہ افراد کی حیثیت دیدی جائے ۔ ان کے
ساتھ اس طرح سلوک کیا جائے کہ وہ رحم وکرم پر پڑے رہیں اسلام اس کی سخت
مخالفت کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ بوڑے ماں باپ بھی معاشرے کا اہم حصہ
ہیں۔ ان کی ضروریات پوری کرنا نیک اولاد کا فریضہ ہے، جس طرح اولاد یہ
سمجھتی ہے کہ اپنی اولاد کو پالنا پوسنا اس کے لئے ضروری ہے چاہے پیسہ پاس
ہو یا نہ ہو۔ ٹھیک اسی طرح ماں باپ کی خبر گیری اور خدمت بھی ضروری ہے۔
ممکن ہے بعض ترقی یافتہ ملکوں میں رہن سہن کا رنگ ڈھنگ ایسا ہو کہ بوڑھے
ماں باپ کو جوان اولاد بوجھ سمجھنے لگے ۔ لیکن یہ بات عام اخلاقی اصولوں سے
بھی گری ہوئی ہے۔ جو مدد کے محتاج ہوں اور بڑھاپے کی وجہ سے جن کی خبر گیری
کی ضرورت ہو، انہیں صرف اپنے آرام کی خاطر گھر سے الگ کردیا جائے یہ سنگدلی
ہے جسے اسلامی معاشرہ کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔
اسلام تو غیروں کو اپنا بنالینے کا حکم دیتا ہے۔ ماں باپ تو پھر ماں باپ
ہیں۔ ان کے حقوق تو ایسے ہیں کہ اولاد اگر اپنی کھال کی جوتیاں بناکر انہیں
پہنائے تو حقِ خدمت ادا نہ ہو۔
جنھیں اﷲ تعالیٰ نے پیسہ دیا ہے ان پر اﷲ تعالیٰ نے کچھ ذمہ داریاں بھی
ڈالی ہیں یہ ذمہ داریاں مال کے تعلق سے ہیں۔ حکم ہے جہاں تم اپنی ذات پر
اپنی کمائی خرچ کرتے ہو وہاں اﷲ کے حکم سے تمہیں اپنی کمائی دوسروں پر خرچ
کرنا ہوگی۔ دوسروں میں اجنبی یا غیر لوگ بھی شامل ہیں۔ عزیز رشتہ دار بھی۔
اگر ایک اجنبی اور ایک عزیز دونوں محتاج ہوں تو حکم ہے کہ پہلے اپنے عزیز
کے ساتھ سلوک کرو۔
سُورہ نحل میں ارشاد ربانی ہے کہ۔ ’’اے ایمان والو! اﷲ تعالیٰ انصاف کرنے
کا حکم دیتا ہے اور رشتہ داروں سے مالی سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ سورہ بنی
اسرائیل میں حکم ہے کہ ۔ رشتہ داراور غریبوں اور مسافروں کو ان کا حق
پہنچاتے رہو۔ خبردار اپنی دولت کو بے جا مت اُڑاؤ۔
ایسے ہی احکام سُورہ نساء، سُورہ نور، سُورہ احزاب اور سُورہ بلد وغیرہ میں
ہے۔ شریعت نے واضح طور پر صورتیں بتادی ہیں کہ کب اور کس طرح رشتہ داروں کی
مدد کی جائے۔ ان میں کچھ تو ایسے ہیں کہ ہر حالت میں ان کفالت ضروری ہوتی
ہے۔ جیسے بیوی بچے اور ماں باپ ۔ یہ ایک شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے جس کا
پورا ہونا ضروری ہے۔ پھر حُسن سلوک کے احکامات ہیں۔ اگر خاندان میں کوئی
غریب ہو تو خاندان کے اس فرد پر جو امیر ہے یہ ایک طر ح کی ذمہ داری ہے کہ
اس غریب کی دیکھ بھال کرے۔ وہ لوگ جو اہلِ خاندان کا حق ادا نہیں کرتے
انھیں بخیل قرار دیا گیا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ بخیلوں اور روپیہ جوڑ جوڑ کر
رکھنے والوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ ترمذی اور نسائی میں حضرت ابو
بکر رضی اﷲ عنہ کی بیان کی ہوئی ایک حدیث ہے جس کا مطلب ہے کہ۔ تین شخص جنت
میں داخل نہیں ہونگے۔ ایک دھوکا باز، دوسرا بخیل، تیسرا صدقہ دیکر احسان
جتانے والا۔ طبرانی میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ۔ کسی
مالدار رشتہ دار سے اگر کسی غریب رشتہ دارنے کچھ مانگا اور وہ باوجود دے
سکنے کے کچھ نہ دے ،تو آخرت میں اس کا مال سانپ بناکر اس کے گلے میں ڈالا
جائے گا اور وہ سانپ انکار کرنے والے کا منہ ڈستا رہے گا۔ (ماخوذ)
سوچئے کہ۔ رشتہ داروں سے لاپرواہی پر اگر یہ سزا ہے تو پھر ماں باپ کے
نافرمانوں پر کیا بیتے گی؟ اﷲ ہم سب کو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار بننے
اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |