بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق اس دنیا میں اﷲ تعالی نے کم و بیش تین سو تیرہ
آسمانی کتب نازل کی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ آسمانی کتب وقت کے ساتھ
ساتھ اپنی اصلیت کھوبیٹھیں اور ناقابل اعتبار ہوگئیں۔کچھ کتب ویسے ہی زمانے
کی دست برد کا شکار ہوکرقصہ پارینہ بن گئیں،آج گزشتہ کتب میں کہیں کہیں
انکے صرف نام ہی ملتے ہیں عملاَ ان کا وجود اس دنیا سے عنقا ہے جیسے حضرت
نوح علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر کوئی کتاب نازل ہوئی تھی
یا صحف ابراہیم علیہ السلام وغیرہ۔کچھ کتب کی زبان اس دنیا سے نابود ہو گئی
آج کوئی اس زبان کا بولنے والا اور سمجھنے والا نہیں ہے،وہ کتب یا انکے
متون کہیں کہیں ملتے توضرورہیں لیکن بہت تحقیق اور جستجو کے بعد بھی سمجھ
میں آنے والی بات کی حیثیت ظن و تخمین اور قیاس و گمان واندزاوں کے سوا کچھ
نہیں ہوتی۔انکی مثال ہندؤں ،بدھوؤں اور چین و جاپان کے قدیم مذاہب کی مقدس
کتب ہیں ۔جوآسمانی کتب آج کچھ اہل مذاہب کے ہاں موجود بھی ہیں تووہ اپنے
آغاز سے آج تک تاریخی تواتر سے محروم ہیں۔قدیم انسانی ادوار میں جب
کاغذایجااد نہیں ہوا تھا یہ کتب پتھروں پر کندہ کی جاتیں تھیں اور ایک دو
سے زائد نسخے کبھی نہیں ہوتے تھے۔اس زمانے میں چونکہ جنگ و جدال کا میدان
اکثر گرم رہتا تھاچنانچہ جب کبھی کوئی طالع آزماشہر پر حملہ آور ہوتا تو
دیگر تباہیوں اور قتل و غارت گری کے ساتھ ساتھ ان مقدس کتب کو بھی نذرآتش
کر دیتا تھا،پھر ایک طویل عرصے کے بعد اگلی نسلوں کے لوگ حافظے کی بنیاد پر
ان کتب کو دوبارہ تحریر کرتے تھے۔دوبارہ کس نے یا کس کس نے تحریر کیا،روایت
و درایت کے کن کن معیارات کو سامنے رکھا گیااورحفاظت احکامات و قصص کے وہ
کیا اصول و ضوابط تھے جنہیں پیش نظر رکھ کر ان کتب کی ترتیب و تدوین نو کی
گئی؟یہ سوالات صدیوں اور قرنوں سے تشنہ تکمیل ہیں۔
کچھ آسمانی کتب کو انکے ماننے والوں نے اگرچہ سنبھال کر احتیاط سے رکھالیکن
ان کی اصلیت بھی اس لیے مشکوک ہے کہ آج سینکڑوں سال گزرنے کے بعد وہ ترجمہ
در ترجمہ اور پھر ترجمہ دو ترجمہ ہو کر اگلی سے اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی
رہیں اور آج انکا ماسٹر ٹیکسٹ (شاہ متن)جس زبان میں موجود ہے یہ قطعاََ بھی
وہ زبان نہیں جس میں مذکورہ کتب کا نزول مکمل ہوا تھا۔ترجمہ کتنی ہی احتیاط
سے کیا جائے اور کتنے ہی ماہر مترجم اسکو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل
کریں تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اصلیت بہرحال باقی نہیں رہتی اور متن
کا مافی الضمیر شایدمنتقل ہو جائے لیکن اسکی روح بالکل بھی ماری جاتی
ہے،اور پھرزبان دانی،فصاحت و بلاغت،شیرینی بیان اور زور خطابت تو ایک فیصد
بھی منتقل نہیں ہو پاتا۔ان سب کے بعد بھی ممکن تھایہ کتب قابل اعتماد ہوتیں
اگر انسانی عنصر ان میں داخل نہ ہوتا۔ مذہبی جاگیرداروں نے کتب سماوی کو
اپنی خواہشات کی تکمیل کا آلہ بنا لیا،حلال و حرام اور جائزوناجائزکا
اختیار خداوندی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اﷲ تعالی کے حلال کردہ کو حرام قرار
دے دیااور اﷲ تعالی کے حرام کردہ کو حلال قرار دے دیا،اپنے لیے اپنے طبقے
کے لیے اور اپنی نسلوں کے لیے مراعاتی قوانین بنا لیے اور عوام الناس کو
بھیڑ بکریاں سمجھ کرکہیں تو مذہب کی ساری پابندیاں انکے گلے میں طوق بنا کر
ڈال دیں تو کہیں مذہب کے نام پرجنگ و جدال ان پر مسلط کر دی اور کہیں حرص و
ہوس کی تکمیل کے لیے گناہوں کی معافی کے پروانے اورجنت کی ٹکٹیں فروخت کیں
اوراپنی ان سب مکروہات کو کتاب اﷲ کا حصہ بنا کر لوگوں کو دھوکا دیا کہ یہ
وحی الہی ہے۔ان سب پر مستزاد یہ کہ آج بھی ان مقدس کتب کے متون گواہ ہیں
انبیاء علیھم السلام کی کردار کشی کی گئی،ان پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے
گئے اور انکے اہل خانہ پر شرمناک تحریریں ثبت کی گئیں۔
ہمارا ایمان ہے کہ گزشتہ آسمانی کتب سچی تھیں اور سچے نبیوں پر نازل ہوئی
تھیں۔اﷲ تعالی نے ہمیں پابند کیا ہے ہم انکی حقانیت کو اپنے ایمان کا حصہ
بنائیں کہ جس کے اقرار کے بغیر دائرہ اسلام میں داخلہ ممکن نہیں لیکن ان
کتب کی موجودہ اصلیت کے پیش نظر ان پر عمل کرنا منسوخ کر دیا گیا ہے۔اور
ماضی میں بھی یہ اﷲ تعالی کی سنت رہی ہے کہ نئی کتاب اور نئی شریعت نازل
ہونے کے بعدگزشتہ شرائع اور گزشتہ کتب منسوخ کر دی جاتی تھیں تاہم یہ
مثالیں ضرور میسر ہیں کہ گزشتہ تعلیمات و احکامات کا جو حصہ بار الہ نے
چاہا اگلی شریعت میں باقی رکھااور اسکے کئی شواہد و نظائر آخری شریعت میں
بھی موجود ہیں جس کی کہ واضع مثال قانون رجم ہے جو دراصل توریت میں نازل
ہوا تھا اور آخری نبی علیہ السلام نے اسے باقی رکھا۔قبیلہ بنی آدم سے جب
آسمانی کتب کی اصلیت جاتی رہی اور صدیاں بیت چکنے کے بعد روشنی و راہنمائی
اور رشدوہدایت کاکوئی نسخہ قابل اعتماد نہ رہا تو آخر میں اﷲ تعالی نے اپنے
آخری نبی ﷺ پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید فرقان حمیدنازل فرمائی اور انسانوں
کے گزشتہ رویے کے پیش نظر اس بار اپنی کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود لیااور وقت
نزول قرآن سے آج دن تک حفاظت کتاب اﷲ کے جو انتظامات نظر آتے ہیں انہیں
دیکھ کر واضع یقین ہوتا ہے کہ یہ خدائی انتظامات ہی ہیں،کوئی
انسان،ادارہ،گروہ یا بہت بڑی حکومت بھی صدیوں کے تسلسل اور تواترکے ساتھ
کیے گئے ان انتظامات سے مکمل طور پر عاری اور بے بس ہے اور انکی متروج نہیں
ہو سکتی۔
نزول قرآن مجید کے وقت لکھنے پڑھنے کا رواج ہی نہیں تھا۔مکہ جیسے قلب عرب
میں کل سترہ افراد پڑھے لکھے تھے،تحریر کا فن اتنا ناقص تھا کہ غیر عرب کے
لیے عربی تحریر کا پڑھنا تقریباََ ناممکن تھا۔اعراب،ڈانڈے،حروف کی گولائیاں
اور نقطے بہت بعد کی اختراع ہیں۔جہاں فن تحریر کی یہ صورتحال ہووہاں تحریر
کے سامان کی فراہمی کتنی مشکل ہو گی ؟اس کااندازہ آسانی سے کیا جا سکتا
ہے،اس سے بڑی اور کیا بات ہو گی کہ خود صاحب قرآن ﷺتحریرسے نابلد تھے۔لیکن
اس سب کے باوجود قرآن کی ایک ایک آیت کی املا دینا ،اسے ضبط تحریر میں
لانا،پرانے کپڑوں،کھجورکی چھال،جانورکاچمڑا،لکڑی ،پتھراوراونٹ کی شانے کی
ہڈی جیسی بکھری ہوئی چیزوں پر قرآن مجید کو پوری آفاقی ترتیب کے ساتھ ایک
ایک سورۃ اور ایک ایک آیت کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک نظم کے ساتھ پرو
دینا ایسا خدائی انتظام ہے کہ جس کی مثال اس زمین کے سینے پر اس نیلی چھت
کے نیچے میسر ہی نہیں۔حفظ قرآن مجیدوہ اعزاز ہے جو صرف اسی کتاب کے ساتھ
مخصوص ہے۔آٹھ،نویادس سال کا بچہ یا بچی مدرسہ میں جاتے ہیں اور دو تین سال
میں من و عن ساری کتاب سینے میں اتار آتے ہیں ۔یہ حفظ اس شان کے ساتھ کرایا
جاتا ہے کہ ایک ایک حرف،ایک ایک اعراب اور تلفظ کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی کا
بھی امکان نہ رہے۔نزول قرآن سے آج تک امت پردورزوال ہو یا دور عروج،شاہی ہو
یا جمہوریت،تاریخ کاکوئی دور ہو یا جغرافیہ کا کوئی خطہ ہواور کوئی مسلک و
مکتب فکر ہو،حفظ قرآن کو کبھی زوال نہیں آیا۔صدیوں سے ایک تسلسل ہے کہ ایک
حافظ کے سامنے سینکڑوں طالب علم بیٹھ کر حافظ بنتے ہیں اور یہ سلسلہ پھر
آگے چل نکلتا ہے۔ہمارے ہاں میٹرک کے بعد کوئی طالب علم میٹرک کی کتب کو
ہاتھ تک نہیں لگاتا،ایف اے یا بی اے کر لینے کے بعد ایک عرصہ تک وہ کتب گھر
میں بکھری رہتی ہیں پھر انہیں ردی میں فروخت کر دیا جاتاہے لیکن حافظ قرآن
اگر چہ بہت سی جسمانی سزاؤں کے بعد حافظ بنتا ہے لیکن ساری عمر اس کتاب کو
سینے سے لگائے رکھتا ہے اور ہر رمضان میں بھرپور کوشش کرتاہے کہ تراویحوں
میں قرآن سنائے اوراگر سنا نہیں سکتا تو کسی کے پیچھے کھڑے ہو سن ہی
لے،اگرچہ اس دوران اسکی تعلیم کا نقصان ہو،اسکے کاروبار کا منداہو یا اسے
دفتر سے چھٹی ہی لینی پڑے۔
اﷲ تعالی نے اس کتاب کی حفاظت کے لیے اسے ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو
قیامت تک زندہ رہے گی۔اس دنیا میں کسی زبان کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ نہیں
ہوتی،پھر اسکے قوائد،اسکا تلفظ اوراسکے شعائر بدل جاتے ہیں۔بعض اوقات ایک
ہی وقت میں شہر میں بولی جانے والی زبان اور دیہات میں بولی جانے والی زبان
میں بہت تفاوت ہوتا ہے۔آج سے فقط دو تین سوسال قدیم اردو آج کے اردو دانوں
کو کم ہی سمجھ آئے گی اور آج کی اردو دوتین سوسال بعد اسی طرح زمانہ قدیم
کی اردو سمجھی جائے گی اور یہ معاملہ دنیا کی سب سوفیصد زبانوں کے ساتھ
ہے۔یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس کتاب کی زبان ڈیڑھ ہزار سال گزر جانے کے
باوجودآج بھی عرب کے صحراؤں ،ریگستانوں،گلی محلوں،بازاروں اور بدوی قبائل
میں اسی طرح بولی،سمجھی اور سکھلائی جاتی ہے۔اس کتاب کے محاورے،تراکیب اور
اسکا اسلوب بیان آج بھی زندہ وتابندہ ہے اور تاقیامت اسی طرح رہے گا۔قرآن
مجید کی حفاظت کا ایک انتظام یہ بھی ہے کہ یہ صدیوں سے پوری دنیاکے اندر سب
سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔اس کو محمد مارمیڈوک پکتھال جیسے لوگ بھی
پڑھتے ہیں جنہوں نے صرف قرآن کی زبان سمجھنے کے لیے جرمنی جیسے ٹھنڈے ملک
سے آکر تو عرب کے تپتے ہوئے جان لیوا گرم صحراؤں اور ریگستانوں میں اپنی
عمر عزیز کے بیس سال گزارے اور پھر انگریزی میں ترجمہ کیا۔صدیوں کے بیٹے جو
بہترین انسانی متاع گردانے جاتے ہیں ان جیسے لوگ اس کتاب پرقلم اٹھاتے ہیں
اور حیرانی ہے کہ سینکڑوں سالوں سے یہ کتاب اپنے راز اگلتی ہی چلی جارہی
ہے،ہر ہر دانشور کے سامنے ہر ہر آیت اپنے نئے نئے رازوں سے پردے اٹھاتی ہے۔
ہمارے جیسے طالب عم بھی اس کتاب سے فیض یاب ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی اس
کتاب کو پڑھتے ہیں جن کی کل تعلیم ہی یہی کتاب ہوتی ہے۔آج بھی دوردراز
دیہاتوں میں اور شہروں میں بھی بڑی بوڑھیاں صرف اسی کتاب کی تلاوت جانتی
ہیں ،انہیں ایک لفظ کا مطلب نہیں آتا اور پھر بھی ساری عمر اپنے سامنے کئی
کئی بچیوں اور بچوں کو بٹھا کر قرآن پڑھاتی ہیں اور اگرچہ وہ حافظ نہیں
ہوتیں لیکن دس دس بچے بھی پڑھ رہے ہوں اور وہ خود سبزی کاٹ رہی ہوں تو ان
میں سے ایک بچہ بھی معمولی غلطی کرے گا تو فوراََ اسکی اصلاح کرتی ہیں۔اور
کتنی حیرانی کی بات ہے کہ وہ لوگ بھی اس قرآن کو پڑھتے ہیں جو پڑھنا ہی
نہیں جانتے۔جاہل ،اجڈ اور ان پڑھ لوگ بھی فجر کی نماز کے بعد قرآن کو چومتے
ہوئے کھولتے ہیں اسکے اوراق پر لکھی تحریرکونہایت ادب اور احترام سے چھوتے
ہیں،اسکی ایک ایک سطر پر اس یقین اور ایمان کے ساتھ انگلی رکھتے ہیں کہ یہ
سچ اور حق ہے،اور اس دیدار کو سعادت سمجھ کر بوسہ دیتے ہوئے قرآن مجید کو
غلاف میں لپیٹ دیتے ہیں اور جہاں رکھتے ہیں پھر اس طرف پشت نہیں کرتے۔
اس کتاب کی حفاظت کا ایک اور خداوندی اہتمام یہ ہے کہ یہ صدیوں سے پوری
دنیا میں سب سے زیادہ سنی جانے والی کتاب ہے۔کتنے ہی لوگ لاکھوں روپے خرچ
کے ہزاروں میل کی مسافت و صعوبت برداشت کرتے ہیں کہ حرمین شریفین میں جا کر
تو تراویحوں میں قرآن سنیں۔ان میں سے کتنوں کو سمجھ آتا ہوتا گا؟ بمشکل پاچ
دس فیصد لوگوں کواوربس۔اور کتنے ہی لوگ جو وہاں نہیں جاسکتے گھروں میں اپنی
سکرین پر وہاں پر پڑھا ہوا قرآن سنتے ہیں۔جولوگ ساراسارا سال مسجد کے قریب
نہیں پھٹکتے مر مر کر جمعے کی نماز پڑھنے آتے ہیں وہ بھی اس قرآن کی کشش
میں سارا رمضان آذان ہوتے ہی سب سے اگلی صف میں براجمان ہوتے ہیں اور اپنے
بچوں کو بھی ہانک کر ساتھ لاتے ہیں اور گھنٹوں پر محیط اس مجاہدے والی
عبادت میں سماع قرآن کی خاطر بصد شوق شریک ہوتے ہیں اور اگر مسجد میں قرآن
کے ترجمے اور تفسیر کا انتظام ہو تو رات گئے تک بیٹھ کر اسکوبھی سنتے
ہیں۔کسی کوکوئی گانا بہت پسند ہوکوئی غزل بہت اچھی لگتی ہویاکوئی ڈرامہ
یافلم دل کو بہت بھاتہ ہو تو وہ کتنی دفعہ سنتا یا دیکھتا ہے،دوچاردفعہ اور
بس پھر اکتاکرتوبٹن بندکر دیتا ہے لیکن یہ قرآن آخرچندسوصفحوں کی ایک کتاب
ہی ہے ناجسے صدیوں سے اور نسلوں سے انسانیت سنتی ہی چلی آرہی ہے پڑھتی ہی
چلی آ رہی ہے اور کبھی کسی نے نہیں کہا کہ بس کرو اب مجھے اکتاہٹ ہوتی
ہے۔اﷲ تعالی نے اس کتاب کو صرف امت مسلمہ کے لیے ہی نہیں بلکہ کل انسانیت
کے لیے منبہ رشدوہدایت بنا کر بھیجا ہے۔اس کتاب کا سبق نامکمل رہے گا اگر
صاحب کتاب کا تذکرہ نہ کیا جائے۔اس کتاب کا لانے والا ﷺاس کتاب کی زندگی
اور اسکی حفاظت کا سب بڑاذریعہ خداوندی ہے۔اس کتاب کی کرنیں پھیلانے کے لیے
اﷲ تعالی نے اپنے آخری نبی ﷺکو سراجاََمنیرا ،چمکتاہوا سورج بنا کر بھیجا
ہے۔اس کتاب کی روشنی ماند پڑ جائے گی اگر چمکتے ہوئے سورج کو گہنا دیا
گیا۔اس سورج کے بغیراس کتاب کی کرنیں قلب و نظر سے ایک فاصلے پر رک جائیں
گی تب یہ سورج سامنے بھی ہو تو ابوالحکم ابو جہل ہی رہے گا۔
یہ کتاب قیامت تک زندہ وتابندہ رہے گی،اسی میں موجود خدائی رازوں کے مطابق
آسمانی فیصلے نافذ ہوں گے،اسی میں بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس کرہ ارض
پر قوموں کے مستقبل کاتعین ہوگا،یہ کتاب عزیزافراد سے اقوام تک اور دنیا سے
آخرت تک کامیابیوں اورناکامیوں کے جو معیار مقررکرے گی وہ حتمی ہوں گے اور
یہ کتاب شروع میں شریعت تھی جبکہ آخر میں حقیقت بن جائے گی۔قیامت تک اس میں
کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے،کسی تغیرکاامکان نہیں اور تحریف کا تو سوال ہی
پیدانہیں ہوتا ۔ منصب نبوت اگرچہ ختم ہوگیا لیکن کار نبوت جو اس کتاب کا
مرہون منت ہے اسے حاملین قرآن تاقیامت جاری رکھیں گے اور اﷲ تعالی کے ہاں
اپنا صلہ خوب خوب پائیں گے۔
|