ہندوستان میں حالیہ سیاسی
تبدیلیوں کے درمیان ایک بار پھر ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے محاسبہ کی
ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ایک بار پھر ایک اچھا موقع ہاتھ آیا ہے کہ ہم اپنے رب
کی طرف رجوع کریں ، اپنے اعمال و افکار کا جائزہ لیں اور اپنی سمتِ سفر
درست کرنے کو کمربستہ ہو جائیں۔بدلے ہوئے ملکی حالات کے درمیان اپنے فکری و
عملی انتشار کو دورکرنے کے لیے کتابِ حق کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا
اٹوٹ حصہ بنانے کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔سیاسی اتھل پتھل سے متعلق جو
بھی حقائق اِس وقت ہندوستان میں اُبھر کر سامنے آئے ہیں اُن کے تجزیوں میں
سر کھپانے کے بجائے، بہتر یہی ہوگا کہ اِس سرزمین کے خالق سے، جو ساری
کائنات کا خالق و مالک ہے، ہم دریافت کریں کہ وہ ہمیں بدلے ہوئے حالات میں
کیا ہدایات عنایت فرماتا ہے۔
خود مسلمانوں سے ہم یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیں گے کہ کیاہندوستانی مسلمان
محض ایک نسلی قوم کا نام ہے؟ اگر اِس کا جواب ہاں میں نہیں ہے، اور یقینا
نہیں ہے، تو اِنہیں اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے اور اپنے مقصدِ حیات کے
بارے میں ایک بار پھر ضرور غور کرنا چاہیے۔اوریہ محاسبہ کتابِ ہدایت کی طرف
رجوع کی شکل میں ہونا چاہیے،جو اُن کے پاس اﷲ کی ایک امانت کے طور پر محفوظ
ہے ، جسے انہوں نے ریشم کے غلافوں میں باندھ کر اپنے گھروں میں کسی اُونچے
مقام پر رکھ چھوڑا ہے۔اُن کویہ معلوم کرنا چاہیے کہ اِس کائنات کے خالق نے
اپنی زمین پر رونما ہونے والے سماجی، معاشرتی،یہاں تک کہ سیاسی تبدیلیوں کے
بارے میں کن بنیادی اُصولوں سے اپنی کتاب میں ہمیں متعارف کرایا ہے، کہ کن
حالات میں کتاب اﷲ، کس طرح صرف مسلمانوں کی ہی نہیں، بلکہ سارے اِنسانوں کی
ہدایت کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اﷲ کی کتاب سے ہدایت کے حصول کا ارادہ و عمل
جب سے رُک گیا ہے، اِس کے ماننے والے سرگرداں اور پریشان رہتے ہیں، اور ہر
کس و ناکس سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں ۔ اﷲ کے جو قوانین زمین پر انسان کی
اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں کارفرما ہیں ، اگر مسلمان اِن سے واقف
ہوتے تو شایداِنہیں خوف یا تشویش کی کوئی ضرورت نہ پیش آئی ہوتی۔ حقیقت یہ
ہے کہ بدلے ہوئے حالات کے اصلاً ہم خود ہی ذمہ دار ہیں،جیسا کہ اِس حدیث
شریف میں وارد ہوا ہے:’’ یحیٰ بن ہاشم ،یونس بن ابی اسحاق سے روایت کرتے
ہوئے وہ اپنے والدکے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایارسو ل ﷲ صلی اﷲ علیہ و
سلم نے جیسے، تم ہوگے، ویسے ویسے تم پر سردار مقرر کئے جائیں گے۔‘‘ (
رَوَاہُ الْبَیْھَقِیْ، مِشْکوٰۃ ، کِتَابُ الْاِمَارَۃِ وَالْقَضَاءِ )۔آئیے
، ہم بدلے ہوئے حالات کے لیے احکام ِ اِلٰہی کو قرآن میں تلاش کرتے ہیں اور
خوف کی نفسیات سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور زندگی کے اپنے سفر
کو ایک بامعنی سمت عطا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کتاب اﷲ میں تو اس سلسلے میں
کئی مقامات پرہماری رہنمائی کی گئی ہے۔ہم سورۃ آل عمران (۳)کی یہ آیت ہم
یہاں درج کررہے ہیں:’’(یہ) کیا (حیرت ہے تمہاری کہ)جب، تمہیں کوئی مصیبت
پہنچتی ہے(توتم تعجب کرنے لگتے ہو کہ یہ کہاں سے در آئی)…… ،(اے محمدؐ) آپ
کہہ دیں کہ(یہ )وہ(مصیبتیں ہیں جو) تمہاری(اپنی حرکتوں کی) وجہ سے (آئی ہیں،
جنہیں تم نے خودہی دعوت دی ہے)۔بے شک اﷲ ہر شے پر قدیر ہے۔‘‘(۱۶۵)۔
آج ہر سیاسی مبصرPolitical Analystحیران و پریشان ہو کر ایک دوسرے سے پوچھ
رہا ہے کہ یہ Right Wing Partyبرسرِ اقتدار کیسے آئی، وغیرہ وغیرہ۔خصوصاً
حیران و پریشان مسلم دانشور و صحافی، آئے دن، اپنے لیے مصائب کے اندیشوں کے
حوالے سے جو چیخ و پکار کر رہے ہیں،مذکورہ آیت ،اُن کے لیے اپنے گریبان میں
جھانکنے کا بھرپورموقع فراہم کرتی ہے ،کہ تمہارا اپنا عمل بھی اپنے ہم
وطنوں کے ساتھ کچھ کم تکلیف دہ نہیں رہا ہے ۔ اِس لیے بدلے ہوئے حالات پر
تم کو اِس قدر تعجب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اگر زیادہ گہرائی سے دیکھا
جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ جو بھی مخالفانہ صورتحال تمہارے لیے پیدا ہوئی،
اِس کا سبب خود تمہارے اپنے کرتوت ہیں’’قل ھومن عند انفسکم‘‘ ۔تم نے بحیثیت
داعی قوم کبھی اپنے ہم وطنوں تک اُن کے خالق و مالک کا پیغام پہنچانے کی
کبھی زحمت گوارہ نہیں کی۔کبھی اپنے دینی اخلاق کا ویسا مظاہرہ نہیں کیا جو
تمہارے آخری نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنے ماحول میں فرمایا تھا۔اب جب کہ
تمہارے فکر و خیال کے بالکل مخالف ایک گروہ برسرِ اقتدار آگیا ہے تو دراصل
اِس میں اﷲ کی قدرت کام کررہی ہے، اُسی کے اِذن کے تحت یہ حالات پیدا ہوئے
ہیں ، کیوں کہ ایسے حالات پیدا کرنے کی قدرت صر ف اور صرف اﷲ ہی کے پاس ہے۔
بے شک اﷲ ’’علی کل شی ٍٔ قدیر‘‘ہے، یعنی ہر مثبت و منفی تبدیلی پر قدرت
رکھنے والا۔
سورۂ توبہ(۹)کی یہ آیت بھی پیش ِ نظر رہے:’’درحقیقت،اﷲ نے تمہیں (ماضی میں
جنگ کے ) اکثر میدانوں میں نصرت دی،اور یومِ حنین کو،جب تم اپنی
کثرتِ(تعداد) پر مسرور تھے،توتم کو(تمہاری اِس کثرت)نے کوئی فائدہ نہیں
دِیا،اور فراخی کے باوجود زمین تم پر تنگ ہوگئی،پھر(نتیجہ یہ ہوا کہ)تم
پیٹھ پھیر گیے۔‘‘(۲۵)۔
حنین کی جنگ کے دوران اہلِ ایمان اپنی فوجی طاقت یعنی کُل ۱۲ ہزار کی فوج
پر مطمئن تھے، اِسی کی طرف اِس آیت میں اِشارہ ہے۔ حنین ایک مقام کا نام ہے
جو مکہ سے طائف کی جانب جانے والے راستے پر واقع ہے جہاں ۶۳۰ ء (۸ہجری)کو
یہ معرکہ برپا ہوا تھا۔جنگ حنین اُن جنگوں میں سے ایک ہے جن کا ذکر قرآن
میں مذکور ہے۔دُشمن فوجیوں کی تعداد پر اپنی تعداد کی فوقیت اُنہیں اطمینان
دلانے لگی تھی اور اُنہیں بھروسہ ہو چلا تھا کہ وہ اپنی تعداد کے بل پر یہ
جنگ جیت لیں گے۔لیکن دُشمن کی جنگی چالوں نے اور تیروں کی غیر متوقع برسات
نے اِنہیں تِتّر بِتّر ہونے پر مجبورکر دیا تھا اور بہت کم اصحاب جنگ کے
آخری مرحلے تک میدان میں جم پائے تھے اور باقی میدان چھوڑ نے پر مجبور ہو
گیے تھے۔ اِ سی افراتفری کی طرف اِشارہ اِس آیت میں موجود ہے کہ تعدادِ
افواج پر تمہارا اِترانا اﷲ کو پسند نہیں آیا تھا۔ موجودہ حالات میں اِ س
آیت کا انطباق ہمارے لیے درس ہائے عبرت بخشتا ہے،اِس میں ہمیں یہ سبق ملتا
ہے کہ ہم کو اپنے مخالف کی طاقت اور پینترے بازی کا اندازاکیے بغیر بے جا
تفاخر میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔جوکچھ بھی حالات ہیں نیے سرے سے اپنی
جمعیت کو اخلاقی اور دینی بصیرتیں عطا کرنے کی سمت قدم اُٹھانا چاہیے۔
سورۂ آل عمران(۳) میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم سے مخاطب ہوکر کر اﷲ
فرماتا ہے:’’(نبی ٔ محترم!) آپ اعتراف فرمائیں کہ: خدایا،شاہوں کے شاہ،تُو
بخش دے( کسی خطۂ زمین پراختیاراتِ )ملکیت اُسے،جوآ جائے تیری نگاہِ انتخاب
میں اورمحروم کردے کسی خطۂ زمین کی ملکیت سے اُسے جس کے حق میں تیری رضا نہ
ہواورمعزز کردے اُسے ، جس پر تیرا کرم ہو جائے اورذلیل و خوار کردے اُسے جو
تیری نظروں سے گر جائے۔خیر( کی کنجی) تو بس تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے۔بے شک
توہر شے کا قدیر ِ مطلق ہے۔‘‘(۲۶)۔
بدلے ہوئے خوفزدہ ماحول میں کیاہمیں بھی ا س حقیقت کااعتراف نہیں کرنا ہوگا
کہ ملک کی قیادت کس کو دی جائے یہ صرف اور صرف اﷲ کا اختیارPrerogative
ہے۔وہ جسے چاہے زمین کی ملکیت عطا کردے،جسے چاہے ملک پر اقتدار عطا کردے،
جسے چاہے معزز کردے اور جسے چاہے ذلیل و خوار۔اچھائی اور بھلائی کی کنجی
اُسی معبودِ برحق کے دستِ قدرت میں ہے نہ کہ کسی ملک کے Polarised Votersکے
دستِ بے بضاعت میں۔ رب العٰلمین ہی ہر چیز پر قادر ہے۔ہم اِس حقیقت سے
ناواقف رہتے ہیں اور ایسی کسی صورتحال کے پیدا ہو جانے کے بعد پریشان ہو
جاتے ہیں۔ہم اِن حقائق کے اعتراف کی جرٔت کیوں نہیں کرتے ۔ ہندوستان جیسے
عظیم ملک کے اقتدارپر اﷲ نے کسی پارٹی یا وزیر اعظم کو بٹھایا ہے،اورپہلی
پارٹی کو وہاں سے ہٹایا ہے تویہ اُسی کا اِختیار ہے، جس کے خلاف جانے کا
کسی میں یارا نہیں۔سوال یہ اُٹھتا ہے ،کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کی باگ
ڈور اگر کسی فرد یا گروہ کو سونپی جاتی ہے تو ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے
ہوئے اِس عظیم حقیقت کا اعتراف کیوں نہیں کرتے، جو مذکورہ آیت میں بیان کی
گئی ہے؟
پھر ہم سمجھتے ہیں کہ اِس صورتحال سے ہمیں صدمہ ہوا ہے، ایسے ہی جیسے کسی
میدانِ جنگ میں ہم زخمی ہو گیے ہوں۔ ایسا ہے توپھر اِس کو بھی ہمیں قرآن کے
آئینے میں دیکھنا چاہیے ۔ ! سورۂ آل عمران (۳) میں ہی ایک اورآیت ملتی ہے
جو بہت حد تک ہماری تشویش کو دور کرتی ہے، بشرط یہ کہ ہم ہر معاملے و مسئلے
میں قرآنی حل کو تلاش کرنے کے سعادت حاصل کریں،جسمیں ایک بہت ہی عظیم حقیقت
بیان کی گئی ہے: ’’....... تلک الایام نداولھا بین الناس……‘‘کے مختصر سے
الفاظ تاریخ کی ایک عظیم داستان کہہ جاتے ہیں۔ایک اوراہم بات یہ کہ جن برسرِ
اقتدار لوگوں سے ہم خائف رہتے ہیں، اُن کے برسرِ اِقتدار آنے میں خود اﷲ کا
کیا پروگرام ہے؟ اِس کا جواب بھی ہمیں قرآن میں مل جاتا ہے۔سورۂ
یونس(۱۰)میں ارشادِ باری تعالےٰ ہے:’’پھر تمہیں زمین میں اِن(اقوامِ مجرمین
) کے بعدجانشین بنایا، تاکہ ہم دیکھیں (کہ جب تم اقتدارمیں آتے ہو تو) کیسے
عمل(Perform)کرتے ہو۔‘‘(۱۴)۔
کتنی واضح اور صاف بات ہے یہ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اِقتدار میں آئیں
گے ، اُن کےPerformance پر اﷲ کی برابر نظر ہوگی، چاہے دُنیا میں کتنی ہی
بڑی اکثریت سے وہ کیوں نہ کامیاب ہوئی ہو،او ر چاہے اِس کی کوئی اپوزیشن
کرنے والی جماعت بھی کیوں نہ ہو ۔اور جیسا کہ اوپر حوالہ دیا گیا ،’’....اﷲ
ظالم لوگوں کو محبوب نہیں رکھتا‘‘۔جاں نشینی کا یہ سلسلہ خود اﷲ نے انسانوں
کے درمیان جاری کر رکھا ہے،اور جیسا کہ تاریخ گواہ ہے، اُس کی زمین پرآدم
علیہ السلام کے دور سے یہ سلسلہ جاری ہے اورتا قیامت جاری رہے گا، ہوسکتا
ہے اُس کے ظلم کی رسی ضرور دراز ہوئی ہو، لیکن ظالم کو کھل کرکھیلنے کا
موقع کبھی نہیں ملا ہے، نہ کبھی ملے گا۔چنانچہ جو بھی برسرِ اِقتدار آئے گا
اُسے ظلم سے باز رہنا پڑے گا، یہی اﷲ کی منشاء ہے۔اور اِسی منشاء کے مطابق
مقتدر ظالم گروہ اقتدار سے بے دخل کیے جاتے رہیں گے۔کاش،کوئی اﷲ کا بندہ،
اقتدار کے لیے زمین میں دوڑ دھوپ کرنے والوں تک اِن حقائق کو پہنچادینے میں
دلچسپی لے اور انسانوں کی فلاح میں اپنا حصہ ادا کرے۔!
اﷲ کے اِس سارے پروگرام کو دیکھیں تو دِل اطمینان کی کیفیت سے معمور ہو
جاتا ہے۔سوال یہ نہیں کہ جس اﷲ کے سامنے ہم دِن میں پانچ پانچ بار سجدہ ریز
ہوتے ہیں، کیا وہ عبادت گزاراِنسانوں کو ظالم حکمرانوں کے رحم کرم پر چھوڑ
دے گا؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم خود ، عباد ت گزاروں کے گروہ میں شامل
کیے جانے کے لائق بھی رہ گیے ہیں؟جس دن ہم اِس سوال کا اثبات میں جواب دینے
کی پوزیشن میں آجائیں گے،اُسی دن سے مسلمانوں کی نفسیاتِ خوف ختم ہو جائے
گی اور اُس کے داعیانہ جذبات پر ایک بہارسی آجائے گی اور اﷲ کے اِن پیغامات
کو اﷲ کے بندوں تک پہنچانے کا جذبہ مزید طاقتور ہو جائے گا۔سوکھے پتوں کی
چرمراہٹ سے ڈرنے والی قوم کبھی مسلمان نہیں ہو سکتی ۔ وہ توصرف اور صرف
کلام ِ اِلٰہی کی کارفرمائی ہوگی جو ایک مسلمان کے سینے کو ایمان کی روشنی
سے منورکر دے گی اور اُسے ایک جری اور بہادر انسان بنادے گی۔
بے بنیاد خوف کے سایے میں جینے والے مسلمان کیااپنافریضۂ دعوت ادا کرنے کے
لیے کم از کم اب تو کمربستہ ہونے کے لیے تیار ہیں۔؟ |