بارش اﷲ کی رحمت ہے، جس پر
انسانی زندگی منحصر ہے۔قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب یہ
رحمت روک لیتے ہیں تو اصل میں یہ لوگوں کے گناہوں کی سزا ہوتی ہے۔ اس کے
ساتھ ساتھ بعض اوقات آفات ارضی و سماوی بھی سزا کے طور پرنازل ہو تی ہیں
جیسے قحط ، طوفان، زلزلہ اور بارش کا بالکل بند ہوجانا وغیرہ۔ مقصد اس سے
یہی ہو تا ہے کہ لوگ گناہوں سے باز آجائیں ،توبہ کرلیں، اور ان کا رخ اﷲکی
طرف ہو جائے۔ایسے موقعوں پر اﷲ سے مغفرت طلب کرنی چاہیے۔انسان گناہوں کی
کثرت کی وجہ سے طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار اور آزمائشوں میں مبتلا ہوتا
ہے۔ استغفار کی کثرت سے گناہ معاف ہوتے رہیں گے‘ نتیجتاً انسان ان احوال بد
سے محفوظ ہو جائے گا۔ استغفار جہاں گناہوں کی معافی اور نیکیوں میں تلافی
کا ذریعہ ہے ،وہاں کثرت ِاستغفار سے دوسرے فوائد بھی ملتے ہیں۔ سورہ ہود
اور سورہ نوح میں استغفار پر خوب بارشیں ہونا ‘ طاقت وقوت میں اضافہ اور
مال واولادملنے وغیرہ کی بشارتیں موجود ہیں‘ ہرطرح کے مصائب اور تفکرات سے
نجات پانے کے لئے استغفار بہت اکسیر ہے‘ حدیث شریف میں آتا ہے: جو شخص
استغفار میں لگا رہے‘ اﷲ تعالیٰ اس کے لئے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ بنا
دیں گے اور ہرفکر کو ہٹاکر کشادگی فرمادیں گے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق
دیں گے جہاں سے اس کو دھیان بھی نہ ہوگا۔
لہٰذا بارش کے نزول کے لئے ہر شخص اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے کثرت سے
استغفار کریں،استغفار کے ساتھ ساتھ توبہ کا بھی اہتمام ہو، استغفار کا مطلب
گناہوں کی مغفرت چاہنا، جب کہ شرعی اصطلاح میں معصیت سے طاعت کی طرف لوٹنے
اور رجوع ہونے کا نام توبہ ہے، یعنی توبہ کرتے ہوئے اگر گناہوں کو نہیں
چھوڑتا تو یہ حقیقی توبہ نہیں ہے۔ |