عہدے حاضر میں نئی نسل کو درپیش معرکے، خدشات اور اس کا سد باب

آج کے مواصلاتی دور میں دنیا تیزی سے فاصلہ طے کر رہی ہے۔کسی کے پاس دوسرے کی بات سننے کے لیئے وقت نہیں ہے۔ لوگ سائنس کی جدید ترقی یافتہ چیزوں کے ساتھ خود بھی بھاگ رہے ہیں۔ تیزی سے نئے رجحانات اور نئی جدت فروغ پا رہی ہے جس نے دنیا میں طبقاتی نظام برپا کر دیا ہے۔عہدے حاضر میں نئی نسل کو درپیش سب سے اہم معرکہ تعلیم مکمل کرنا ہے۔ تعلیم انسان کو باشعور بنانے میں کلیدی کردار اداکرتی ہے۔ موجود ہ مشینی دور میں ٹیکنیکل تعلیم کی ضرورت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا اور اسے حاصل کرنے کے بعد انسان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔
علم شمع زندگی ہے، علم تنویر حیات
علم سے تسخیر ہوتی ہے ساری کائنات

تعلیم مکمل کرنے کے بعد نئی نسل کو درپیش اگلامعرکہ مناسب روزگار کی تلاش ہوتی ہے۔ آج کی دنیا میں ہماری نئی نسل اپنے آپ کو صحیح خانے میں فٹ کرنے کے لیئے ادھر ادھر دوسروں کی تقلید میں آگے نکلنے کی جستجو میں مصروف ہیں۔ عموما ً ہمارے نوجوان گریجویشن کرنے میں دو سال کے بجائے کئی سال صرف کر دیتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کو علم حاصل کرنے کے بجائے ڈگری کے حصول کے لیئے حاصل کیا جارہا ہے۔جبکہ نقل کلچر کا بڑھتا ہو ا رجحان بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ایسے طالب علم جب فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو ان کو روزگار کے حصول کے لیئے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ انکے پاس ڈگر ی ْتو ہوتی ہے مگر ٹیلنٹ نہیں ہوتا۔ ہماری نئی نسل کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ گریجویشن تو کرلیتی ہے مگر اعلیٰ تعلیم کے لیئے بہت کم نوجوانوں کا ذہن بنا ہوتا ہے۔لہذا ایسے نوجوانوں کا اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا کسوٹی بن جاتاہے۔علاوہ ازیں ہماری نئی نسل کا ٹیکنیکل تعلیم کی طرف رجحان بھی بہت کم ہے جس کی وجہ سے انہیں اکثر حصول روزگار کے سلسلے میں دشواریاں لاحق رہتی ہیں۔
اٹھو کہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

نئی نسل کو عملی زندگی میں ترقی کرنے کے لیئے تعلیم کی اہمیت پر زور دینا پڑے گا۔کیونکہ تعلیم کے ذریعے کوئی بھی انسان ترقی کی منازل با آسانی طے کر سکتا ہے۔ تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان جتنا زیادہ پڑھا لکھا ہوگا وہ اتنی ہی جلدی بلندمقام حاصل کر ے گا۔جبکہ ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ جس کے پاس ہنر ہو وہ بھوکا نہیں مر سکتا۔نئی نسل کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ مغربی ممالک کی نقل تو خوب کرتے ہیں۔ اگر وہ بڑے کالر کر لیتے ہیں تو ہمارے یہاں بڑے کالروں کا فیشن آجاتا ہے اور اگر ان کے یہاں پتلون کے پائنچے بڑے ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی اس کی نقل شروع ہوجاتی ہے۔ ہماری نئی نسل ان لوگوں کی صرف ان باتوں کی نقل تو کر لیتے ہیں جس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا، لیکن وہ ان کی خوبیوں کی نقل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ لہذا نئی نسل کی ترقی و ترویج کے لیئے ضروری ہے کہ سادگی اپنائی جائے اور فضول رسم ورواج سے گریز کیا جائے۔ نیز ذرائع ابلاغ کو اگر مثبت طور پر استعمال کیا جائے تو نوجوان نسل میں ترقی کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔
خواہشوں سے نہیں گرتے پھل جولی میں
وقت کی شاخ کو تادیر ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا

Nasir Memon
About the Author: Nasir Memon Read More Articles by Nasir Memon: 103 Articles with 193476 views I am working in IT Department of DawateIslami, Faizan-e-Madina, Babul Madinah, Karachi in the capacity of Project Lead... View More