بجٹ آ چکا۔ حکومت نے تنخواہ اور پنشن میں دس فیصد اضافہ
تجویز کیا ہے۔ یہی اضافہ پچھلے سال بھی تجویز کیا گیا تھا مگر سرکاری
ملازمین کے احتجاج کے باعث تنخواہوں میں اضافہ تو بیس فیصد کر دیا گیا مگر
بزرگ شہری کسی بھی اضافے سے محروم رہے۔ بزرگ شہریوں کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ
زیادہ شور بھی مچایا نہیں جا سکتا۔ بڑھاپے میں جلسے اور جلوس بھی ممکن نہیں
ہوتے۔دھیمے سروں میں ہلکی پھلکی آواز ہی اٹھائی جا سکتی ہے۔ امید ہوتی ہے
کہ نوجوان جو بچوں کی طرح ہوتے ہیں، بزرگوں کا خیال کریں گے۔ ان کی مشکلات
کا احساس کریں گے۔ ان کی بزرگی کی پرواہ کریں گے او رکچھ نہ کچھ حیا کریں
گے۔ مگر کچھ نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اس ملک میں رسم چلی ہے کہ اگر کچھ حاصل
کرنا ہے تو شور کرو۔ زیادہ حاصل کرنا ہے تو توڑ پھوڑ کرو اور اگر بہت کچھ
حاصل کرنا ہے تو گھیراؤ جلاؤ کے بغیر گزارا نہیں۔ مگر مصیبت یہ کہ بابے اس
طرح کا کوئی کام نہیں کر سکتے۔ فقط امید بھری نظروں سے اپنے نوجوانوں سے
بہتر حسنِ سلوک کے طالب ہوتے ہیں۔ مگر نوجوانوں کو احساس ہی نہیں کہ کل
انہیں بھی ریٹائر ہونا ہے۔ انہیں بھی بوڑھا ہونا ہے۔ انہیں بھی آنے والے
وقت میں بڑھاپے کے مسائل کا سامنا کرنا ہے۔ جو سلوک وہ آج اپنے بزرگوں سے
کر رہے ہیں ویسا ہی سلوک کل ان کا منتظر ہو گا۔ کہتے ہیں ایک بوڑھا آدمی
عمر کی زیادتی کے سبب کچھ کبڑا ہو چکا تھا۔ نوجوانوں نے اسے دیکھا تو ہنسے
اور پوچھا محترم بزرگ یہ کمان کتنے میں لی ہے؟ بزرگ ہنسا اور بولا ’’بیٹا
فکر نہ کرو میری عمر کو پہنچو گے تو مفت مل جائے گی۔‘‘
ہم ہر معاملے میں اپنا مقابلہ بھارت سے کرتے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپی
ممالک میں بزرگ شہریوں کا انتہائی اعلیٰ مقام ہے اور انہیں بے پناہ مراعات
حاصل ہیں۔ مگر میں نے دیکھا کہ بھارت بھی اپنے بزرگ شہریوں کو بے حد عزت
اور احترام دیتا ہے اور بھارت میں ہر جگہ ان کو ہر وہ رعایت دی جاتی ہے جس
کے وہ مستحق ہیں۔ چند سال پہلے میں بھارت میں تھا۔ ہم آٹھ لوگ تھے اور ہمیں
پٹھانکوٹ سے دہلی جانا تھا۔ سامنے بزرگ شہریوں کے لئے ٹکٹ کا علیحدہ کاؤنٹر
تھا۔ ان آٹھ آدمیوں میں سب سے کم عمر میں تھا۔ بزرگ شہریوں کے لئے ٹرین ٹکٹ
میں تیس فیصد رعایت ہے۔ میں آگے بڑھا۔ سردار سامنے ٹکٹ دینے بیٹھے تھے۔ میں
نے ہنس کر کہا سردار جی ہم آٹھ ہیں۔ وہ سات پورے بابے اور میں نیم بابا۔
میرے بابا ہونے میں ابھی چھ ماہ باقی ہیں۔ آپ سات رعایتی اور ایک پوری ٹکٹ
دے دیں۔ سردار صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ہم ٹکٹ دیتے وقت کارڈ یا
پاسپورٹ چیک نہیں کرتے۔ شکل سے اندازہ لگاتے ہیں کہ کوئی بزرگ ہے یا نہیں۔
آپ کے سفید بال تو بتا رہے ہیں کہ آپ بھی پورے بابے ہیں۔ یہ لیں آٹھ رعایتی
ٹکٹیں۔ بزرگ ہو نا مبارک ہو۔ اس کے بعد میں نے جائزہ لیا سٹیشن پر بزرگ
شہریوں کے لئے ویل چیئرز موجود تھیں جن کی نقل و حمل کے لئے ریمپ بنے تھے۔
بزرگ شہریوں کی مدد کے لئے علیحدہ عملہ مخصوص تھا۔ جو گاڑی پر چڑھانے اور
گاڑی سے اترنے میں بزرگ شہریوں کی مدد کرتا تھا اورپتہ چلا کہ پورے بھارت
میں ہر بڑے سٹیشن پر ایسی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بزرگ
شہریوں کو بھارت میں بے پناہ مراعات حاصل ہیں جن میں نمایاں کچھ اس طرح
ہیں۔
بزرگ شہریوں کے لئے انکم ٹیکس کی چھوٹ عام شہریوں کے مقابلے میں دگنی اور
انتہائی بزرگ (۹۰ سال سے زیادہ) شہریوں کے لئے یہ چھوٹ مزید دگنی کر دی گئی
ہے۔
اولڈ ہوم بنانے کے لئے اداروں اور NGOs کو حکومت ۹۰ فیصد سرمایہ فراہم کرتی
ہے۔
صرف پچاس روپے ماہانہ دے کر بزرگ شہری بس میں سفر کرنے کے لئے پاس حاصل کر
سکتے ہیں اور اس پاس سے سارا مہینہ تمام بسوں میں لا محدود سفر کرنے کی
سہولت حاصل ہوتی ہے۔ تمام بسوں میں فرنٹ کی دو سیٹیں بزرگ شہریوں کے لئے
مخصوص ہیں۔
تمام ہسپتالوں میں بزرگ شہریوں کی رجسٹریشن اور علاج کے لئے علیحدہ کاؤنٹر
اور ڈاکٹر موجود ہیں۔ دہلی سمیت بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں اتوار صبح دس
بجے سے بارہ بجے کا وقت صرف اور صرف (ماسوائے ایمرجنسی کے) بزرگ شہریوں کے
لئے مخصوص ہے۔
بجلی، پانی اور ٹیلی فون کی شکایت اگر کوئی بزرگ شہری کرے تو اس کی شکایت
کے ساتھ VIP فلیگ لگایا جاتا ہے تاکہ اس شکایت کا ازالہ سب سے پہلے اور کم
سے کم وقت میں کیا جائے۔ ٹیلیفون کے بلوں میں بزرگ شہریوں کو پچیس فیصد تک
رعایت دی جاتی ہے۔
انڈین ایئر لائن اپنے ملک کے بزرگ شہریوں کو اندرون ملک سفر کی صورت میں
اکانومی کلاس میں پچاس فیصد اور بیرون ملک سفر کی صورت میں اکانومی کلاس
میں پچپن فیصد رعایت دیتی ہے۔
بزرگ شہریوں کو پراپرٹی ٹیکس میں تیس فیصد رعایت حاصل ہے۔ وہ بزرگ شہری جو
غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں انہیں کھانے پینے کی اشیا مخصوص
رعایتی قیمت پر دی جاتی ہیں اور کچھ چیزیں سو فیصد مفت مہیا کی جاتی ہیں۔
بھارت کی عدالتیں بزرگ شہریوں کے کیسوں کی تیز سماعت اور جلد فیصلہ دینے کی
پابند ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بھارت تعلیمی اعتبار سے ہم سے بہتر ہونے کے سبب اپنے بزرگ
شہریوں کو بہت احترام دیتا ہے جبکہ ہمارے بزرگ شہری ہر طرح کی سہولت سے
محروم ہیں۔ کاغذوں مین چند سہولتیں اگر نظر بھی آتی ہیں تو بھی عملی طور پر
کچھ ایسا نہیں۔ تنخواہ دار شخص کو سالانہ اضافہ دسمبر میں ملتا ہے اور بجٹ
میں دوسری دفعہ اضافہ ہوتا ہے۔ اس دہرے اضافے کے باوجود تنخواہ دار طبقے کی
زندگی موجودہ مہنگائی کے دور میں تلخ سے تلخ تر ہوتی جا رہی ہے۔ پنشن
تنخواہ کے مقابلے میں بہت معمولی ہوتی ہے جس میں اضافہ فقط سال میں ایک
دفعہ ہوتا ہے۔ وہ بھی جائز حد تک نہیں ہوتا۔ اصولی طور پر تنخواہ میں اضافہ
اگر دس فیصد ہو تو پنشن میں بیس فیصد ہونا چاہئے۔ مگر میاں ہر چیز میں الٹی
گنگا بہتی ہے۔
ماڈل ٹاؤن پارک میں بہت سے بزرگ شہری حکومت کی بے حسی پر ماتم کناں تھے تو
ایک صاحب نے میاں شریف صاحب کو یاد کیا کہ ایسی صورتحال میں اتفاق مسجد میں
ان سے ملاقات کر کے جائز با ت بتا دی جاتی تو مسئلہ حل ہو جاتا تھا مگر اب
پتہ نہیں ’’شریف برادران کدے آکھے ویکھے وچ نے۔‘‘ یعنی اب پتہ نہیں کس کی
بات سنتے اور مانتے ہیں۔ بہرحال حکومت کو ان کے درد کا احساس کرنا چاہئے
اور ان کی پنشن میں معقول اضافہ کرنا چاہئے۔ یورپ کا نعرہ ہے ’’بزرگ شہری
مردہ نہیں، زندہ مخلوق ہیں انہیں خوش و خرم زندہ رہنا اور معاشرے کو اپنے
تجربات سے مستفید کرنا ہے۔‘‘ بزرگ شہریوں کا احترام کریں ان کے زندہ رہنے
کے لئے اچھا ماحول اور جائز مراعات دیں۔ کل کو آپ کو بھی بزرگ ہونا ہے۔‘‘
بزرگ اپنی حکومت سے پنشن میں معقول اضافے کے خواہاں ہیں ۔ امید ہے حکومت ان
کا ان کی بزرگی اور بڑھاپے کا خیال کرے گی۔ |