غزوہ بدر ۔۔
گلی محلے کے امام مسجد سے لیکر امام کعبہ تک کو میں نے یہی فرماتے سنا ہے
کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے اور اسلام تلوار سے نہیں اخلاق سے پھیلا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں نہ مجھے اس سے کوئی اختلاف ہے نہ میری اتنی علمی
اوقات ہے کہ اس پر لب کشائی کروں مگر ہاتھ باندھ کر معذرت کے ساتھ یہ ضرور
کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام امن کے ساتھ ساتھ غیرت و حمیت کا درس بھی دیتا ہے
، بلاشبہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے مگر اسکا تحفظ ہمیشہ تلوار اور طاقت سے
ہی ممکن ہوا ہے اسی لئیے برصغیر میں صوفیاء کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے
عظیم سپوت تلواروں اور لشکروں کے ساتھ تشریف لائے، جہاں صوفیاء نے اپنے
اخلاق، گفتار وکردار سے اسلام کوپھیلایا وہیں مسلمان جرنیلوں نے تلوار کی
دھار اور کاٹ سے اسلام کا تحفظ کیا۔ خود میرے آقا رحمت عالم ، نور مجسم
احمد مجتبی حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کے تحفظ و دفاع کے
لئیے کئی غزوات کی قیادت فرمائی اور اس انداز سے اپنی قیادت میں سپاہ کو
لڑایا کہ دنیا کو تسلیم کرنا پڑا کہ محمد عربی صلی الله علیہ وسلم سے بڑا
جرنیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔ رمضان کی مناسبت سے کفر و اسلام کے پہلے
معرکہ غزوہ بدر کا کچھ تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔
جب میرے آقا صلی الله علیہ وسلم کو کفار مکہ کی لشکر کشی کی اطلاع ملی تو
آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضوان الله کو مشورہ کے
لئیے بلایا اور فرمایا اے میرے جانثارو میں جانتا ہوں کہ ابھی تک ہجرت کے
بعد تم اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوسکے اور ابوجہل ایک ہزار کا لشکر لے کر
مکہ سے نکل چکا ہے اور اسکا ارادہ ہے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے اور
اسلام کو صفحئہ ہستی سے مٹا دے، اے میرے صحابہ اب تم بتاؤ تمھاری کیا رائے
ہے ؟ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کی: ’’ یا رسول اﷲ خدا کی قسم! اگر آپ حکم
فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کو تیار ہیں۔ حضرت مقداد نے کہا: ’’ ہم
موسیٰ کی امت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب خود جاکر لڑیں، ہم
تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں سے بائیں سے، سامنے سے اور
پیچھے سے لڑیں گے پھر آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ کے تابعدار ہوں
گے، جہاں آپ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ آپ بسم اﷲ کیجئے
اور جنگ کا حکم فرمائیں، ان شاء اﷲ اسلام ہی غالب آئے گا۔ حضور سرکارِ دو
عالم صلی الله علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام کے اس جذبہ سرفروشانہ اور جوش
ِایمانی کو دیکھا تو آپ کا چہرئہ اقدس فرط ِمسرت سے چمک اٹھا۔ پھر آپ نے
اپنا چہرئہ مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر ان سب کے لیے بارگاہِ خداوندی میں
دعاء خیر فرمائی، اور ارشاد فرمایا: ’’ خداوند قدوس نے مجھے قافلہ و لشکر
میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کا
وعدہ سچا ہے اور قسم بہ خدا! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ
رہا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کافر
قتل ہوگا۔ آپ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کا محل قتل بتا دیا۔ حضرت انس
فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضور سید عالم نے فرمایا تھا، وہ کافر وہاں ہی قتل
ہوا۔ (مشکوٰۃ / مدارج النبوت)۔ حضور سید عالم صلی الله علیہ وسلم رمضان
المبارک 2 ہجری کو اپنے تین سو تیرہ (313) جاںبازو جاں نثار ساتھیوں کو
ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے
مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپ نے جیش اسلام
کا جائزہ لیا اور جو اس کارواں میں کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما
دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص ایک کم سن سپاہی بھی شامل تھے، انہیں جب واپسی
کے لیے کہا گیا تو وہ رو پڑے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کا یہ
جذبہ جہاد و شوقِ شہادت دیکھ کر انہیں شاملِ جہاد رہنے کی اجازت عطا فرما
دی۔ لشکر اسلام کی کل تعداد 313 تھی، جس میں سے 60 مہاجرین اور 253 انصار
تھے۔ چلتے چلتے یہ بے نظیر و بے مثال لشکر 16رمضان المبارک بہ روز جمعرات 2
ہجری کو میدان بدر پہنچ گیا۔ ادھر مکہ معظمہ سے قریشِ مکہ بڑے سازوسامان کے
ساتھ نکلے تھے۔ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر تھا۔ سو سواروں کا رسالہ تھا۔
رئوسائے قریش سب شریکِ جنگ تھے اور اُمرائِ قریش باری باری ہر روز دس دس
اونٹ ذبح کرتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا، اپنی اس
طاغوتی فوج کا سپہ سالار بنایا گیا تھا۔ 17رمضان المبارک کی مبارک شب تھی،
تمام مجاہدینِ اسلام آرام فرما رہے تھے جب کہ حضور رحمت دو عالم صلی الله
علیہ وسلم نے ساری رات عبادت و ریاضت اور دعا میں گزاری۔ میرے آقا صلی الله
علیہ وسم کے لب مبارک پر یہ دعا تھی کہ اے الله اگر آج میدان بدر میں میرے
٣١٣ جانبازوں کو شکست ہوگئی تو اے الله پھر قیامت تک تیرا نام لینے والا
کوئی نہ ہوگا۔ صبح کو نماز فجر کے لیے تمام سرفروشان اسلام مجاہدین کو
بیدار کیا اور نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد قرآن مجید کی ’’آیاتِ جہاد‘‘
تلاوت فرما کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ مجاہدینِ
اسلام کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش و جذبے کا سمندر بن کر طوفانی
موجیں مارنے لگا اور مجاہدین جلد از جلد جنگ کے لیے تیار ہونے لگے۔ مؤرخین
اس معرکہ کو ’’غزوئہ بدر الکبریٰ‘‘ اور غزوئہ بدر العظمٰی‘‘ کے نام سے یاد
کرتے ہیں لیکن اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لا ریب اور لا فانی کلام قرآنِ
مجید میں اس معرکہ کو ’’یوم الفرقان‘‘ (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے
والے دن) کے نام سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل،
خیروشر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکار ہوگیا اور اقوامِ عالم کو بھی
پتا چل گیا کہ حق کا علم بردار کون ہے اور باطل کا نقیب کون ہے۔ چناںچہ
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر تم اﷲ پر ایمان رکھتے ہو اور
اس (چیز) پر جو ہم نے اپنے (محبوب) بندے پر نازل فرمائی، جس دن دو لشکر
مقابل (آمنے سامنے) ہوئے اور اﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (الانفال:41)۔ جب دست
بہ دست عام لڑائی شروع ہوگئی تو لشکر اسلام کا ہر سپاہی پورے جوش و جذبے کے
ساتھ لڑ رہا تھا اور سر دھڑ کی بازی لگا رہا تھا۔ اسلام کا ایک ایک سپاہی
کفار کے بیسیوں سپاہیوں پر بھاری تھا اور ان کو جہنم رسید کر رہا تھا۔ ایسے
ہی جاںباز و جاں نثار اپنی شجاعت و بہادری اور جذبہ جاںنثاری کی وجہ سے اور
اپنے ملک و ملت اور مذہب پر پروانوں کی طرح اپنی قیمتی جان قربان کر کے اﷲ
تعالیٰ کے دربار میں سر خرو ہوتے ہیں۔ کفار کے تقریباً ستر (70) آدمی قتل
ہوئے اور 70 افراد کو قیدی بنا دیا گیا اور کفار کے وہ سردار جو شجاعت و
بہادری میں بے مثال سمجھے جاتے تھے اور جن پر کفار مکہ کو بڑا ناز تھا، وہ
سب کے سب مسلمان مجاہدوں کے ہاتھوں مقتول ہو کر دوزخ کا ایندھن بن گئے اور
جو کافر زندہ رہ گئے، وہ میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں
دیکھا اور سیدھا مکہ میں اپنے گھروں میں جا کر دم لیا۔ لشکر اسلام میں سے
صرف 14 خوش نصیب سرفروش مجاہدوں نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا اور جنت
الفردوس میں داخل ہوگئے، جن میں سے چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے۔ میدانِ
بدر میں لشکر اسلام کے پاسبان و محافظ اور جان باز و جان نثار سپاہی کچھ اس
بے جگری سے لڑے کہ تھوڑے ہی عرصے میں کفار کی کثرت کو کچل کر واصل جہنم کر
دیا۔ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مستجاب دعائوں کے صدقے خدائے رب
ذوالجلال کی تائید و نصرت کی بہ دولت کفار کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ جس کی
مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا ۔
لیا جائے گا پھر تم سے کام دنیا کی امامت کا۔
اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم مومن ہوئے ( القرآن )
مومن بننا ہمارا کام ہے اور دنیا پر غالب کرنا الله کا وعدہ ہے۔ پیوستہ رہ
شجر سے امید بہار رکھ ۔۔۔ |