روزہ برائے حصولِ تقویٰ
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
صوم اورروزہ کی حکمت اور فائدے
بتاتے ہوئے اﷲ پاک نے فرمایا:’’ لعلکم تتقون ‘‘(البقرہ:183)یعنی روزے رکھنے
سے نفس کے تقاضوں پر زَد پڑیگی ،تو تم متقی بن جاؤگے ،کیونکہ تقو ی، صغرہ
وکبیرہ اور ظاہری وباطنی گناہوں سے بچنے کانام ہے ،آیت کریمہ میں بتایا کہ
روزہ کی فرضیت تقوی حاصل کرنے کے لئے ہے ،بات یہ ہے کہ انسان کے اندر
بہیمیت اور حیوانیت کے جذبات ہیں ،نیزنفسانی خواہشات ساتھ لگی ہوئی ہیں جن
سے نفس کا ابھارومیلان معاصی کی طرف ہوتارہتاہے ،روزہ ایک ایسی عبادت ہے ،جس
سے بہیمیت کے جذبات کمزورہوجاتے ہیں ،نفس کا ابھارکم ہوجاتاہے اور شہوات
ولذات کی امنگ گھٹ جاتی ہے ، پورے رمضان کے روزے رکھنا ہر عاقل بالغ مسلمان
پر فرض ہے ، ایک مہینہ دن میں کھانے پینے اور جنسی تعلقات کے تقاضوں پر عمل
کرنے سے اگرباز رہے، تو باطن کے اندر ایک نکھار اور نفس کے اندر سدھار
پیداہوجائیگا ۔ اگر کوئی شخص رمضان کے روزے ان احکام وآداب کی روشنی میں
رکھ لے جو احادیث میں وارد ہوتے ہیں تو واقعۃً نفس کا تزکیہ ہوجاتاہے ۔جو
گناہ انسان سے سر زد ہوتے رہتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ دوچیزیں گناہ کا
باعث بنتی ہیں،ایک منہ ،دوسری شرمگاہ ، حضرت امام ترمذ ی رحمۃ اﷲ علیہ نے
حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیاگیا کہ سب سے
زیادہ کون سی چیز دوزخ میں داخل کرنے کا ذریعہ بنے گی ، آپ نے جواب دیا:’’
الفم والفرج ‘‘،یعنی منہ او رشرمگاہ ۔ (ان دونوں کو دوزخ میں داخل کرانے
میں زیادہ دخل ہے ) روزہ میں منہ اور شرمگاہ دونوں پر پابندی ہوتی ہے ،
مذکورہ دونوں راہوں سے جو گناہ ہو سکتے ہیں روزہ ان سے باز رکھنے کا بہت
بڑا ذریعہ ہے، اسی لئے تو ایک حدیث میں فرمایاکہ : ’’الصیام جُنۃ‘‘ یعنی
روزہ ڈھال ہے (گناہ سے اور آتش دوزخ سے بچاتاہے )(بخاری 254ج1)اگرروزہ کو
پورے اہتمام اور احکام وآداب کی مکمل رعایت کے ساتھ پوراکیاجائے ، تو
بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہوجاتاہے ، خاصکر روزہ کے وقت بھی اور اس
کے بعد بھی ۔
لیکن اگر کسی نے روزہ کے آداب کا خیال نہ کیا ،روزہ کی نیّت کرلی ،کھانے
پینے اور خواہشات نفسانی سے باز رہا، مگر حرام کمایا اور غیبت کرتا رہا، تو
اس سے فرض تو ادا ہوجائے گا، مگر روزہ کی برکات وثمرات سے محرومی رہے گی ،
جیساکہ سنن نسائی میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’الصیام جنۃ مالم
یخرقھا‘‘ یعنی روزہ ڈھال ہے جب تک کہ اس کو پھاڑ نہ ڈالے ۔اور ایک حدیث میں
ارشاد ہے کہ : ’’من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس ﷲ حاجۃ فی ان یدع
طعامہ وشرابہ ‘‘ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات او ر غلط کام نہ چھوڑے تو اﷲ
کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ روز ہ دارصرف کھانا پینا ترک کرے۔(بخاری ،ج:1\255)۔
لہذا ،متقی،ولی اﷲ ، صالح،نیکوکاراور اﷲ کا مقرب بندہ اگرکوئی بننا چاہے،
تو وہ رمضان المبارک کے یہ صیام وقیام بطور ایک تربیتی کورس انتہائی نظم
وضبط اور آداب واحترامات کے ساتھ بجا لائے، اسی سے تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر
پہنچنا ممکن ہے۔ |
|