اسلامی قانون میں بدکاری کی سزا:حدزنا(حصہ دوم)
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(اجرائے حدو کیفیات)
’’احصان ‘‘سے مراد وہ شرائط ہیں جن کے پوراہونے پرزناکی سزادی جائے گی۔اور
جو شخص ان شرائط کوپوراکرے گا اسے ’’محصن‘‘کہیں گے۔’’محصن‘‘ کے لیے سب سے
پہلی شرط اسلام ہے کیونکہ غیرمسلم پر حد جاری نہیں کی جائے گی،دوسری شرط
عقل و بلوغ ہے کیونکہ جملہ احکامات شریعت عاقل اور بالغ شخص پر ہی عائد
ہوتے ہیں،آزادی بھی ایک شرط تھی لیکن اب چونکہ دورغلامی گزرچکااس لیے یہ
شرط اپنی عمر پوری کر چکی۔رجم کی سزا کے لیے شادی شدہ ہونا بھی شرط ہے
اورضروری ہے ’’محصن‘‘اپنے زوج سے بطریق مباح مجامعت کر چکا ہو۔جو زانی شادی
شدہ نہ ہو اسے سو کوڑے لگائے جائیں گے۔’’احصان‘‘ کی پہلی شرط مسلمان ہونے
میں اکثر علماء کا اختلاف واقع ہوا ہے کیونکہ محسن انسانیت ﷺ نے ایک یہودی
جوڑے پر بھی حد زنا جاری فرمائی تھی تاہم یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم
ہوتی ہے کہ غیر مسلم چونکہ اسلامی احکامات کے مکلف نہیں ہیں اس لیے ان پر
حدوداﷲٰ نافذ نہیں ہوں گی،جہاں تک یہودی جوڑے پر حد جاری کرنے کا تعلق ہے
تو وہ آپ ﷺ نے توریت کے حکم کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا تھا۔
سنت رسول اﷲٰ ﷺنے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر فرمائی ہے ۔ایک
حدیث نبویﷺکے مطابق کسی مسلمان کاخون تین صورتوں کے علاوہ جائزنہیں،قتل ،ارتداداور
محصن (شادی شدہ)زانی۔متعددواقعات بھی سنت رسول اﷲ ﷺ سے ثابت ہیں جن میں آپ
ﷺ نے محصن زانی کو رجم کرنے کا حکم دیا اور مسلمانوں نے اسکو رجم
کیا،ماعذ،غامدیہ اور یہودیوں کاجوڑا اسکی بہت مشہور مثالیں ہیں۔دورخلافت
راشدہ میں بھی اسی پر تعامل رہا۔اگرچہ کچھ علماء صرف اتنی سختی کرتے ہیں کہ
وہ محصن جو عادی زانی بن چکاہو اور کسی صورت باز نہ آتا ہو صرف اسی کو ہی
رجم کیاجائے گالیکن یہ موقف جمہورعلماء کی رائے سے متصادم ہے اس لیے کہ تب
تو کوئی ایسا پیمانہ نہیں رہے گا کہ کوئی کتنی دفعہ بدکاری کرے اور تب ہی
اس کو عادی بدکار تصور کیاجائے۔کچھ علماء کرام نے رجم کی سزاکوسورۃ مائدہ
کی آیت حرابہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ محض تکلف بے جا ہے۔جب
شریعت اسلامیہ میں خود کتاب اﷲ اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اﷲ تعا لی کے
رسول ﷺ قانون سازی کر سکتے ہیں تو پھرنبوی فیصلوں کو ماننے میں کیامر مانع
ہے؟؟اور منکرین حدیث کے پیچھے چلنے کی کیاضرورت ہے؟؟ایک حدیث مبارکہ میں
غیرشادی شدہ زانی کے لیے سوکوڑوں کے ساتھ ایک سال کی جلاوطنی کی سزا بھی
مذکور ہے لیکن علماء نے جلاوطنی کی سزاکو تعذیر کے ضمرے میں رکھاہے اس لیے
کہ زانیہ کو جلاوطنی کی سزا دینے میں کئی شرعی امور مانع ہیں۔
حدود کے معاملات کے لیے عدالت کاہونا ضروری ہے۔پنچائت،جرگہ،مسجدیا گلی محلے
میں حدودکے فیصلے نہیں ہوسکتے۔عدالت میں جب بدکاری ثابت ہوجائے گی تو اسکی
سزاکے انتظامات کیے جائیں گے۔سب سے پہلاانتظام جس کاقرآن نے حکم بھی دیا کہ
سزاسرعام دی جائے گی۔چھپ کر کال کوٹھڑی میں سزائیں دینا انگریزکاقانون
ہے۔سزاکاایک مقصد جہاں مجرم کو تکلیف پہچاناہے وہاں اس سے بڑا مقصددوسروں
کو اس فعل بد کے عبرت انگیزانجام سے آگاہ کرنا بھی ہے۔سزادینے کاسب سے
بڑامقصد اس قبیل کے جرائم کی بیخ کنی ہوتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک
زمانہ دیکھے اور اس مجرم کے انجام سے عبرت حاصل کرے اور آئندہ جس کسی کے دل
میں اس جرم کے کرنے کاخیال بھی پیداہو تو اپنے پیش رو مجرم کا آنکھوں
دیکھاحال اسے اس جرم سے بزورروک دے۔حدزنا سمیت شریعت اسلامیہ نے جتنی بھی
سزائیں مقررکی ہیں ان کے لیے مسلمانو کی ایک تعداد کے سامنے اس سزاکادینا
لازم ٹہرایاہے۔کوڑوں کی سزا کی کیفیت اس طرح ہوگی:
1۔ گرمیوں میں ٹھنڈے وقت میں اور سردیوں میں گرم وقت ،سرعام درے لگائے
جائیں گے۔
2۔سر ،منہ۔چہرہ اور نازک اعضا پر درے نہیں لگائے جائیں گے،اسے باندھا نہیں
جا ئے گا۔
3۔درے اس طرح لگائے جائیں گے کہ انکے اثرات صرف جلد تک رہیں گے،گوشت تک
نہیں پہنچ پائیں گے۔
4۔درہ ہلکی ضرب والا ہوگا،قرین قیاس ہے کہ ٹانگے والے جوچھانٹا استعمال
کرتے ہیں وہ کافی ہے۔
5۔اگر جرم کا اثبات گواہوں سے ہوا ہے تو دروں کا آغاز گواہ کریں گے پھر
قاضی یاحاکم اور پھر جلاد سزا کی تکمیل کرے گا۔
6۔اگرجرم کا اثبات اقرارجرم یا ظہور حمل سے ہوا ہے توسزاکاآغازقاضی یاحاکم
کرے گا، پھر جلاد اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
7۔کوڑے لگاتے وقت جلاد کا ہاتھ کندھے سے اوپر نہیں جائے گااور اسکی بغل بھی
نظر نہیں آئے گی۔
8۔مریض کی صورت میں شفاکاانتظارکیاجائے گا۔
9۔حالت حمل میں سزا نہیں دی جائے گی۔
رجم کی سزا کی کیفیات اس طرح ہوں گی:
1۔اقرار کی صورت میں سزاکاآغاز قاضی یاحاکم کرے گااور پھر عوام۔
2۔گواہوں سے جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزاکاآغاز گواہ پھر قاضی یاحاکم اور
پھر عوام بھی شریک سزا ہوجائیں گے۔
3۔اوسط درجے کے پتھروں سے ماراجائے گااورچہرے پر پتھر نہیں مارے جائیں گے۔
4۔حاملہ کے لیے وضع حمل اور مدت رضاعت تک انتظار کیاجائے گا۔
5۔مجرم اگر بھاگنے لگے تو اسے گڑھے میں دبایا جاسکتاہے۔
حد جاری ہوچکنے کے بعد مقتول کوپورے ادب و احترام کے ساتھ غسل اور کفن
دیاجائے گااور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیاجائے گا۔ایک عورت کو رجم
کرنے کے بعدکسی مسلمان نے اس عورت کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے،اس پر آپ ﷺ
ناراض ہوگئے اور ارشاد فرمایا کہ اس عورت کی توبہ اگر اہل مدینہ پرتقسیم کی
جائے تو سب ہی معاف کردیے جائیں۔کیونکہ جسے کسی گناہ کی سزااس دنیامیں مل
جائے تو روز قیامت اس سے بازپرس نہیں ہوگی اور جو گناہ کرنے کے باوجود اس
دنیامیں سزاسے بچ گیااب اﷲ تعالی کی مرضی ہے کہ روزقیامت اسے سزادے یامعاف
کردے۔
حد جاری کرنے کے دوران کسی طرح کاترس کھانادرست نہیں۔ظالم پر ترس کھانا
مظلوم کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے،اور اس جرم کا مظلوم پورامعاشرہ ہے بلکہ
انسانی نسل بھی ہے اس لیے کہ جس کے گھر میں پناہ گاہ موجود ہے اور پھر بھی
وہ لوگوں کی عزتوں سے کھیلتاہے اورنسلوں کے نسب مشکوک کرتا ہے تو وہ صحیح
معنوں میں اسی سزاکاہی مستحق ہے کہ اسکے ناپاک وجود سے اس دھرتی کو پاک
کردیاجائے۔یہ بھی درست کہ زنا کی یہ سزا بہت شدید ہے اس لیے کہ یہ جرم بھی
اتنا ہی یا شاید اس سے بھی زیادہ شدیدہے۔صرف زنا کی تہمت لگا دینے سے ہی حد
قذف کے اسی کوڑے انسان کی کمر پر لگنا ضروری ہو جاتے ہیں تو عملاََ یہ جرم
کتناقبیح اور کتنا غلیظ ہوگا؟؟۔حضرت مریم علیہ السلام کو جب جبریل بیٹے کی
خوشخبری دی اور انہوں نے پاکدامنی سے محض حکم ربی کی بناپر بچہ جناتو صرف
بدکاری کی تہمت کے خوف سے انہوں نے فرمایا جس کو قرآن نے سورہ مریم
آیت23میں نقل کیاہے کہ کاش میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرانام و نشان تک
نہ رہتا،حالانکہ وہ خود اپنی پاکدامنی سے آگاہ تھیں اورجبریل انہیں تسلی دے
رہاتھااور اﷲ تعالی ان کی معصومیت پر گواہ تھا۔
زنا کی سزا سے پہلے دوائی زنا کو روکنا ضروری ہے،دوائی زنا سے مراد وہ
راستے ہیں جہاں سے زناکے دروازے کھلتے ہیں۔ معاشرے میں زناکارانہ ماحول ختم
ہو اور آزادانہ آشنائیاں بندکردی جائیں،مخلوط تعلیم اور مخلوط محفلوں سے
احتراز کیاجائے ،معاشرے میں حجاب اور نقاب کارواج عام کیاجائے،نوجوانوں کو
سخت کوشی کاعادی بنایاجائے اور انہیں فوجی اور نیم فوجی زندگی کاعادی بناکر
عورتوں سے دوررکھنے کاانتظام کیاجائے اور سب سے زیادہ یہ کہ تقوی اور
دینداری کو لوگوں کی عادات میں شامل کیاجائے تب ہی اس قباحت اور حرام کاری
سے معاشرے کا بچناممکن ہے۔حکومت وقت اورمعاشرہ پہلے ایسے انتظامات کرے کہ
زنا کے دروازے بند ہوتے چلے جائیں،لوگوں کی عزت و ناموس محفوظ ہوتی چلی
جائے اور خواتین اپنے فطری امورجن میں امور خانہ داری اور بچوں کی پیدائش و
نگہداشت ہے اس میں مصروف رہیں ۔ جیسے جانوروں اور پرندوں کے بالغ ہوتے ہی
فطرت انہیں جوڑاجوڑاکر دیتی ہے اسی طرح نوجوانوں کی بروقت شادیاں کردی
جائیں تو اس جرم سے بہت کچھ بچت ہو سکتی ہے۔اسلامی شریعت قطعاََنہیں چاہتی
کہ معاشرے سے بدکاری کے دروازے بند کیے بغیرلوگوں پر کوڑے اور پتھر برسانے
شروع کر دیے جائیں لیکن جب دوائی زنامسدود ہ ہوجائیں تو پھر کسی زانی کو
معاف نہ کیاجائے کہ یہی منشائے خدا ہے اور اسی میں انسانیت کا بھلاہے۔
|
|