رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا
آغاز ہو چکا ،چیرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن اور ماہرین فلکیات
کیمطابق آج پاکستان میں پہلا روزہ ہے،ہر سو خوشگور تبدیلی کا ماحول ہے
مساجد میں مسلمانوں کا رش شروع ہو گیا ہے خدمت کے جذبے اور ایک دوسرے سے
ثواب زیادہ لینے کے مقابلوں جاری ہیں جو عید الاضحی تک جاری رہیں گے، مسجد
قاسم پشاور سے مفتی صاحب نے ایک رات قبل ہے روزوں کا اعلان کرکے اپنی اعلی
رویت برقرار رکھی رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہمیں منافقت اور جھوٹ سے
بچنا چاہئے ، پاکستان ہو یا بیرون ممالک ،دوست ہوں یا دشمن،رشتہ دار ہوں یا
ہمسائے ہر ایک کسی نہ کسی طریقے سے منافقت اور جھوٹ جیسی اس لعنت سے دو چار
ہے۔بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم سچ بولیں،سچ سنیں، منافقت اور جھوٹ
سے کنارہ کشی اختیار کریں ۔آج اگر اہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمارے
حکمران اپنے ووٹروں سے،دوست اپنے حلقہ احباب سے، رشتہ دار اپنے عزیزوں
سے،محلے دار اپنے ہمسایوں سے کسی نہ کسی وجہ سے منافقت کرتے دکھائی دے رہے
ہیں۔جھوٹ اور منافقت کی لعنت نے ہمارے ماحول کو داغدار کر دیا ہے۔سچ بولتا
ہوا انسان جھوٹا اور جھوٹا شخص دنیا کا بہترین اور سچا فرد نظر آتا
ہے۔اعتماد اور بھروسوں کے رشتوں میں دراڑیں آگئی ہیں۔اور حالات اس نہج پر
پہنچ گئے ہیں کہ منافقت کرنے اور جھوٹ بولنے والے لوگ معاشرے میں اعلیٰ
مقام رکھتے ہیں۔۔مگر اسلام میں منافق کو کافر سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا
گیا ہے۔
پاکستان کے حالات دن بدن کشیدہ او ر بدترین ہوتے جا رہے ہیں اور اس میں اہم
وجہ منافقت اور جھوٹ کا نان سٹاپ استعمال ہے۔کیونکہ ایک دوسرے سے سبقت لے
جانے اور بناؤٹی ماحول میں خود کو اعلیٰ درجے پر لانے کیلئے حضرت انسان سچ
کا سہارا لینے کو ایک گناہ تصور کرتا ہے اور گناہ کی لذت بھی ایسی ہے کہ آپ
کو گناہ کرتے کرتے یہ احساس تک نہیں رہتا کہ قیامت کے روز آنحضرت ﷺ کو کیا
منہ دکھائینگے۔کفار اور اسلام دشمن طاقتیں بھی اپنے طور پر مطمین ہیں کہ
مسلمانوں کو شیطانی کاموں کی طرف مشغول کرنے کی اب ہمیں ضرورت نہیں۔کیونکہ
یہ خود ایسی دلدل میں پھنسے ہیں کہ جہاں سے باہر نکلنا اب شاید ان کے بس کی
بات نہیں رہی۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے
دور مبارک میں کفار مسلمانوں کا روپ دھار کر صحابہ اکرام کے ساتھ نمازیں
بھی پڑھتے تھے اور اسلام کے متعلق معلومات بھی لیتے ایک دن مسجد میں دوران
نماز رفع یدین کیا گیا یعنی تمام مسلمانوں کو حکم ہوا کہ وہ ہاتھ اٹھا کر
اﷲ کی گواہی دیں جس پر صحابہ اکرام کو حیرانگی ہوئی کہ لا تعداد منافق انکی
صفوں میں موجود تھے اور بت انہوں نے اپنے بازؤں کے اندر چھپا رکھے تھے جو
گر گئے اور کئی ایک نماز چھوڑ کر بھاگ گئے۔نسل در نسل چلنے والے نظام پر
غور کیا جائے تو آج بھی ہمارے صفوں میں منافق موجود ہیں جو اپنے منافق
بھائیوں میں جا کر دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کی طرح
اس مسلمان کو بیوقوف بنا دیا جس طرح زمانہ جاہلیت میں وہ لوگ کیا کرتے تھے
جب وہ مسلمانوں میں آتے تو کہتے ہم مسلمان اور جب اپنے منافقوں میں جاتے تو
کہتے ہم منافق ہیں اور ہم تو مسلمانوں سے مسخرہ کر رہے تھے۔
زمانہ کئی سو سال ترقی کر گیا مگر آج بھی ہمارے درمیان منافقین کی کمی نہیں
ہوئی۔مسلمان دن بدن کمزور ہو رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی ہماری صفوں
میں منافقین کا ہونا ہے جو اپنے مزے اور اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر
چلتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل طلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔دہشت
گردی،بد امنی اور جہالت کے نام پر مسلمانوں کی تہذیب کا جنازہ نکالا جا رہا
ہے۔ضرورت سے زیادہ پڑھے اور دوسروں کو ان پڑھ ،گوار سمجھنے والے ان نام
نہاد لوگوں نے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں مسلمانوں کو صفاء ہستی
سے مٹانے کی کوششیں ابد سے جاری ہیں۔کبھی الیکشنوں کے دوران منافقت اور
جھوٹ کے سہارے ووٹ لیے جاتے ہیں تو کبھی عام شہریوں کو بیوقوف بنایا جاتا
ہے اکثرلوگ غلط عہد و پیماں اور منافقت بھری زندگی کو ترجیح دے رہے
ہیں۔سچائی اور ایماندار ی کا راستہ روکنے کی کاوشیں عروج پر ہیں۔حالات کا
مقابلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔دوست احباب،رشتہ داریوں ،بحیثیت مسلمان آپس کے
تعلق میں سچائی اور ایمانداری کا فقدان ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے
ارد گرد پائی جانیوالی منافقت اور جھوٹ سے اپنا ایمان بچایا جائے تاکہ کلمہ
طیبہ کے نام پر حاصل کیے جانیوالے اس عظیم ملک کی نا صرف خدمت کی جا سکے
بلکہ منافقت اور جھوٹ سے کنارہ کشی اختیار کرکے ہم قیامت کے روزآقا کریم ﷺ
کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں ۔ورنہ قیامت کے روز ہم پر یہ سوال ہو گا کہ
رمضان المبارک کے مہینے میں توبہ کا آخری موقع تم نے کیوں ضایع کردیا
|