پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی چھبیس جون کو منشیات کا
عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا بڑا مقصد لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہے کہ اس
کا استعمال کتنا نقصان دہ اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اس دن کی مناسبت سے
اینٹی نارکوٹیکس فورس سال بھر میں پکڑی جانے والی منشیات کو جلا کر یہ
پیغام بھی دیتی ہیں کہ نشے سے :انکار اور زندگی سے پیار کرنا سیکھو:
پاکستان میں منشیات کا استعمال افغانستان میں روس کی مداخلت سے شروع ہوتا
ہے اوراسی کی دھائی کے بعد پاکستان میں افغانستان کے توسط سے سب سے بڑی
برائی جو بہت تیزی سے پھیلی وہ منشیات تھی یہ ایک ایسا ناسور تھا جس نے
دیکھتے ہی دیکھتے اتنی تیزی سے ہماری نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لیا کہ
ہم چاہتے ہوئے بھی اس کو ختم نہ کر سکے منشیات کا نوجوان نسل میں استعمال
بہت خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے کچھ لوگ تو اسے بطور فیشن اپناتے ہیں اور بعد
ازاں اس کے عادی ہو کر ہمیشہ کے لئے اس لعنتی طوق کو گلے میں ڈال لیتے ہیں
اپر کلاس ،مڈل کلاس ،لوئراپر کلاس کے لوگ بھی اس کو بکثرت استعمال کرتے ہیں
شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں منشیات کا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے۔اس میں
زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو اپنی ڈیپریشن کو ختم یا کم کرنے کے لئے جبکہ
نوجوانوں میں اسے بطور فیشن اور بطور ایڈوانچر بھی اپنایا جاتا ہے جو بعد
ازاں ان کے لئے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ آتا کہاں
سے ہے؟ اور کس طرح اس کو مقررہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے؟ کیا اس کی خبر
انسداد منشیات کے اداروں کو نہیں ہوتی ؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات
برحال ڈھونڈنے ہیں۔ اس کے بیوپاری مختلف طریقوں سے اپنے گاہکوں کو تیار
کرتے ہیں مثال کے طور پر سکول ،کالجز اور اب تو اعلیٰ تعلیمی اداروں مثلا
یونیورسٹیز میں ان لوگوں کے خاص کارندے ہوتے ہیں جو پہلے پہل تو یہ نشہ ان
لوگوں کو فری میں مہیا کرتے ہیں اور جب یہ نوجوان پوری طرح اس کی لپیٹ میں
آ جاتے ہیں تو ان سے منہ مانگے دام لیے جاتے ہیں اوربعض اوقات ان سے ایسے
ایسے کام لئے جاتے ہیں جو ملک دشمن عناصر کی فہرست میں آتے ہیں ایسے ہی کئی
مثالیں ہماری سامنے میڈیا میں آئے دن رپورٹ ہوتی رہتی ہیں نوجوانوں کو نشہ
کا عادی بنانے کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں اس ضمن میں ڈانس
پارٹیوں کو ایک اہم ذریعہ بنایا جاتا ہے ملک کے پوش علاقوں میں نہایت عمدہ
رہائشی عمارتوں کے اندر ان کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں صرف جوڑے شرکت کر
تے ہیں ان ڈانس پارٹیوں میں مہنگی ماڈلز اور رقاصاؤں کو بھی مدعو کیا جاتا
ہے شرکاء کو ساری رات ڈانس کرنے کے لیے ایک گولی کھلائی جاتی ہے جس کی قیمت
ہزاروں روپوں ہوتی ہے جس کا مقصد ان نوجوانوں کو پوری رات تروتازہ اور چاق
و چوبند رکھنا ہوتا ہے تاہم یہ گولی دوران خون تیز کر دیتی ہے جس سے بلڈ
پریشر بڑھ جاتا ہے اور دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے ا س کے علاوہ اور کئی قسم
کی خطرناک بیماریاں جو عمو مااس وقت ظاہر نہیں ہوتی لیکن بعد میں وہ انسانی
جان کے لئے خطرناک ثابت ہوتی ہیں ان پارٹیوں میں ڈانس کرنے والی اداکارائیں
اور ماڈلز کوکین کا نشہ بھی کرتی ہیں جو کہ پوش علاقوں میں بطور فیشن
استعمال کی جاتی ہیں اور ان استعمال کرنے والوں میں اپر کلاس کے وہ نوجوان
شامل ہوتے ہیں جو نشے کو بطور ایڈ وانچر استعمال کرتے ہیں اس خطرناک قسم کے
نشے کی وجہ سے بہت سی ماڈلز اور اداکارائیں موت کا شکار بھی ہوتی رہی ہیں
جو کہ ریکارڈ پر ہیں اس کے علاوہ بڑے گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں کوکین اور
دیگر نشہ بھی کرتے ہیں جو انتہائی مہنگے اور نقصان دہ ہیں ان لڑکے لڑکیوں
کے لیے ان کی قیمت ادا کرنا مشکل نہیں ہوتا لیکن ان کے برے اثرات ان کی صحت
کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں نشہ کی لت پوری کرنے کے لیے بعض لڑکیاں اس کی
قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں تو وہ نشہ خریدنے کے لیے جسم فروشی پر
مجبور ہو جاتی اداکاری کرنے والی بہت سی فنکارائیں ڈانس پارٹیوں میں جا ،جا
کر کوکین کی عادی ہو جاتی ہیں اور اپنی بعد کی تمام زندگی اسی نشے کے نام
کر جاتی ہیں منشیات کی روک تھام کے لیے انتظامیہ اور انسداد منشیات کے
اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے جو کہ اس سلسلے میں کوئی خاص
کردار ادا نہیں کر رہے نشہ کرنے والے بعض ادویات کو بھی بطور نشہ استعمال
کرتے ہیں نشے کے عادی افراد کی اکثریت ان نوجوانوں میں سے ہوتی ہے جو
انتہائی حساس یا ذہین ہوتے ہیں یہ نوجوان زمینی حقائق سے فرار کی راہ تلاش
کرنے کے لیے نشہ کے غار میں پناہ لیتے ہیں اس کے علاوہ معاشرے کے آسودہ حال
طبقات اور خاندانوں کے چشم و چراغ اس لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ
کوکین، ہیروئن ، شراب، چرس اور مہنگی نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں
نشہ کا عادی اعصابی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے بڑے شہروں، دور افتادہ دیہات تک نشہ ایک وبا کی طرح پھیل چکا ہے
نشے کا عادی ہر فرد بنیادی طور پر مریض ہوتا ہے جو ہمیشہ ہمدردی اور توجہ
کا مستحق ہوتا ہے توجہ اور ہمدردی سے ہی انہیں اس دلدل سے نکالا جا سکتا ہے
خاندان، معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نشہ کے عادی افراد کی بحالی
کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوششیں کریں اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ
منشیات فروشی کے تمام اڈوں اور ٹھکانوں کے خلاف مؤثر کریک ڈاؤن کیا جائے
اور ہمسایہ ملک چین اور برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے تعریزی قوانین کی
طرح منشیات فروشوں کو کڑی سزائیں دی جائیں۔ منشیات جب آسانی سے دستیاب ہوں
گی تو نشہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو گا۔ اسی طرح تمام میڈیکل
سٹور مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ مستند ڈاکٹری نسخہ کے بغیر نشہ آور
ادویات فروخت نہ کریں اور اگر کوئی ایسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو تو
اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے اس حوالے سے کسی بھی سیاسی دباؤ کو خاطر میں
نہ لایا جائے اور ایسا میکنزم تیار کیا جائے جس سے اس لعنت پر قابو پانے
میں مدد مل سکے ۔
|