اپنے ہی گھر سے بے گھر ہونے
والوں کی مشکلات کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہوتا، مجھ سمیت لاکھوں لوگ آج سے
9سال قبل زلزلہ کے باعث تباہ و برباد ہوئے،نیا شہر بسا نہ ہی پرانے شہر میں
سہولتیں ملیں،ہماری بے بسی پر آج بھی دیکھنے والی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور
ہم ہیں کہ صبر کی چادر اوڑھے وقت کا پہیہ گھما رہے ہیں ……یہ تو دستور ہے
کوئی کسی کے آنسو نہیں پونچھتا……اور جب بے گھر کر کے کہیں پناہ بھی نہ دی
جائے تو عرش کی جانب دیکھنے والوں کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں……آہ نکلتی ہے ……ایسا
ہی کچھ شمالی وزیرستان میں آپریشن ’’ ضرب عضب‘‘ کے آغاز سے ہوا، بڑے پیمانے
پر مقامی افراد کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو ا۔ حکومت کی جانب سے اس
حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث متاثرین کی مشکلات میں اضافہ
ہونا لازمی امر تھا ۔ سخت گرمی کے موسم میں ٹرانسپورٹ کی سہولیات نا کافی
ہونے کے باعث ہزاروں مر دو خواتین اور بچوں کو پیدل سفر کرنا پڑا ۔ کراچی
ائیرپورٹ پر حملہ کے بعد آپریشن ناگزیر تھا تاہم اس حوالے سے حکومت کی جانب
سے کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا ۔ایک ہفتہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی
متاثرین بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور
ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق اب تک نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ
سے تجاوز کر چکی ہے ۔نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اٹھارتی (نادرا) کے مطابق اب
تک 4لاکھ 54ہزار 207 متاثرین کااندراج کیا جا چکا ہے تاہم ابھی بہت سے
افراد ایسے ہیں جن کی رجسٹریشن ہونا باقی ہے اور بہت سے افراد ابھی اپنے
علاقوں سے باہر نہیں نکل سکے اعدادو شمار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد
7لاکھ تک پہنچ سکتی ہے ۔ متاثرہ علاقے سے بنوں کیمپوں تک پہنچنے میں 18سے
20گھنٹے پیدل طے کرنا پڑتے ہیں بھوک پیاس اور گرمی کی شدت میں دوران سفر
بعض بچوں کی اموات بھی ہو چکی ہیں ۔لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے
خاطر خواہ انتطامات نظر نہیں آرہے ۔ اس وقت سب ہے اہم مسئلہ ان لوگوں کو
محفوظ ٹھکانوں پر پہنچانا ہے جو کرفیو کی وجہ سے ابھی تک اپنے علاقوں میں
محصور ہیں یا وہ خواتین و بچے ، بوڑھے اور مریض جو پیدل سفر کی تکالیف
برداشت نہیں کر سکتے ۔اگر میران شاہ سے بنوں کی جانب آنے والے راستوں کو
دیکھا جائے تو قیام پاکستان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کہ کس طرح جلوس کی شکل
میں گاڑیوں اور پیدل لوگوں کی بڑی تعداد سامان اور مویشیوں سمیت سفر کر رہے
ہیں ۔ان لوگوں کو سفر کی سہولت پہنچانے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے
لیکن بدقسمتی سے وفاقی و صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا
کوئی ذیادہ سرگرم نظر نہیں آ رہیں اگرچہ صوبائی حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ
کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں لیکن عملی طور پر
اس دعویٰ کی تصدیق نہیں ہوتی کیونکہ صوبائی و وفاقی حکومت کی جانب سے
انتظامات بہت حد تک ناکافی نظر آ رہے ہیں ۔دوسری طرف آئی ایس پی آر کے
مطابق آرمی کی جانب سے 6راشن ،32ریلیف پوائنٹس قائم کیے جا چکے ہیں جہاں سے
40 ہزار خاندانوں کو راشن فراہم کیا جائے گا۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے
اور ایسی صورتحال میں جب سخت گرمی ہو،کھلا آسمان ہو،تپتی ریت ہو اور خوراک
کے لالے ہوں تو دست دعا بلند ہو ہی جاتے ہیں…… ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی
و صوبائی حکومت اور آرمی مل کر ان متاثرین کی مدد کے لیے اقدامات کریں ۔ اس
موقع پر وہ این جی اوز میدان میں نظر نہیں آ رہیں جو بلند بانگ دعوے کرتی
ہیں اور آئے روز پاکستان میں کسی نہ کسی موضوع پر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر
پاکستان کے مختلف مسائل پر بین الاقوامی سیمینار کرتی نظر آتی ہیں حتیٰ کہ
ابھی کچھ دنوں پہلے جن این جی اوز نے بیرونی فنڈنگ لے کر مہاجرین کے عالمی
دن کے موقع پر بڑے بڑے ہوٹلوں میں پروگرام کیے وہ بھی غائب ہیں یوں لگتا ہے
کہ ان کو عام آدمی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تاہم اسلامی این جی اوز
بالخصوص فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور الخدمت کے کارکنان بڑھ چڑھ کر متاثرین
کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے کارکنان روز اول
سے ہی بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود ہیں ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے
کارکنان نے ہمیشہ آزمائش کی کھڑی میں آگے بڑھ کر قوم کو سہارا دیا ہے 8
اکتوبر 2005کا زلزلہ ہو یا سندھ، جنوبی پنجاب کا سیلاب ، بلوچستان آواران
میں زلزلہ ہویا تھر میں قحط کی صورتحال فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے کارکن
بروقت پہنچ کر امدادی کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں جن کا اعتراف عالمی
ادارے بھی کر چکے ہیں ۔ شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کا اعلان ہوتے ہی
جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کی ہدایات پر فلاح انسانیت کے
چئیرمین حافظ عبدالرؤف نے امدادی کاموں کا آغاز کیا ۔ان کے مطابق اب تک
فلاح انسانیت کی جانب سے 82960لوگوں کو کھانا فراہم کیا جا رہا ہے ، جبکہ 9
میڈیکل کیمپ فنکشنل ہیں جہاں متاثرین کا نہ صرف مفت علاج کیا جا رہا ہے
بلکہ انہیں فری ادویات بھی ملتی ہیں ۔1200خاندانوں کو ایک ماہ کا راشن مل
چکا ہے جبکہ 2850بچوں کو فوڈ پیک جس میں دودھ جوس اور بسکٹ شامل ہیں فراہم
کیے گئے ہیں ۔گرمی کے موسم میں عارضی حل کے لیے 700ہینڈ پنکھے فراہم کیے
گئے ہیں ،چونکہ ٹرانسپورٹ کا بھی مسئلہ درپیش ہے اس لیے فلاح انسانیت اس
حوالے سے بھی کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اب تک 2ہزار سے زائد افراد کو
محفوظ مقام پر منتقل کیا جا چکاہے جبکہ قریباً3ہزار افراد کو لباس دیئے گئے
ہیں او ر ایک سو سے زائد ترپالیں بھی مہیا کی جا چکی ہیں۔ حافظ عبدالرف کا
کہنا تھا کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے، اسکے دشمنوں کے ایجنڈے کبھی
کامیاب نہیں ہونگے۔ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ عالم کفر پاکستان کیخلاف
سازشوں میں مصروف ہے۔ ہم پر دہشتگردی کے نام پرجنگ مسلط کردی گئی ہے۔ ماہ
رمضان المبارک کی آمد کے باعث متاثرین کو سحری و افطاری کے اوقات میں خوراک
کی سہولیات مہیاکی جائیں گی۔ پنکھے، کولر، کتابیں، جائے نماز، قرآن پاک کے
نسخے، گھر کے برتنوں کی فراہمی کے حوالے سے بھی ہماری منصوبہ بندی جاری ہے۔
متاثرین کے ساتھ آنیوالے جانوروں کے لیے چارے کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔
موجودہ آپریشن کے دوران پاک فوج کا متاثرین کیساتھ رویہ انتہائی شفقت پر
مبنی ہے۔ہلال احمر اورجماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت کی جانب سے بھی
متاثرین کے لیے کی جانے والی کوششیں قابل ستائش ہیں ۔شمالی وزیرستان سے
آپریشن کے نتیجہ میں بے گھر ہونے والے قبائلی اس قوم کے محسن اور اثاثہ ہیں
انہوں نے پاکستان کے مستقبل کے لیے اپنا حال قربان کر دیا ہے ۔اس لیے پوری
قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ان محسنوں کی ہر طرح کی مدد کرے ۔ایسے میں
سندھ اور بلوچستان کی جانب سے متاثرین کو خیبر پختونخواہ تک محدود رکھنے کے
فیصلہ نے ثابت کر دیا ہے کہ بعض قوتیں پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کی
کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے
ان لوگوں کو موقع مل رہا ہے جو متاثرین کے نام پر آپریشن اور پاک آرمی کے
خلاف پراپیگنڈا کر رہے ہیں یا پھر قبائلی عوام کے دلوں میں تعصب پیدا کر کے
پاکستان سے متنفر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم
ہے کہ افغانستان اس موقع پر متاثرین کے لیے دروازے کھول رہا ہے تاکہ وہ ان
لوگوں کو سہولتیں فراہم کرکے پاکستان کے خلاف نفرت ان کے دلوں میں بھر سکے
۔
اپنے ہی گھر سے بے گھر ہونے والوں کی مشکلات کا اندازہ کرنا آسان نہیں
ہوتا، مجھ سمیت لاکھوں لوگ آج سے 9سال قبل آنے والے زلزلہ کے باعث تباہ و
برباد ہیں……شمالی و زیرستان کے متاثرین کے دکھوں کا مداوا نہ ہوا تو آپریشن
کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنا بھی بے سود گا…… |