ایک زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ڈراموں کا یک سلسلہ
نشر ہوتا تھاجس کا عنوان "ایک حقیقت سو افسانے"تھا ۔یہ پروگرام ایک اخبار
کے ایڈیٹر اور ان کے اسسٹنٹ کے حوالے سے تھا ۔یہ دو مستقل کردار تھے
اورہردفعہ کہانی الگ الگ ہوتی تھی ۔نثارقادری اس میں ایڈیٹر اور مستنصر
حسین تارڑ ان کے اسسٹنٹ کا رول ادا کرتے تھے ۔نثار قادری کی خوبصورت
اداکاری اس ڈرامے کی جان تھی جس میں وہ اپنی سگریٹ جلانے کے لیے ہر ایک سے
ماچس مانگتے رہتے تھے۔یہ اپنے اخبار کے لیے ہر دفعہ ایک نئی اسٹوری پر کام
کرتے تھے ۔ایک دفعہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ معاشرے میں گداگری کی لعنت پر
کوئی اسٹوری لانا ہے چنانچہ انھوں نے ایک رپورٹر کی ڈیوٹی لگائی کے وہ
گداگری کے حوالے سے ایک معلوماتی فیچر تیار کرے ۔اس کے لیے اسے خود ایک
گداگر کا روپ دھارنا پڑے گا۔چنانچہ اس رپورٹر نے گداگر کا روپ دھار لیا اور
فیچر کی تیاری کرنے لگا ادھر ایڈیٹر صاحب انتظار کرنے لگے ایک ہفتہ گزر گیا
،دو ہفتے ہو گئے تقریباَ ایک ماہ بعد اسے فون کیا گیا کہ بھائی وہ فیچر
تیار ہوا یا نہیں اس نے پوچھا کیسا فیچر یہ لوگ بڑے حیران ہوئے اور کہا ارے
بھائی تمھیں گداگری کی لعنت پر ایک فیچر تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا
رپورٹر نے پوچھا آپ مجھے کیا تنخواہ دیتے ہیں اس سے زیادہ تو میں اب روز
کما لیتا ہوں صحافت میں کیا رکھا ہے ،خیر یہ تو ڈرامے کی بات تھی ہمارے شہر
میں گداگری اب نئے نئے انداز سے سامنے آرہی ہے ،ماہ رمضان کی آمد آمد ہے
تھوڑے دنوں میں ہمیں شہر میں جگہ جگہ خیمے نظر آئیں گے جس میں بیرون شہر
بالخصوص پنجاب سے بڑی تعداد میں پروفیشنل فقیروں کا جمگٹھابمعہ اپنے خاندان
کے ساتھ نظر آئے گا ۔لیکن پچھلے کئی سالوں سے اب مختلف چوراہوں اور سگنل پر
تیسری مخلوق خواجہ سرا جسے ہم بچپن میں ہیجڑے کہتے تھے جو عموماَ محلے میں
شادی اور تقریب والے گھر سونگھتے پھرتے تھے اور محلے کے بچے ان کا ناچ
دیکھنے کے شوق میں ان کی مخبری کرتے تھے کہ اس گھر میں شادی ،ولیمہ یا
عقیقہ ہوا ہے وہ پھر اسی گھر پہنچ کر اپنا گانا بجانا شروع کردیتے تھے
،لیکن یہ لوگ یہ کام اب اس پیمانے پر نہیں کر پاتے کہ اب محلوں میں شادیاں
ہونا کم ہو گئیں ہیں ،شادی حالوں میں انھیں گھسنے نہیں دیا جاتا اس لیے اب
یہ بازاروں اور مارکیٹوں میں بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ اسٹاپوں ،چوراہوں
اور سگنلوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔مانگنے میں ان کی ابتدا انتہائی
نرمی سے دعائیہ انداز میں ہوتی ہے اس پر اگر آپ نے کچھ دے دیا تو ٹھیک ورنہ
پھر اگلے مرحلہ میں طنزیہ یا کبھی کبھی ایسے جملے بھی آسکتے ہیں جو آپ کے
طبع نازک پر گراں گزر سکتے ہیں اور کبھی کبھی آپ کے سر پر شفقت کا ہاتھ بھی
پھیرا جاسکتا ہے ۔ایک نفیس طبیعت کے انسان پر یہ سب چیزیں گراں گزرتی ہیں
۔ان کا کوئی علاج ہونا چاہیے حکومت تو بڑے بڑے مسائل میں الجھی ہوئی ہے اگر
کچھ سماجی تنظیمیں آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو یہ
کراچی کے شہریوں پر ایک احسان ہو گا۔پھر مانگنے کے نئے طریقے بھی متعارف ہو
رہے ہیں،ان ہی اسٹاپوں اور سگنلوں پر آپ کو کندھے پر گیتی ،پھاؤڑالیے ہوئے
لوگ نظر آئیں گے جو کہتے ہیں کہ آج کام نہیں ملا کچھ مدد کردیں ،اب سے
تقریباَ سات آٹھ سال قبل میں آرام باغ کی مسجد سے نماز پڑھ کر نکلا تو ایک
معصوم سی آواز کانوں میں آئی کہ انکل ہمارے ابو کا انتقال ہو گیا ہے ہمارے
گھر کھانے کو کچھ نہیں ہے آپ ہماری کچھ مدد کریں اور اس کے ساتھ ایک نوجوان
خاتون جو برقعہ میں تھیں اور نقاب لگائے کھڑی تھیں وہ اس بچی کی ماں رہی
ہوگی میں نے یہ دیکھا کہ ہر نمازی اس بچی کو کچھ نہ کچھ دے کر جا رہا تھا
۔یہ نیا طریقہ اس وقت بڑا متاثر کن تھا اس لیے بہت جلد یہ طریقہ عام ہو گیا
اب ہر مسجد میں اسی طرح کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ایک دفعہ ایک مسجد میں ایک
سفید کرتے پاجامے میں ملبوس پڑھے لکھے صاحب اس طرح مانگ رہے تھے کہ اپنا
منہ انھوں نے دوسری طرف کیاہوا تھا اور ایک ہاتھ اس پررکھ کر چہرہ چھپانے
کی کوشش کررہے تھے اور دوسرا ہاتھ لوگوں کی طرف پھیلایا ہوا تھا تا کہ یہ
تاثر دیا جا سکے کہ یہ کوئی خاندانی آدمی ہے مجبوراَ ہاتھ پھیلانا پڑرہا
ہے۔ایک دفعہ ایک صاحب کار لے کر نکلے کہ اچانک ایک آدمی کار کے سامنے آیا
اور خون کی الٹی کردی یہ صاحب گھبرا کر باہر نکلے اس آدمی نے کہا معاف
کیجئے گا میری طبیعت خراب ہے اسپتال جانا ہے پیسے بالکل نہیں ہیں ،انھوں نے
اس کو اسی وقت سوروپئے دے دیے وہ تو اس ڈرامے کا انکشاف اس وقت ہوا جب ان
صاحب نے ایک اور جگہ اسی آدمی کو کسی اور کے ساتھ یہ عمل دہراتے ہوئے دیکھا
۔ایک دفعہ میں برنس روڈ کی ایک دکان پر کھڑا ہوا تھا ایک خواجہ سرا مانگنے
کے لیے آیا دکاندار نے اسے بری طرح دھتکار دیا ،میں نے اس سے کہا کہ آپ نے
اس طرح اسے بھگا دیا اور اس نے کچھ نہیں کہا دکاندار نے کہا کہ یہ اصلی
خواجہ سرا نہیں ہے بلکہ یہ بیروزگار نوجوانوں کا گروپ ہے جو شام کو یہاں
اودھم چوکڑی مچاتے ہیں اور دن میں بھیس بدل کر بھیک مانگتے ہیں ۔اب رمضان
آرہا ہے ہر مسجد میں ہر نماز کے بعد اچانک دو تین آدمی کھڑے ہو جاتے ہیں جو
اپنی روداد بیان کرنے لگتے ہیں بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی ادھر سے کوئی
صاحب آواز لگاتے ہیں باہر جاؤ باہر ۔گداگری کے مسئلے میں اہم بات یہ ہے کہ
اصل مستحق اور پروفیشنل مستحق میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔اسلام نے ہمیں
جو تعلیم دی ہے اس میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ آپ اپنے خاندان اور
رشتہ داروں میں جو معاشی دوڑدھوپ میں پیچھے رہ گئے ہیں اور ان کی گزر بسر
مشکل سے ہورہی ہو پہلے ان کی مدد کریں اب دیکھیے اس سے کتنی بڑی مشکل آسان
ہو گئی کہ ہمیں اپنے خاندان اور رشتہ داروں میں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ
کون کتنا مستحق ہے اس کے بعد پڑوس کا نمبر آتا ہے کہ ہمارے پڑوسیوں میں کون
کس حال میں ہے ہمیں اس کا بھی علم رہتا ہے اس کے بعد دوست احباب کا نمبر
آتا ہے ۔گداگری کا یہ پیشہ پرانا سلسلہ ہے ۔خلفائے راشدین کے دور سے پہلے
جنگوں میں جو قیدی پکڑے جاتے تھے انھیں اپنے کھانے پینے کے لیے بھیک مانگنا
پڑتاتھا اسی طرح بعض لوگ اپنے غلاموں کو کھانے پینے کو نہیں دیتے تھے تو
انھیں بھی اپنے کھانے کے لیے آواز لگانا پڑتی تھی ۔خلفائے راشدین کے ادوار
میں پھر اس کا باقاعدہ انتظام کیا گیا ۔ہمارے یہاں بھی اس حوالے سے قانون
سازی کی ضرورت ہے بلکہ جو قوانین پہلے سے بنے ہوئے ہیں اس پر عملدرآمد کی
ضرورت ہے ،پہلی فرصت میں ہمارے اسٹاپوں،چوراہوں اور سگنلوں کو خواجہ سراؤں
سے آزاد کروایا جائے ۔پھر عام قسم کے پروفیشنل بھکاریوں کا بھی کوئی سد باب
کرنے کے سلسلے میں تجاویز مرتب کی جائیں ۔یہ تو تصویر کا ایک رخ تھا اب اس
کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہمارے یہاں مہنگائی ،بے روزگاری کے عذاب نے غربت کو
اور غریبوں کی تعداد کو پہلے سے بہت بڑھا دیا ہے اس لیے ان مانگنے والوں
میں یقیناَکچھ حقیتاَمستحق بھی ہوں گے،اس لیے کہ آج کل لوگ بہت پریشان ہیں
یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس ملک میں اسلام کا وہ عادلانہ معاشی نظام
لانے کی کوشش کریں کہ جس میں غریبوں کو بھی پیٹ بھر کرروٹی ،علاج معالجہ کی
سہولت اور سر چھپانے کے لیے چھت میسر ہو ہم اگر اس کے لیے کسی اجتماعی
جدوجہد میں لگے رہیں گے تو شاید ہماری کچھ گلو خلاصی ہو جائے ورنہ اس
معاشرے میں جو لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر خود کشی کررہے ہیں اور جو والدین
اپنے بچوں کو فروخت کررہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آخرت میں ہمیں اس کی بھی
جواب دہی کرنی پڑجائے۔ |