کاکیشیائی (Caucasus) یورپ اور ایشیا کی سرحد پر واقع ایک
ایسا مقام ہے جو کہ بحر اسود اور بحر قزوین کے درمیان واقع ہے- مغربی
کاکیشیائی 2 لاکھ 75 ہزار ہیکٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے انتہائی
مغربی حصے میں ایک پہاڑی سلسلہ موجود ہے جو کہ بحیرہ اسود کے شمال مشرق میں
50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے-
یہ پہاڑی سلسلہ یورپ کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے - اور اس علاقے
سے آج تک بہت کم لوگوں کا گزر ہوا ہے-
|
|
یہاں ہزاروں کی تعداد میں ایسے قدیم اور پراسرار اسٹرکچر موجود ہیں جن کی
تاریخ کئی صدیوں پرانی ہے-
آثار قدیمہ کے ماہرین آج تک یہ راز نہیں جان پائے کہ انہیں کس نے تعمیر کیا؟
ان کی تعمیر کے لیے پتھر کہاں سے لایا گیا؟ اور انہیں تعمیر کرنے کا حقیقی
مقصد کیا تھا؟ سائنسدانوں کے درمیان اس حوالے سے صرف قیاس آرائیاں پائی
جاتی ہیں-
روسی باشندے ان اسٹرکچر کو ڈولمینز ( dolmens ) کے نام سے پکارتے تھے جس کا
مطلب “ پورٹل مقبرے “ ہوتا ہے- لیکن اس نام کے باوجود اس بات کا کوئی ٹھوس
ثبوت موجود نہیں کہ واقعی یہ تدفین کے لیے تمیر کیے گئے تھے یا پھر یہاں
مردوں کو دفتایا جاتا تھا-
آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ “ ان مقبروں سے ملنے والے قدیم برتنوں
اور انسانی باقیات سے معلوم ہوتا ہے ان مقبروں کی تاریخ 4 ہزار سے 6 ہزار
سال پرانی ہے- لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اشیا ان مقبروں میں بعد میں کسی
نے ڈالی ہوں“-
اگرچہ اس وقت پوری دنیا میں لاتعداد اقسام کے مقبرے موجود ہیں لیکن
کاکیشیائی کے مقبروں کی فن تعمیر انتہائی منفرد قسم کا ہے- ان مقبروں کی
تعمیر cyclopic پتھروں سے کی جاتی تھی- ان پتھروں کا استعمال کارنر بنانے
کے لیے کیا جاتا تھا-
|
|
ایک چیز جو تمام مقبروں میں مشترک تھی وہ مقبروں دیوار میں گول سوراخ کا
ہونا تھا- اس کے علاوہ تقریباِ ہر مقبرے کو سامنے کی جانب سے پتھروں کی
چھوٹی سی دیوار بنا کر بلاک کیا گیا ہے- بعض جگہوں پر یہ دیوار ایک میٹر کی
بلندی پر بھی تھی-
اس علاقے سے ملنے والے برتن لوہے اور کانسی کے تھے جبکہ یہاں سے کانسی کے
اوزار٬ سونے٬ چاندی اور قیمتی پتھروں سے بنے زیورات بھی پائے گئے-
یہاں موجود ہر اسٹرکچر کا وزن تقریبا 15 سے 30 ٹن ہے اور کوئی ایسا راستہ
نہیں پایا گیا جس سے گزر کر ان بھاری بھرکم پتھروں کو یہاں تک لایا گیا اور
نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ یہ بھاری پتھر کس طرح اٹھا کر یہاں تک
پہنچائے گئے-
یہ پتھر اتنے متوازن انداز میں رکھے گئے ہیں کہ انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں
رہ سکتا٬ یہاں تک کہ 2007 میں ان مقبروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی
گئی لیکن اس جدید دور میں تمام تر ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود ماہر تعمیرات
پتھروں کو اسی طرح متوازن انداز میں رکھنے میں ناکام رہے-
اسی وجہ سے ان مقبروں کی تعمیر آج تک ایک پراسرار راز ہے-
|
|
Vladimir Markovin آثارِ قدیمہ کے ماہر ہیں اور انہوں نے یہ راز جاننے کے
لیے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وقف کیا ہے-
ولادمیر کے مطابق یہ لوگ مٹی کے گھروں میں رہتے تھے٬ زمین پر کاشت کیا کرتے
تھے٬ انہیں کسی قسم کے برتن بنانے کا کوئی فن نہیں آتا تھا لیکن یہ تعمیرات
کرنا جانتے تھے اور ان کے ڈیزائن انتہائی متاثر کن ہوا کرتے تھے- |