اتحاد المسلمین اور علم طب اسلام کی روشنی میں

فروری2014 کے اواخر میں پڑوسی ملک ہندوستان میں ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کا اتفاق ہوا جس کا موضوع ’’معاصر افکار اور مولنا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اﷲ کا مؤقف‘‘ (تقابلی مطالعہ) تھا۔یہ کانفرنس علی گڑھ کے مدرسۃ العلوم الاسلامیہ ملحق ندوۃ العلماء لکھنو کے زیر انتظام منعقد ہوئی اس کانفرنس میں دنیابھر سے متعدد ممالک کے سکالرز نے عربی ،انگریزی اور اردو میں تحقیقی مقلات پیش کیے۔سفر ہندوستان کے بارے میں مکمل رپورٹ بہت جلد ان شااﷲ نظر قارئین کروں گا۔آج کی نشست میں علی گڑھ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں انہی ایام میں مفکر اسلام حضرت سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم کا کیا گیا بیان کا خلاصہ پیش کررہاہوں ،امید کرتاہوں کہ اس بیان سے قارئین علمی و عملی طور پر فائدہ حاصل کرسکیں گے۔

علی گڑھ میڈیکل کالج کے مہدی حسن ھال میں حضرت سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم نے ’’اتحاد المسلمین اور علم طب اسلام کی روشنی میں‘‘کے عنوان پر گفتگو کی۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ علم کو حاصل کرنے کے بارے میں دو حکم ہیں فرض عین و فرض کفایہ ۔فرض عین وہ چیز ہے کہ جو ہر شخص پر اس کا حصول لازم ہے اور فرض کفایہ وہ چیز ہے کہ معاشرے کے چند افراد اس کو حاصل کر لیں۔امام غزالی نے احیا العلوم میں فرض عین اور فرض کفایہ پر تفصیلی بحث کی ہے یہاں تک فرمایاہے کہ اگر سماج میں ایک چیز کی ضرورت ہے اور معاشرے کے بعض افراد اس کو پورا نہیں کررہے یا اس کی معرفت حاصل نہیں کر رہے تو ایسے میں سارامعاشرہ گناہ گار ہوگا، کم سے کم تر چیز کی حاجت بھی پیش آجائے تو اس میں بھی مسلمانوں کو خود کفیل ہونے چاہیے۔اس لیے لازم ہے کہ مسلم سماج میں مسلم طبیب کا موجود ہونا ازحد ضروری ہے۔

اتحاد امت اور ملت کی اجتماعیت کی ہروقت ضرورت ہے ۔علم میں دینی ودنیاوی تفریق انگریزوں کے زمانے سے آئی ہے ورنہ مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ اس میں علم میں ثنویت کہیں بھی نہیں ہے ۔انگریزوں کے اس دباؤ کے نتیجہ میں مسلم علما نے اپنے تئیں کوششیں کی ہیں علم کو محفوظ کرنے کی۔انگریز نے صرف اسلحہ کی لڑائی نہیں لڑی مسلمانوں سے بلکہ انہوں نے مسلمانوں پر علمی وفکری اور نظریاتی حملہ بھی کیا اسی لیے مولناقاسم نانوتویؒ نے اس اضطراری کیفیت میں علم شرعی کو محفوظ کرنے کی کوشش کی تھی ۔اس اضطراری کیفیت میں علم میں تفریق و ثنویت بھی پیدا ہوگئی ورنہ ماضی میں تمام علوم وفنون ایک ساتھ پڑھائے جاتے تھے۔اسلامی تاریخ میں وحدانی نظام تعلیم کا دور دورہ رہا۔یہاں تک کہ خود درس نظامی میں تقریبا تیس کے قریب عصری علوم شامل تھے۔دین نام ہی نظام زندگی کا ہے۔اس لیے اسلام میں علمی تفریق کا تصوریکسربے بنیاد ہے۔ مولنا مناظر احسن گیلانی ؒ کی دوجلدوں پرمشتمل کتاب میں مسلمانوں کے نظام تعلیم پر تفصیلی بحث کی ہے ،انہوں نے اس میں لکھا ہے کہ عہد نبوی کا نظام تعلیم اور اس کے بعد کے ادور میں مسلمانوں کے ہاں جو نظام تعلیم رائج رہاہے وہ وحدانی تھا اس میں کوئی ثنویت نہیں تھی یہاں تک کہ درس نظامی میں تیس سے زائد عصری علوم شامل تھے جبکہ شرعی علوم صرف تین تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی عصری علم شرعی علم سے دراصل جدا ہوہی نہیں سکتا۔اسی بناپر سرسید نے بھی کہاتھا کہ ہمارے کالج کے طالب علم کے ایک ہاتھ میں فلسفہ اور دوسرے ہاتھ میں قرآن اور سر پر اس کے کلمہ کا سایہ ہو۔علم دو قسم کا ہے علم نورانی اور علم ظلمانی ،علم میں نورانی یہ ہے کہ انسان اس کی تعلیم حاصل کرکے ہرلمحہ و پل میں اﷲ کی موجودگی کا احساس رکھتاہو۔اورذکر الٰھی کائینات کی فکر کی جانب متوجہ کرتاہے۔علم کا تعلق اﷲ کی ذات و صفات کے ساتھ ہونا چاہیے اگر کسی علم کے حصول سے ایسا نہیں ہورہاتو وہ علم ابلیسی و ظلمانی ہے۔ قرآن مجید میں عصری علوم کا اس قدر مفصل تذکرہ موجود ہے کہ اتنی تفصیلی بات شرعی علوم پر بات بھی نہیں کی گئی۔قرآن مجید میں بتایاگیا ہے کہ دانشور ہی اﷲ کو ہرلمحہ یاد کرتاہے اور اس کی حقیقی معرفت رکھتاہے اور اس سے خبردار رہتاہے۔اسلام نے ان علوم کے حصول کا بھی اہتمام کیا ہے جو علم نافع نہیں ہیں مثلاًجادو،ٹونہ،سفلی،عملیات کا علم بھی ضروری ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ علم کس قدر نقصان دہ ہیں ۔حضرت عمرؓ نے کا قول ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ جس نے اسلام میں پرورش پائی ہے اور وہ دشمن کی سازشوں سے جاہل ہے وہ کہیں اسلام کی زنجیر نہ توڑ دے۔چونکہ مقولہ ہے کہ کسی چیز کی محقیقی معرفت تبھی ہوتی ہے جب اس کے مدمقابل کا علم بھی ہو۔قرآن پاک نے بھی اس تقابلی اسلوب کو اختیار کیاہے۔علم کی بنیاد پر جو دیواریں انگریزوں کے دباؤکے باعث قائم ہوئی تھیں ان کو اب ختم کردینا لازم ہے یہ دیواریں کسی طور پردرست نہیں ہیں ان کو جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔ندوۃ العلما، دیوبند، علی گڑھ کے مابین جو دیواریں ہیں ان کو مٹانا از حد لازم ہے ۔کیوں کہ اس عمل سے اسلام کو بے حد نقصان پہنچا ہے ،کہ ایک گھر کے دو بھائی اگر الگ الگ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں تو ان کے درمیان واضح فرق دیکھنے کو ملتاہے کہ دونوں کی معلومات جدا ہیں ،دونوں کی وضع قطع مختلف ہے ،ایسا لگتا ہے کہ دونوں مختلف سماج کے فرد ہیں۔وحدانی نظام تعلیم کی آخری بنیادہمارے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں ،اول حضرت آدم علیہ السلام ہیں اﷲ نے ان کو کائینات کے تمام علوم کا علم عطافرمایاتھا۔اﷲ کا شکر ہے کہ اب کام شروع ہوچکاہے کہ اسلام کی چھتری کے نیچے دینی ودنیاوی علوم کی تعلیم کا انتظام کیا جارہاہے ،اس سلسلہ میں مختلف جامعات کا قیام عمل میں ٓچکا ہے جن میں اسلامی یونیورسٹی پاکستان،اسلامی یونیورسٹی ملیشیا وغیرہ جیسے ادارے قائم ہوچکے ہیں ۔امید ہے اس نئی پیش قدمی کا فائدہ جلد سامنے آجائے گا۔

انہوں نے فرمایاجہاں تک علم طب میں مسلمانوں کی خدمات کی بات ہے تو یہ امر واضح ہے کہ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓکو علم طب کی تعلیم دی۔احادیث کی کتابوں میں جابجا علم طب کے متعدد اشارات ملتے ہیں ،المیہ یہ ہے کہ آج احادیث پڑھانے والے علما ء ضعف کا شکار ہوچکے ہیں وہ صحیح تعلیم نہیں دے رہے علم حدیث کی۔اسلام کا نکتہ نگاہ یہ ہے کہ کائنات میں کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جس کے لیے دوا موجود نہ ہو۔اسلام نے علم طب کو کاروبار یا ذریعہ آمدن نہیں بنایا بلکہ طب کو خدمت خلق اور اس کو عبادت کا مقام عطاکیا ہے۔حضورصلی اﷲ عیہ وسلم کا فرمان ہے کہ کلونجی سوائے موت کے تمام امراض کے لیے مفید ہے ،اس کا اظہار آج کے ایک مصری ڈاکٹر نے اس طرح کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کلونجی ایڈز کے مریضوں کے لیے بے حد مفید ہے کیوں کہ ایڈز کے سبب قوت مدافعت کم پڑ جاتی ہے جس کو کلونجی سے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ میں نوجوانوں نے سے اپیل کرتاہوں کہ احادیث کی کتب کا مطالعہ کریں اور ان میں موجود طبی نسخوں کو خوبصورت لکھ کر اپنے ادارے میں آویزاں کریں تاکہ اسلام کی امتیازیت کا ادراک ہوسکے۔مسلم علما ء نے اپنا علم طب کے شعبہ میں خاص مقام و امتیاز حاصل کیا تھا۔جس کی بدولت آج بھی مغرب کی جامعات میں ابن سینا،زہراوی ،ابن الھیثم کوپڑھایاجاتاہے۔بس فرق اتنا  ہے کہ مغرب نے عیاری کے ساتھ مسلم اطباء کے ناموں کے لہجات کو بدل دیاہے جس کے باعث مسلم نوجوان بھی نہیں سمجھ پاتاکہ یہ مغربی طبیب ہیں یا کوئی اور جب کہ حقیقت میں وہ مسلم اطباء کی تعلیمات کو اپنی جامعات میں پڑھاتے ہیں۔مسلم نوجوان ڈاکٹرپر لازم ہے کہ وہ مغرب کے سامنے دریوزہ گری اور کاسہ گدائی پھیلانے کی بجائے بذات خود علم طب میں موجد بنیں،اور نئی تحقیقات کا دروازہ کھولیں ۔

آخر میں انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یاد رکھیں کہ مسلک دین نہیں ہے بلکہ دین کی تفہیم کا ایک ذریعہ ہے ،اسی لئے مسلک ،تنظیم،پارٹی ،اور ہر طرح کی تقسیمیں اتحاد کی راہ میں روکاوٹ نہ بننے پائیں۔آپ پر لازم ہے کے مسلمانوں میں اتحاد ویگانگت کے قیام کے لئے اپنی ہر ممکن صلاحیتیں صرف کرکے ہر حال میں اتحاد کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔

Attiq Ur Rehman
About the Author: Attiq Ur Rehman Read More Articles by Attiq Ur Rehman: 2 Articles with 1700 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.