کئی سال پہلے کا ذکر ہے کہ میں ایک کزن کی دکان پر اسکے
ساتھ بیٹھا تھا اور کچھ مسائل پر بحث کررہا تھا اتنے میں ایک باریش شخص
تشریف لایا اور ہمیں تبلیغ کرنی شروع کی۔ مجھے ایک تو بحث کرنے کی عادت تھی
دوسرا جوانی کا جوش اور جنون بھی تھا۔ میں نے مبلغ پر تابڑ توڑ سوالات کرنے
شروع کردیے مگر موصوف نے جواب دیا کہ ان سوالات کے جواب میں آپکو اس وقت
نہیں دے سکتا مگر آپکو مشورہ دوں گا کہ مسجد میں تشریف لائیں ، آپکی قریبی
مسجد میں ہم ٹہرے ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے امیر صاحب آپکو سوالات
کے جواب ضرور عنائیت فرمائیں گے۔ میں نے عرض کیا جناب میں کئی دفعہ پہلے جا
چکا ہوں مگر وہاں جوابات کی بجائے داستان ہی اور ہوتی ہے، ایک شخص کھڑا
ہوتا ہے تبلیغ کی افادیت پر رٹی ہوئی مختصر سی تقریر کرتا ہے اور پھر
فرماتا ہے کہ اب ہاتھ کھڑے کریں جو جو تبلیغ کے لئیے وقت دینا چاہتا ہے۔
پھر کوئی ٣ دن اور کوئی ٤٠ دن کا چلہ لگانے کے لئیے نام لکھواتا ہے۔ خیر
میں نے عرض کیا کہ آپ جواب نہیں دینا چاہتے یا آپکو علم نہیں یا آپکو اجازت
نہیں چھوڑیں آگے بڑھتا ہوں ، کیا میں آپ سے چند ذاتی نوعیت کے سوال پوچھ
سکتا ہوں ، جناب نے اجازت دی تو میں نے سوال کیا کہ جناب آپ لوٹا بستر
اٹھائے کیوں دربدر پھر رہے ہو ؟ موصوف فرمانے لگے کہ جنت کے لئیے۔ دوسرا
سوال میں نے پوچھا آپ کس شہر سے تشریف لائے ہیں، جواب آیا سیالکوٹ سے ۔
اگلا سوال میں نے پوچھا کہ آپ طویل سفر کرکے ایک دوسرے شہر میں تبلیغ کرنے
آئے ہیں کیا آپکے والدین کو اسکا علم ہے۔ ؟ جواب آیا نہیں ۔ میں نے پوچھا
کیا آپ نے والدین سے اجازت لی تھی ؟ کہنے لگا وہ نہیں مانتے اور وہ جائیں
جہنم میں مجھے کیا میں تو جنت کی تلاش میں نکل آیا ہوں۔ میں نے اس سے جو
کہا اور جس جذباتیت سے کہا وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ میں نے اسے کہا کہ وہ
کونسی جنت ہے جو تجھے والدین کو جہنم میں جھونک کر مل جائے گی ؟ عقل کے
اندھے تیری جنت تیری ماں کے قدموں کے نیچے اور تیرے باپ کی رضا اور خوشنودی
میں ہے۔ حضرت جنید بغدادی تاجدار اولیا ہیں ، چالیس سال بغداد کے جنگلات
میں الله کی تلاش کے لئیے چلے کرتے رہے مگر الله کا قرب نہ ملا ایک رات ماں
کی خدمت کی ، ماں نے دعا کے لئیے ہاتھ اٹھائے ، طریقت کی ساری منزلیں آسان
ہو گئیں، الله نے اپنا قرب بھی بخشا اور ولائیت کا بلند منصب بھی عطا کیا۔
میں نے اسے عرض کیا کہ وآپس چلے جاؤ والدین کو راضی کرو اور فرائض کی
پابندی کے ساتھ حقوق العباد کا خیال رکھو اگر جنت تیرا خود انتظار نہ کرے
تو میدان محشر میرا گریبان پکڑ لینا، موصوف سیخ پا ہوکر فرمانے لگے کہ تیری
کیا اوقات ہے جو تو مجھے جنت کی گارنٹی دے رہا ہے۔ میں نے عرض کیا میری
کوئی اوقات نہیں مگر جس آقا کی غلامی کا میں دعویدار ہوں اسے الله نے بڑے
اختیار دے رکھے ہیں، غلام ہمیشہ اپنے مالک و آقا کی قوت و اختیار کو پیش
نظر رکھ کر دعوی کرتا ہے ، پنچابی میں کہتے ہیں کہ بھینس ہمیشہ کلے دے سر
تے زور لاندی اے۔ آؤ اگر سمجھ نہیں آئی تو جنت کی گارنٹی تمھیں اپنے آقا و
مولا احمد مجتبی، محمد مصطفی ، شافع روز جزا ، صلی الله علیہ وسلم کے فرمان
عالیشان کی صورت میں سناتا ہوں آپ نے فرمایا مجھے تم دو جبڑوں اور دو رانوں
کے درمیان چیز کی حفاظت کی گارنٹی دے دو میں تمھیں جنت کی گارنٹی دیتا ہوں
اؤ کما قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم ۔ موصوف یہ سب سن کر غصے کے عالم
میں چلے گئے۔ لیکن چونکہ یہ ماہ مقدس رمضان شریف ہے جو کہ رحمت خداوندی ،
مغفرت اور جہنم سے آذادی کا مہینہ ہے، لہذا جنت کی تلاش میں بم دھماکے اور
خدکش حملوں کی طرف مائل ہونے والوں سے کہنا چاہوں گا کہ جنت کا حصول بہت
آسان ہے ، اس کے لئیے آپ کو کسی کی جان لینے کی نہ ضرورت ہے نہ اپنی جان
دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ کم عمر بچوں کا نیم
ملاں برین واش کرتے ہیں اور جنت اور حوروں کا لالچ دے کر انھیں دوسروں کی
جان لینے اور اپنی جان دینے پر آمادہ کرتے ہیں، اور نوجوان بچوں کی دنیا کے
ساتھ عاقبت بھی برباد کردیتے ہیں۔ ان جنت کے متلاشی نوجوانوں کو اپنے آقا
صلی الله علیہ وسلم کا ایک فرمان سنانا چاہتا ہوں ، جو میں نے حدیث کی ہر
کتاب میں پڑھا آپ نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے
ساتھ رکھے الله اس کے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دے گا اؤ کما قال رسول
الله صلی الله علیہ وسلم۔ ایک اور حدیث کا مفہوم عرض کرتا ہوں جبریل امین
نے دعا کی کہ ہلاک ہو وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی بخشش نہ کروا
سکے ، ہلاک ہو وہ شخص جو والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور انکی خدمت
کرکے جنت کا حقدار نہ بنے، ہلاک ہو وہ شخص جو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم
کا اسم گرامی سنے اور درود نہ پڑھے۔ تینوں کے جواب میںمیرے آقا صلی الله
علیہ وسلم نے فرمایا آمین ۔۔
جنت تیرے وجود کو ترسے گی خود باخود ۔
تو میرے آقا صلی الله علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر تو دیکھ ۔۔ |