اسلامی قانون میں بدکاری کی سزا:حدزنا(حصہ اول)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(جرم و اثبات جرم)

’’حد‘‘اس سزاکو کہتے ہیں جوبطور حق اﷲ تعالی مقرر کی گئی ہو یاپھر وہ سزاجو کسی انسان کی حق تلفی یا ایزا دہی کی پاداش میں مجرم کو دی جائے۔ایسی سزاؤں کو’’حد‘‘ یا ’’حدود‘‘اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے خود سے ایسے جرائم اور انکی سزائیں متعین کردیں ہیں یہ ’’حدود‘‘اﷲ تعالی کی مقرر کردہ ہیں اور ان کو عبور کرجانا گناہ کبیرہ ہے۔قرآن و سنت میں کم و بیش دس ایسے جرائم گنوائے گئے ہیں جو ’’حدوداﷲ‘‘کے زمرے میں آتے ہیں اورشریعت اسلامیہ نے انکی سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔چوری،ڈکیتی،زنا،قذف،شراب خوری،ارتداداور بغاوت ان میں سے کچھ ہیں۔حدوداﷲمیں کمی بیشی کااختیار کسی کو نہیں۔اگر کوئی حاکم ایک کوڑا زیادہ لگائے گاتو اﷲٰتعالی اس سے پوچھے گا کہ کیاتو میرے سے زیادہ انصاف کرنے والاتھااور اگر کوئی حاکم ایک کوڑا کم لگائے گاتو اﷲٰتعالی اس سے بھی پوچھے گاکہ کیاتو میرے سے زیادہ رحم کرنے والا تھا۔

بدکاری ہر امت میں قابل سزاجرم رہا ہے اور ہر نبی اور ہر شریعت نے اس جرم پر سزا کا تعین کیاہے۔قدرت نے انسان کو یہ صلاحیت نسل بڑھانے کے لیے عطا کی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی لذت اور مزاقدرت ایک تحفہ خاص ہے جوانسان کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ہونے والے ذہنی تناؤ کے خاتمے کاباعث بنتی ہے اور انسان کوذہنی طور پر ان ذمہ داریوں کے نبھانے کے لیے تیار رہنے پر آمادہ رکھتی ہے۔اگر یہ لذت نہ ہوتی تو ممکن ہے کوئی انسان بھی عملی زندگی کے اتنے بڑے تقاضے پورے کرنے پر تیار نہ ہوتا۔اس لذت کو محض ہوس نفس کے لیے استعمال کرنا اور اسے اپنا خدابنالینا اور اس کے عوض ذمہ داریوں کی ادائگی سے فرار حاصل کرناکسی طور بھی درست اور جائز نہیں ہے ایسے افراد انسانی معاشروں کے نہیں انسانی نسلوں کے دشمن ہیں اور کل انسانیت کے غدار ہیں جنہوں نے اس اجتماعی صلاحیت کو محض لذت نفسانی کے لیے استعمال کر کے ضائع کر دیا۔

ایک انسان کو پورامعاشرہ پال پوس کر ،اسکی پرورش کر کے اور اسکو کھلا پلا کراور پیار محبت سے اتنا بڑا کرتاہے کہ وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسان پیدا کرنے کے قابل ہو سکے۔کوئی اس کے لیے گندم اگاتاہے،کوئی آٹا پیستاہے،کوئی روٹی پکاتاہے اور کوئی محنت کر کے تو وہ روٹی خریدکراسکے منہ میں ڈالتاہے۔کوئی اس کے لیے کپاس اگاتاہے،کوئی اس کپاس سے دھاگابنتاہے،کوئی کپڑا بناتاہے،کوئی سوٹ سیتاہے اور کوئی استری کر کے تواسے پہنا نے کاانتظام کرتاہے۔کوئی اسکے لیے جوتے بناتاہے،کوئی اسکے لیے سواری کاانتظام کرتاہے تو کوئی اسکی تعلیم کا بندوبست کرتاہے وغیرہ۔المختصر یہ کہ کم و بیش اٹھارہ سال تک پورامعاشرہ ایک انسان کو اس قابل بنانے میں لگارہتاہے کہ اس میں اتنی صلاحیت پیداہوجائے کہ وہ اپنے جیسے دیگر انسان پیداکرسکے۔اب اس نوجوان مردیاعورت کے پاس یہ صلاحیت پورے معاشرے کی امانت ہے اور وہ اکیلااس کامالک نہیں ہے۔اگر وہ اس امانت میں خیانت کرے گاتو پورامعاشرہ اس سے اس بددیانتی کا بدلہ لے گا اور ایسے فرد کے لیے شریعت نے پورے معاشرے کو حکم دیاکہ اسکو پتھر مارے جائیں کیونکہ وہ پورے معاشرے کامجرم ہے۔

اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس دین کے تمام احکامات انسان کافطری تقاضاہیں۔زنا جیساقبیح فعل کسی بھی نیک فطرت انسان کو زیب نہیں دیتااور ہر پاک طینت فرد اس سے نفرین ہے۔اسلام کے جملہ احکامات میں عمل تدریج شامل ہے یعنی انسانی فطرت کے عین مطابق تھوڑے تھوڑے کر کے یہ احکامات قسطوں میں نازل ہوتے رہے چنانچہ بدکاری سے بچنے کے بارے میں سب سے پہلے تومحسن انسانیت ﷺ نے مسلمانوں سے وعدے لیے۔جو بھی مسلمان ہونے کی بیعت کرتا آپ ﷺ اس سے جہاں اور وعدے لیتے وہاں یہ وعدہ بھی لیتے کہ زنا نہیں کریں گے۔خاص طور پر خواتین سے یہ وعدہ ضرور لیتے کیونکہ بدکاری ایسا فعل ہے جوخواتین کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں،مرد کتنی ہی کوشش کر لے یہ گناہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کہ عورت نہ صرف یہ اسکے لیے تیار نہ ہو بلکہ اسکے جملہ تقاضے بھی اولین سطح پر خاتون کی طرف سے ہی پورے کیے جاتے ہیں۔یاد رہے کہ زنا بالجبرکاشمار حد زنا میں نہیں ہوتا بلکہ یہ حد حرابہ کے ذیل میں آتاہے۔ایک زناکارانہ معاشرے میں حرمت زنا کے بارے میں مسلمانوں کی ذہنی تیاری گویا یہ ابتدائی اقدامات تھے جن کاآغاز مکی زندگی میں ہی ہوگیاتھا۔

بدکاری کے بارے میں دوسرا حکم شریعت اور قرآن مجید کاپہلا حکم مدنی زندگی میں سورۃ نساء آیت15،16میں نازل ہوا اﷲٰتعالی نے فرمایا
’’تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کاکام کریں ان پراپنے میں سے چار گواہ طلب کرو،اگروہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قیدرکھو،یہاں تک کہ مو ت انکی عمریں پوری کردے یا اﷲٰتعالی ان کے لیے کوئی اورراستہ نکالے۔تم میں سے جو دوافراد ایساکام کرلیں انہیں ایذادواگروہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان سے منہ پھیرلوبے شک اﷲ ٰتعالی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘اس ابتدائی حکم کے بعد معاشرے میں سزاکے خوف سے اس جرم کی تعداد میں واضع کمی ہوگئی۔اسلام کے اصول نسخ کے مطابق بعد میں نازل ہونے والی آیات نے اس حکم کو منسوخ کردیااور باقائدہ سے حد زنا کاقانون اﷲٰ تعالی نے نازل فرمادیا جس کا کہ وعدہ اس آیت میں کیاگیاتھا۔اب اگرچہ ان آیات کی تلاوت کی جاتی ہے لیکن ان پر عمل کرنا منسوخ ہوگیاہے۔اور اﷲٰتعالی نے اٹھارویں سپارے میں سورۃ نور کی ابتدائی آیات کے اندر حد زنا کا باقائدہ قانون نازل فرمادیا۔’’یہ ایک سورۃ ہے جس کو ہم نے نازل کیاہے اورفرض کیاہے اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں شاید کہ تم سبق لو۔زانیہ عورت اور زانیہ مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو،اور ان پر ترس کھانے کاجذبہ اﷲٰتعالی کے دین میں تم کو دامن گیر نہ ہواگرتم اﷲٰتعالی اور روزآخرپرایمان رکھتے ہواور انکو سزا دیتے وقت اہل ایمان کاایک گروہ موجود رہے۔‘‘

زناکا ثبوت تین طریقوں سے ممکن ہو گا:اقرارجرم ثبوت کاپہلاطریقہ ہے،اقرار کے لیے ضروری ہے کہ مجرم بغیرکسی دباؤ کے اپنی مرضی سے بقائم ہوش و حواس خود سے اقراکرے،نشہ کی حالت میں اقرار جرم کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔امام ابوحنیفہ کے نزدیک چار بار اقرار کرنا ضروری ہے اور یہ چار بار چار مختلف مجالس میں ہو اور ان مجالس کے درمیان کچھ دنوں کاوقفہ ہونا بھی ضروری ہے۔اقرارجرم کرنے والے سے مزید بازپرس نہیں کی جائے گی اس سے یہ نہیں پوچھاجائے گاکہ کس کے ساتھ اس نے بدکاری کی ہے؟کس حال میں کی ہے؟کس جگہ کی ہے؟کس وقت کی ہے؟ وغیرہ ۔اقرارکرنے والا اگر بعد میں مکر جائے تو فقہا کی اکثریت کہتی ہے کہ اسے چھوڑ دیاجائے گا اور اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ایک خاتون آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور اس نے اقرارجرم کے بعد کہاکہ اس پر حد جاری کر کے تو اسے پاک کیاجائے،آپ ﷺ نے فرمایابچہ پیدا کرنے کے بعد آنا،کچھ عرصہ بعدوہ بچہ گود میں لیے آئی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارے دودھ پر اس بچے کا حق ہے،وہ پھر کچھ عرصے بعد آئی اور بچے کے ہاتھ میں روٹی کاٹکڑا تھا تب آپ ﷺ نے اس پر حد زنا جاری فرمائی۔

زنا کے ثبوت کا دوسراطریقہ گو اہوں کے بیانات سے اثبات جرم ہے۔زنا سمیت حدود کے مقدمات کے لیے گواہ مردہی ہونے چاہیں،اس حکم کو ماننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اﷲٰتعالی کا حکم ہے لیکن اس میں بہت ساری حکمتوں کے ساتھ یہ حکمت بھی ہے کہ اسلامی شریعت عورتوں کو گھروں سے نکال کر کچہریوں کے آلودہ ماحول میں میلا نہیں کرنا چاہتی،پھرزنا کی تفصیلات عدالت کے روبرو بتانا ضروری ہوگا توعورت کی فطری حیا و شرم اس میں مانع رہے گی کہ مردوں کے درمیان زنا کی تفصیلات وہ کس طرح بیان کرے؟اور شہادت کا حق ادا نہیں ہوسکے گا۔چار مرد گواہ اس صفائی کے ساتھ گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس عمل کو اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھاہے کہ جس طرح سرمہ دانی میں سرمچو داخل ہوتے دیکھاجاتا ہے۔گواہوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہوں ،عادل ہوں اور صریح الفاظ میں گواہی کا بیان دیں،کنایہ کے الفاظ سے شہادت مشکوک ہو جائے گی اور چاروں گواہوں کے بیانات میں زمان و مکان کا تضاد بھی نہیں ہونا چاہیے ،اسلامی شریعت کی تاسیس سے آج تک ان چار گواہوں کی بنیاد پر ایک دفعہ بھی حد جاری نہیں کی گئی۔

زنا کے ثبوت کا تیسرا اور آخری طریقہ ظہور حمل ہے ۔غیرشادی شدہ عورت اگر حمل سے ہو جائے تو یہ زنا کاکافی ثبوت ہے۔اگر عورت جبرکا دعوی کرتی ہے تواس سے ثبوت مانگاجائے گا ،ثبوت پیش کرنے پراسے کچھ نہیں کہاجائے گا۔دورفاروقی میں ایک مہمان نے اپنے میزبان کی لونڈی پر زبردستی کرنا چاہی ،لونڈی نے اسے پتھر دے مارا اور وہ مہمان مر گیا،حضرت عمر ؓکی عدالت میں لونڈی نے جبر ثابت کر دیا تو حضرت عمرؓنے اس مقتول کا قصاص و دیت بھی ساقط کر دیا اور اس لونڈی کو باعزت بری کر دیا۔ اورظہور حمل کے بعد اگر عورت نکاح کا دعوی کرتی ہے تو بھی اس سے نکاح کے گواہ مانگے جائیں گے کیونکہ نکاح صحیح کے لیے گواہ شرط ہیں،تاہم اگر کوئی عورت اپنے وطن سے دور ہے تب اس سے نکاح کا ثبوت نہیں مانگاجائے گا اور اس کے دعوے نکاح کو درست مان لیاجائے گا۔
 
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572222 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.