رکعات تراویح

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

رکعات تراویح
روزے میں تراویح بھی رمضان کا وہ نفل عبادت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین سے ثابت ہے اور اسکا احتمام کرنا چاہیے

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابیہ بن کعب اور تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں.

(حوالہ: موطا امام مالک جلد 1 صفحہ 114 حدیث 249، و سندہ صحیح)

اسی طرح سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں 11 رکعات پڑھتے تھے.

حوالہ: سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی جلد 1 صفحہ 349 صحیح سند)

ان شاء اللہ موضوع تعداد تراویح کو سمجھنے کے لۓ کچھ نقاط کو سمجھنا ضروری ہے ماہ رمضان (کی راتوں) سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ، مفہوم: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور کسی دوسرے مہینے میں 11 رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے.

(حوالہ: صحیح بخاری جلد 1، 154 حدیث 1147)

ایک اور حدیث ہے، صلوۃ اللیل مثنی مثنی

مفہوم: رات کی (نفلی) نماز دو دو رکعتیں ہے.

مسلم جلد 1، 516-519

ان روایتوں سے ظاھر ہوا کہ نفل کی کوئ تعداد نہیں وہ جتنی پڑھو جائز ہے لیکن اگر تراویح کو سنت معقدہ کی نیت سے پڑھو تو لمبا پڑھو اور 11 (8+3) پڑھنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ تو تہجد کا عمل ہے اور تراویح نہیں. یہ کہنا صحیح نہیں کیونکہ پوچھنے والے نے رمضان اور غیر رمضان دونوں کا پوچھا اور یہ کسی صحیح یا حسن لزاتہ روایت سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن 3 رات تراویح ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیحدھ سے تحجد بھی پڑھی.

بلکہ تیسری رات جو تراویح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کی وہ رات کو اس پہر ادا کی کہ صحابہ کو ڈر ھوا کہ شاید ان سے سحری (نہ) رہ جاۓ. یعنی اگر آپ نے اس رات تراویح رات اتنی دیر سے ادا کی تو تحجد کب ادا کی؟ اسی طرح متفق علیہ حدیث میں 10 رکعت قیام الیل اور 1 وتر کا ذکر بھی ہے. تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کا نام ہے یعنی دونوں قیام الیل کا نام ہی ہے جیسے ہم نے پہلے ذکر کیا اور یہ بات انور شاء کشمیری دیوبندی صاحب نے فیض الباری جلد 2 صفحہ 420 میں بھی درج کی اور اسی طرح رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب نے بھی لطائف قاسمیہ صفحہ 13 تا 17 میں ایسا ھی اقتباس نقل ہے.

یقینا مختلف علماء کا عمل تراویح کے حوالہ سے مختلف رہا ھے کسی نے 11 کسی نے 23 کسی نے 36 کسی نے 41 رکعت وغیرھ پڑھنے کو ترجیع دی اور ھر علماء کے پاس شائد دلیل ہوں مگر چونکہ تراویح ایک نفل عبادت ہے اس لۓ اس میں گنجائش رہے گی اگر کوئ شخص اس کو سنت مئکدہ کی نیت سے پڑھے تو پھر مختلف روایت کو محدیثین کی اصول حدیث اور درایت حدیث سے جانچنا ضروری ہے اسلۓ یہ کہنا کہ صرف 20 پر امت کا اجماع ہے صحیح نہیں.

بعض احباب 20 رکعات کے لیے چند روایات پیش کرتے ہیں، جن میں سے چند ایک مجمل تحقیق کے ساتھ مندرجہ ذیل ہیں:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ (صحابہ و تابعین) رمضان میں 23 رکعات (یعنی 20 تراویح اور 3 وتر) پڑھتے.

(حوالہ: مؤطا امام مالک، باب: کتاب الصلاۃ فی رمضان، رقم: 248

یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے. کیونکہ اس کے راوی یزید بن رومان نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا.

(نصب الرایۃ للزیلعی 163/3

لہذا یہ روایت منقطع ہوئ جب کہ موطاء امام مالک میں اس روایت سے متصل روایت میں صحیح سند کے ساتھ 11 رکعت ثابت ہے. جو میں نے پہلے ہی اوپر ذکر کر دی ہے. انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کے بقول متصل کو منقطع پر ترجیع حاصل ھوتی ھے (حوالہ: العرف الشذی، 11)

اسی طرح علامہ نیموی حنفی نے بھی آثار اسنن میں اسے منقطع کہا. اس سے ثابت ھوا کہ اس روایت یا ایسی روایات سے اہم موضوع پر استدلال کرنا صحیح نہیں. اسی طرح قرآن و حدیث اور صحیح یا حسن نصوص کے فہم صحابہ کے خلاف ضعیف اقوال یا تابعی کے اقوال پیش کرنا بھی حجت نہیں ہوتا.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو 20 رکعت تراویح پڑھائے.

(حوالہ: ابن ابی شیبہ کتاب الصلوۃ
حدیث: 7764)

اس روایت کے بارے میں نیموی حنفی نے حاشیہ آثار السنن صفحہ 253 پر لکھا، مفہوم: "یحیی بن سعید الانصاری نے عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا." یعنی اس روایت کی سند منقطع ہے اور استدلال کے قابل نہیں.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےزمانے میں لوگ (صحابہ و تابعین) رمضان میں 23 رکعات (یعنی 20 تراویح اور 3 وتر) پڑھتے.

(حوالہ: بیہقی حدیث: 4618)

اس روایت کی سند شاذ ہے اسکے مقابلہ میں مؤطا امام مالک کی 8 والی روایت سے امام طحاوی نے استدلال کیا اور عینی حنفی نے صحیح کہا اور نیموی نے اسنادہ صحیح کہا (آثار السنن صفحہ 250) جن حنفی اور دیوبندی علماء نے 8 کو سنت ہونا تسلیم کیا ان میں سے چند یہ ہیں ابن ہمام، طحطاوی، ملا علی قاری، حسن بن عمار شرنبلانی، عبدالحی لکھنوی، انور شاہ کشمیری، خلیل احمد سہارنپوری وغیرہ.

اسی طرح کم و بیش 10 سے زیادہ اہم علماء کے اقوال 11 کے حق میں ھیں اسلیے بعض احباب کیا یہ کہنا کہ اجماع صرف 20 رکعت پر ہے، یہ کہنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے.

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بعض احباب کا یہ کہنا ہے کہ سعودی عرب اور حرمین میں بھی 20 رکعت تراویح پڑھی جاتی ہیں. اس سلسلہ میں عرض ہے کہ دلیل قرآن وسنۃ اور صحیح یا حسن نصوص پر فہم صحابہ ہے ورنہ حرمین میں تو ھاتھ بھی ناف سے اوپر باندتھے ہیں، آمین بالجہر بھی کہتے ھیں، رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین بھی کرتے ہیں، اسی طرح یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ نہیں بلکہ فوق العرش ہے (اپنی شان وعزمت کے ساتھ) اور فوق العرش پر ہونے کے باوجود رب تعالی تمام امور کا علم اور ان پر قدرت وطاقت رکھتا ہے، تمام اتہحیات پر تشہد میں شہادت کی انگلی اٹھا کر ہلاتے ہوۓ دعا مانگتے ہیں صرف اشہد ان لا الہ الا اللہ پر اٹھا کر خود ساختہ عمل نہیں کرتے، اسی طرح حرمین میں اور سعودی عرب میں توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء والصفات کو اپنی زندگیوں میں رائج کرنے اور پڑھانے پر خاص توجہ دی جاتی ہے جبکہ ھمارے ہاں اسکا اتنا احتمام نہیں کیا جاتا. حرمین میں تراویح نفل نماز کی حیثیت سے پڑھی جاتی ہے اسی لۓ آخری 10 دن تراویح کے علاوہ 10 رکعت صلاۃ الیل بھی پڑھی جاتی ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ حدیث مسلم کے مطابق نفل کی کوئ حد نہیں 20 پڑھو یا 40. میرے تجربہ کے مطابق سعودی عرب میں حرمین کے علاوہ زیادہ تر مسجدوں میں 11 ہی ادا کی جاتی ہیں، واللہ اعلم، اور ھدایت دینے والا تو اللہ عزوجل ہی ہے، وما علینا الا البلاغ.

manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.