قرآنی آیات کی روشنی میں
(والد مرحوم کے خیالات کو مرتب کیا )
قرآن پاک میں سورہ انبیاء آیت 92 اور المومنون آیت 52 میں اللہ تبارک
وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یہ امت ،امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری
ہی عبادت کرو۔ سورہ صف آیت چار میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ بیشک اللہ ان
لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر جہاد کرتے ہیں جیسے
کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوارہو۔
آل عمران آیات نمبر 103 ۔اللہ کی رسی (یعنی قرآن اورا تباع رسولﷺ) کو
مضبوطی سے تھامو اورتفرقے میں نہ پڑو (علاقائی تقسیم، جغرافیائی اور
انتظامی) آیت نمبر 105 اورنہ ہو جاؤ ان لوگوں کی طرح جو دین میں تفرقہ
ڈالتے ہیں اورایسے لوگوں کے لیے عذابِ عظیم ہے۔
سورہ بقرہ آیت 208 اے ایمان والو دین اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ
(قرآن کریم کی مکمل پیروی کرو اور اسوۂ رسولﷺ کی مکمل اتباع) شیطان کے
خواہشات کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
سورہ انفال آیت 46، پس اطاعت کرو اللہ کی اور رسولﷺ کی (بحیثیت فرد اور
امت) پس تنازعے میں مت پڑو (مختلف قوموں میں تقسیم نہ ہوں) ورنہ تم بکھر
جاؤ گے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، تمہاری رعب داب بحیثیت قوم(امت) ختم ہو
جائے گی اور صبر کرو۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (صبر سے مراد
استقامت اور ڈٹ جانا ہے)۔ سورہ انفال 60تا 66 دشمنان امت کے مقابلے میں
پوری امت ایک امام، ایک مرکز، ایک جھنڈے تلے پوری قوت سے تیاری کرے۔
پلے ہوئے گھوڑوں (زمانے کے لحاظ سے جدید ترین اسلحہ) اور اس بارے میں جو
بھی مال و قوت خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں تو اس کا پورا کا پورا اجر تمہیں
دیا جائے گا۔
مندرجہ بالا قرآنی آیات کی رو سے تمام مسلمان ایک امت اور ملت ہیں۔ حدیث
مبارکہﷺ ہے تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف
ہوتو پورا جسم تکلیف سے متاثر ہو گا یہ مثال ہمارے عام مشاہدے کے لئےبیحد
سہل ہے۔ اب ایک جسم کو اگر 55 حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ
جسم مردہ ہو جائے گا۔ جب جسم کی روح نکل جائے گی تو پچپن ٹکڑوں میں منقسم
یہ جسم بالکل بے کار اور مٹی میں دفنانے کے قابل رہ جائے گا۔
میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں ملت اسلامیہ کے پچپن ٹکڑوں میں منقسم
اس بے جان لاشے کو دیکھتا ہوں۔یہ امت جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی امامت کے
رتبے پر سرفراز کیا، جس کے لیے سورہ آل عمران میں ارشاد ہوا۔ تم ہی وہ
بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا (پیدا کیا گیا) تم نیکی کا حکم
دیتے ہوء، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
سورہ الصف میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ وہی ذات ہے جسنے رسولﷺ کو بھیجا ہدایت
اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے چاہے مشرکوں کو
کتنا ہی ناگوار گزرے۔
جب تک مسلمان جسم واحد کی طرح آپس میں جڑے رہے۔ تمام دنیا پر ان کا رعب
ودبدبہ رہا اور جب وہ ٹکڑوں میں بٹ گئے تو وہ مغلوب ہو گئے۔ ذلت کے گڑھے
میں گر گئے، پستی و خواری ان کا مقدر بن گئی اور باطل نظاموں کے کاسہ لیس
ہوگئے۔
اس ذلت و رسوائی کی دلدل سے نکلنے کا واحد ذریعہ اور راستہ اللہ اور اس کے
رسولﷺ کی اطاعت ہے اور یہی ان کامیابیوں کو حاصل کرنے کی کنجی یا ماسٹر کی
Master Key ہے سورہ نساء آیت 69 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اور جو کوئی
اطاعت کرے اللہ کی اور رسولﷺ کی اس کی ہمراہی انبیاء، صدیقین، شہداء اور
صالحین کے ساتھ ہو گی اور یہ کتنے بہترین رفیق ہیں۔ دنیا کی فانی زندگی میں
اپنا معاشرتی مقام اونچا کرنے کی جدوجہد میں ہماری پوری زندگی گزر جاتی ہے۔
کیا آخرت کی دائمی زندگی کے اس اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہونے کی ہم نے کوشش
کی ہے کہ وہاں پر ہمارا ساتھ وی آئی پیز VIPs کے ساتھ ہو۔ اس اعلیٰ ترین
درجے پر پہنچنے کے لیے میدان کھلا ہے، داخلہ عام ہے بس تقویٰ ایمان صالح،
تزکیہ نفس، اتباع رسولﷺ کی ضرورت ہے۔ لمحہ بہ لمحہ قدم بہ قدم۔ آل عمران 31
، القلم 4 ، توبہ128 آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہو اگر تم اللہ سے محبت
کرتے ہو، پس میری اتباع کرو اللہ تمہیں محبوب رکھے گا اورتمہارے گناہوں کو
بخش دے گا اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اتباع رسولﷺ اللہ کی
محبوبیت حاصل کرنے کا بہترین گر ہے اور محبوب سبحانی سے بڑھ کر کیا درجہ؟
دنیا کی امامت پر دوبارہ سرفراز ہونے کے لیے۔
اب یہ امت مسلمہ واحدہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے اپنے آپ کو
تیار کرے اپنا لائحہ عمل ترتیب دے کر اس کو حاصل کرے۔ لوگ تو ایک گاؤں کی
سرداری اور عمارت کو حاصل کرنے کے لیے کتنی جدوجہد کرتے ہیں مگر ہم لوگوں
نے اپنے اس اعزاز کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اور انتہائی کم تر امارات
پر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے بلکہ اس کے لیے آپس ہی میں ایک دوسرے کا گلا کاٹ
رہے ہیں۔ حزب شیطان کے چیلے اورمغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئے
ہیں۔
علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
صرف ایمان کے زبانی اقرار سے کام نہیں بنے گا جب تک کہ ہمارا قلب اس کی
تصدیق نہ کرے اور عمل صالح اس کا ثبوت فراہم نہ کرے۔ آل عمران آیت 19 بیشک
دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ اللہ کے اس دین پر خلوص، باہمی
مشاورت، ذہانت،حکمت، محبت، رواداری اور تنظیم کے ساتھ ٹھوس اور موثر منصوبہ
کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
محمدﷺ نے پانچوں وقت کی نماز باجماعت، جمعہ، عیدین، حج، اور نظام زکوٰۃ کو
عملاً قائم کرکے دکھایا۔ زکوٰۃ ایک ہی اتھارٹی بیت المال کے ذریعے وصولی و
تقسیم کے عملی احکام ہیں۔ کوئی جتھہ چھوٹا یا بڑا بغیر امیر کے شتر بے مہار
نہیں چھوڑا۔ حساب اور احتساب اسی وقت اور ہر وقت مفت (بغیر بے شمار کمیشن،
رشوت، سفارش اور تنخواہ دار مشیروں کے)۔ حضوؐر کی پوری زندگی اور صحابہ
کرام کی عملی پیروی ہم پر فرض ہے ایمان و عمل صالح، تقویٰ اور تزکیہ نفس کے
ساتھ۔
پاکستان ان ٹکڑوں میں منقسم جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس لیے تو ہر جگہ مار
پٹائی اور ذلت و رسوائی ہو رہی ہے۔ انگریز تو خیر پرانا آقا رہا ہے اور اب
یہ آقا امریکہ کی صورت میں ہے۔ یہود و ہنود بلکہ روس (منکراللہ) کے ہاتھوں
تمام دنیا میں مسلمانوں کی جو حالت زار ہے۔ صد افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو
ایسے حالات میں حزب شیطان کو جگری دوست بناتے ہیں، ان کی پیروی کرتے ہیں،
ان کے تمام افعال قبیحہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کا دیا ہوا عقل، طاقت اور
مال ان کی پیروی میں برباد کرتے ہیں۔ امت مسلمہ کے پاس اللہ کی دی ہوئی
کتاب قرآن مجید اورحضوؐر کی سنت رہنمائی کے لیے موجود ہے اگر اجتماعی اور
انفرادی طور پر اپنے گناہوں پر تائب ہوں اورصدق دل سے حضوؐر کی اتباع کریں۔
حضوؐر کی زندگی کے ہر پہلو پر پوری توجہ دیں اور اس کی اتباع کرنے کی کوشش
کریں تو یہ تمام کامیابیوں کی کنجی ہے۔
اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک طالب علم امتحان کے ایک پرچے میں 80فیصد نمبر
حاصل کرلے دوسرے میں 20 فیصد اورتیسرے میں 25 فیصد تو ظاہرہے کہ مجموعی طور
پر وہ ناکام ہوگا اور صرف اپنے پسند کے مضامین میں پاس ہونے سے وہ پاس نہیں
کہلائے گا اگر پاس مارکس 30 فیصد ہوں اورہرپرچے میں 33یا 35 حاصل ہوں تو جب
وہ پاس ہوگا اور اعلیٰ نمبروں کی کامیابی کا کیا کہنا۔ اس لیے ہر مسلمان کی
دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورے کا پورا دین میں داخل
ہو اور دین کے ہر شعبے پر عمل پیرا ہو۔
حضوؐر مومنین پر رؤف و رحیم ہیں حضوؐر کے خلق عظیم اور رحمتہ اللعالمین
ہونے کی پیروی کر کے ہم ایک انتہائی اعلیٰ اور باکردار مسلمان ہو سکتے ہیں۔
جرمن پھر متحد ہو گئے، یورپ کے ممالک جو کہ ہمیشہ برسرپیکار رہتے ہیں۔ اب
مختلف انتظامی معاملات میں متحد ہو رہے ہیں۔عالم اسلام میں چھوٹی بڑی کئی
تنظیمیں موجود ہیں لیکن ان میں سے بیشتر غیر مؤثر ہیں۔ او آئی سی، عرب لیگ
اورگلف کونسل وغیرہ۔ سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کی طرز پر اسلامی
اقوام متحدہ قائم کی جائے اس لیے کہ موجودہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے لحاظ
سے ایک بالکل ہی نام نہاد ادارہ ہے بلکہ دشمنان اسلام کا گڑھ ہے۔ اس لیے
تمام عالم اسلام ایک اپنا اقوام متحدہ تشکیل دے جس میں عالم اسلام کو قریب
لانے کی کوششیں ہوں ان کے مسائل کے حل کے لیے ان کے اتفاق و اتحاد کے لیے
پلیٹ فارم بنایا جائے۔
کیا یہ خواب جو کہ میں اکثر دیکھتا ہوں قیامت سے پہلے حقیقت کا روپ دھار
سکتا ہے کہ تمام عالم اسلام متحد ہو کر ایک حکومت بن جائے، ایک مرکز، ایک
امام یا خلیفہ، ایک ہی جھنڈا، ایک ہائی کمان، ایک عظیم الشان قوت؟ جس کے
خیال سے ہی دشمنان اسلام کو تھرتھری آجائے۔ کیوں نہیں اللہ کی ذات سے میں
مایوس نہیں ہوں۔ البتہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک جہد مسلسل
کی ضرورت ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا |