مثل مشہور ہے کہ ایک اکیلا اور دو گیارہ، یعنی اگر
دو لوگ مل کر ایکا کر لیں تو ان کی طاقت اکیلے فرد سے گیارہ گُنا ہو جاتی
ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتحاد و اتفاق میں کتنی طاقت پو شیدہ
ہے۔یوں تو یہ ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر اتنا جامع ہے کہ اس میں ایک جہان
پوشیدہ ہے ۔ اس کی کئی مثالیں ہمیں اپنے ارد گرد ہی نظر آتی ہیں خود ہی د
یکھئیے کہ بارش کے ایک ننھے سے قطرے کی کیا اہمیت ہے مگر جب یہ ہی قطرے مل
کر سمندر کی شکل اختیار کر لیں تو اس کی طاقت کے آگے کوئی چیز بھی ٹہر نہیں
سکتی۔
اگر ہم قومی اتحاد کی بات کریں تو اس کا مطلب ہے کہ پوری قوم کے افراد ایک
ہو جائیں اور زندگی کے کسی شُعبے میں ان میں تفریق نہ پائی جائے ، بنیادی
عقائد اور نظریات میں بھی یک جہتی ہو لوگ آپس کے اختلافات کو پسِ پُشت ڈال
دیں ۔ نااتفاقی اور باہمی عداوت قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے،قوم میں
اگر اتحاد و اتفاق نہ ہو تو تمام قوتیں اور صلاحیتیں بے کار ہو جاتی ہیں ۔
اتحاد کی حرارت سخت سے سخت چیز کو موم کی طرح پگھلا دیتی ہے ۔ اتحاد سے
انسان کے اندر ایک خاص قسم کا تعمیری جذبہ پیدا ہوتا ہے جو دِلوں میں حوصلے
اور ہمت کو بڑھاتا ہے۔اتحاد سے کمزوروں کی ہمت بڑھتی ہے اور سب یک زبان ہو
کر ایک ہی جذبے کے تحت کام کرتے ہیں ۔
اتحاد و اتفاق کی ضرورت تو ہمیشہ ہی رہتی ہے مگر ہمارا ملک آج کل جس دور سے
گُزر رہا ہے اُس میں اس کی اہمیت کئی گُنا بڑھ جاتی ہے ۔ہمارے ملک کو صرف
بیرونی نہیں اندرونی خطرات بھی لاحق ہیں ۔بیرونی قوتیں فائدہ جب ہی اُٹھاتی
ہیں جب ہم اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہوتے ہیں ، ایک اﷲ ، ایک رسولؐ
اور ایک دین کو ماننے والے ملک میں ہی کئی فرقے ہیں۔ اور ہر کوئی صرف اپنے
آپ کو ہی بہتر اور برتر ثابت کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ہر طرف افرا تفری
اور نفسا نفسی کا عالم ہے اور کوشش میں لگا ہے کہ کس طرح دوسرے کے حلق پر
پیر رکھ کر آگے بڑھا جا سکتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم
بے توقیر ہوتے چلے جارہے ہیں دیگر قومیں ہم پر بھروسہ نہیں کرتیں اور اس کی
فکر نہ لوگوں کو ہے اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں کو، جب ہم اپنے ہی ملک میں
لڑنے جھگڑنے میں مصروف ہیں تو کیا ہماری حالت کو دیکھ کر ہمارا تمسخر نہیں
اڑایا جاتا ہو گا ؟ یہ درست ہے کہ ہر ملک میں کچھ نہ کچھ مسائل ہوتے ہیں
کوئی بھی سو فیصد درست نہیں ہوتا مگر اُس کو بہترین بنانے والے بھی تو قوم
کے افراد ہی ہوتے ہیں ؟کوئی باہر سے آکر اُس کو بہتر نہیں بناتا ۔
ہمارے اس مملکتِ خداداد میں نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی صلاحیتوں کی ،
مگر اتفاق نہ ہونے کے باعث دونوں میں سے کسی چیز سے استفادہ حاصل نہیں کیا
جا رہا، وسائل تو ہمارے لڑائی جھگڑوں کی نذر ہورہے ہیں ، مُلک میں ہر سال
بارشوں کا پانی سیلاب کی صورت اختیار کر کے زندگیوں اور املاک کو تباہ کر
رہا ہے اور ہمارے درمیان ڈیم بنانے پر ہی اتفاق نہیں ہے ؟ ایک پارٹی کہتی
ہے بناؤ تو دوسری اُس کی مخالفت میں کھڑی ہو جاتی ہے ، اس اقدام سے ملک اور
لوگوں کو کتنا فائدہ ہو گا یہ کو ئی سوچتا ہی نہیں ،ہمارے نوجوان اپنا
مستقبل اس ملک میں محفوظ نہیں دیکھتے ، تاجر اپنا سرمایہ باہر منتقل کر رہے
ہیں کیونکہ آئے دن کے جھگڑوں اور ہڑتالوں سے سب پریشان ہیں ۔ایسے میں ملک
کیسے ترقی کرے گا ؟؟؟
پاکستان کی ترقی کا راز صرف اور صرف اتحاد میں ہے ۔ اتحاد ہی ہماری طاقت ہے
لیکن اس کے ضروری ہے کہ تمام پاکستانی نسلی، لسانی اور علاقائی اختلافات سے
بالا تر ہو کر بھائیوں کی طرح آپس میں مل جل کر رہیں اور ایک دوسرے کے
ہمدرد اور خیر خواہ ہوں ، اسلام کے رشتے کو مضبوط کریں کیونکہ اسی رشتے کی
برکت سے ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو سکتا ہے اور ہم اقوامِ عالم میں
عزت کی نگاہ سے دیکھے جاسکتے ہیں ۔ |