دعوے نہیں عملی اقدامات
(Ilyas Muhammad Hussain, )
بلندو بانگ دعوے کرنا اچھی بات
سہی اس سے لوگ وقتی طورپر خوش توہو جاتے ہیں لیکن فقط دعوؤں کی بنیادپر
کتنی دیر تک عوام کو بہلایا جا سکتاہے ہمارے ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے
اس کے باوجودجب بھی ماہ ِ صیام آتاہے خوانچہ فروش سے دکاندارتک ہر شخص
چھریاں تیز کرلیتا ہے ہرچیز کا ڈبل،ٹرپل ریٹ ۔۔کبھی مہنگائی کا طوفان اور
کبھی نا جائز منافع خوری کی سونامی ۔۔مقدس ماہ میں ہوشربا مہنگائی سے عوام
کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ہیں دکاندار اس اندازسے چیزیں مہنگی کرتے ہیں
جیسے ان کے نزدیک یہ بھی کوئی مذہبی فریضہ ہو۔روزوں کی آمد سے چند دن پہلے
پیاز25-20روپے کلو تھا اب80روپے فروخت ہورہاہے اسی طرح40روپے کلو بکنے والا
ٹماٹر100روپے کلو تک جا پہنچاہے۔حدہوگئی ادرک400روپے کلو تک دھڑلے سے بیچا
جارہاہے ادرک نہ ہوا کستوری ہوگئی آلو بھی عام آدمی کی پہنچ سے دورہے یہی
حال دوسری سبزیوں کا ہے۔فروٹ کا ریٹ اس قدر بڑھ گیاہے غریب تو صرف حسرت سے
دیکھتے گذر جاتے ہیں مباداکمزوردل شاید قیمتیں سن کر بے ہوش نہ ہو
جائیں۔کھجورکے بغیر افطاری ادھوری ادھوری سمجھی جا تی ہے اس کا
ریٹ400سے500روپے کلو تک جا پہنچاہے گراں فروشوں نے عوام کا براحال کررکھاہے
لوگ ایک دوسرے سے پو چھتے پھررہے ہیں حکومت کہاں ہے؟ انتظامیہ کہاں خواب
خرگوش مزے سے سورہی ہے؟عوام نا جائزمنافع خوروں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں
پھربھی ہمارے پیارے خادم ِ اعلیٰ کا دعویٰ ہے نا جائز منافع خوروں سے آہنی
ہاتھوں سے نمٹیں گے حالات تو ایسے ہیں وہ کیا نمٹیں گے عوام گراں فروشوں کے
ہاتھوں نمٹے جارہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں میاں شہباز شریف مہنگائی کنٹرول
کرنے کیلئے خود چھاپے ماررہے ہیں لیکن وہ کہاں کہاں جائیں گے؟ کس کس شہر
چھاپے ماریں گے؟ کس کس کو پکڑیں گے ۔۔۔پاکستان میں تو آوے کا آوابگڑاہواہے۔۔
نا جائز منافع خوروں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کررکھاہے جس طرح شمالی
وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف اپریشن ضرب ِ عضب شروع کیا گیا ہے ملک بھر
میں مہنگائی کرنے والے نا جائز منافع خوروں کے خلاف ایک خوفناک اپریشن ضرب
ِ غضب شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے ان لوگوں نے عوام سے خوشیاں چھین لی ہے
عام آدمی اور ان کے معصوم روزے داربچے فروٹ کو ترستے پھررہے ہیں مگرمہنگائی
کرنے والوں کو ذرا ترس نہیں آتادراصل یہ بڑے زمانہ ساز لوگ ہوتے ہیں ملک
میں جس پارٹی کی حکومت بنتی ہے بڑے بڑے تاجر،صنعتکاراورسرمایہ دار اس پارٹی
میں شامل ہوکر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں اب کون مائی کا لال ان کے خلاف
کارروائی کرے حکومت کچھ کرتی بھی ہے تو وہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے
مترادف ہوتاہے بیشتر اوقات ڈسٹری بیوٹر صاف بچ نکلتاہے اور قانون کی زدمیں
چھوٹا دکاندار آجاتاہے سزا اور جرمانے بھی اسی کو ہوتے ہیں سامنے کی بات ہے
اسے چیز جس حساب سے ملے گی فروخت بھی اسی مارجن سے کی جائے گی۔نا جائز
منافع خوری صرف اس صورت ختم کی جا سکتی ہے جب بے رحم اپریشن کی زدمیں جو
بھی آئے اسے معاف نہ کیا جائے دوسراپرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال بنایا
جائے اس میں اچھی شہرت کی حامل نیک نام شخصیات کو نہ صرف نمائیدگی دی جائے
بلکہ انہیں اختیارات بھی دئیے جائیں معیار اور مقدارپرسختی سے عمل کیا جائے
تو کوئی وجہ نہیں عوام کی داد رسی نہ ہو،صارف عدالتوں کا دائرہ کار وسیع
کیا جائے بلندو بانگ دعوے کرنااچھی بات سہی اس سے لوگ وقتی طورپر خوش توہو
جاتے ہیں لیکن فقط دعوؤں کی بنیادپر کتنی دیر تک عوام کو بہلایا جا سکتاہے
ہر قسم کی سیاست سے بالاترہو کر فیصلے کرنے سے ہی عوام کو ریلیف مل سکتاہے
عوام دعوے نہیں عملی اقدامات چاہتے ہیں اور عملی اقدامات کیلئے دعوے کرنے
کی ضرورت نہیں ہوتی۔ |
|