برصغیر پاک وہند کے سب سے بڑے شاعر اسداﷲ خان غالبؔ پہ
نجانے رنج والم کا کون سا ایسا پہاڑ ٹوٹا ہوگا کہ اسے کہنا پڑا کہ
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار،،،،،،، کوئی ہمیں ستائے کیوں
حال اپنا بھی یہی ہے۔ملکی حالات دیکھ کے کبھی کبھی دل ایسے بیٹھ جاتا ہے کہ
جینے کو بھی جی نہیں چاہتا۔آپریشن ضربِ عضب جاری ہے۔یہ وہ آپریشن ہے جس کی
ضرورت بڑے عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔اتمامِ حجت لیکن ضروری تھا۔ ریاست
ماں کے جیسی ہوتی ہے اور ماں اپنے بچے کو اس وقت تک سرجن کے پاس لے کے نہیں
جاتی جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ اب سرجری کے سوا چارہ نہیں۔ماں معجزوں کی
منتظر رہتی ہے۔مولویوں سے دم کرواتی ہے حکیموں کے نسخے حتیٰ کہ عطائیوں تک
کے ٹوٹکے بھی۔اس معاملے میں بھی ریاست نے ماں ہی کی طرح دربدری
کاٹی۔مولویوں کی پھونک سے لے کے صحافیوں کے ٹوٹکوں تک ،سابق فوجیوں سے لے
سابق سفیروں تک کس کس کی منت نہیں کی کہ یہ معاملہ کسی طور سلجھ جائے لیکن
جب ہر طرف سے جواب آ گیا تو مجبوراََ مریض کو سرجن کے حوالے کرنا پڑا۔اب
مریض آپریشن ٹیبل پہ ہے۔تحریک انصاف کے عمران خان کو لوگ ان کے موقف کی وجہ
سے طالبان خان کہتے تھے لیکن بھلا ہو عمران کا بھی کہ آخری لمحے میں انہوں
نے بھی معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا اور آپریشن کی حمایت کی۔جماعتِ
اسلامی اور جمیعت کے دوستوں کی طرف سے سخت مخالفت کی توقع تھی لیکن انہوں
نے بھی وقت کی نزاکت کے پیشِ نظر اپنی توپوں کو خاموش ہی رکھا۔حیرت ہے کہ
وہ جو مدت سے اس آپریشن کا مطالبہ کر رہے تھے آج انہی کی طرف سے ملک میں
ہلا مچایا جا رہا ہے۔بس یہ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی۔
اسی آپریشن کی آڑ میں حکومت نے بھی چاہا کہ کچھ پرانے احسانوں کا بدلہ چکا
دیا جائے قوم تو آپریشن میں مصروف ہے کسی کو خبر نہ ہو گی۔ارسلان افتخار
صاحب بلوچستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے چئیرمین لگا دئیے گئے۔ موصوف فرماتے
ہیں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں اتنا نالائق بھی نہیں جتنا لوگ سمجھتے
ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ آپ جیسے ہزاروں ارسلان ملک میں دھکے کھاتے پھرتے
ہیں آخر آپ ہی میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ڈاکٹر مالک نے پورے
بلوچستان سے صرف آپ جیسے ایماندار آدمی کا انتخاب کیا۔آج طبیعت اسی لئے
لکھنے پہ آمادہ ہے کہ یہ ہیرا دوبارہ باپ کے گھٹنے سے آلگا ہے۔باپ بیٹا
لیکن چپکے بیٹھنے والے نہیں یہ پھر کوئی واردات ضرور ڈالنے کی کوشش کریں
گے۔ خلیل رمدے صاحب اﷲ بخشے خلیل جبران کے ہم پلہ تھے جب مملکت انصاف میں
حیات تھے۔جونہی کرسی ِ انصاف کو ان کی ذات سے رہائی ملی ان کے صاحبزادے بھی
رندے لے کے پنجاب حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل بن گئے حالانکہ صاحبزادے کی ابھی
مسیں بھی پوری طرح نہیں بھیگیں۔شکر ہے ان کی ایڈووکیسی سے بھی پنجاب حکومت
کو نجات ملی۔باقی رہے نجم سیٹھی تو وہ بھی چند دنوں میں کھیت رہیں گے کہ
پنگچروں کی دکان آخر کب تک ان کا ساتھ دے گی۔
اچھی خبر یہ بھی ہے کہ تحفظِ پاکستان بل قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہو
گیا۔ہم نے کتے کھلے چھوڑ رکھے تھے اور پتھر وں کو زمین میں گاڑ رکھا تھا۔
حالت یہ تھی کہ جان پہ کھیل کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزموں کو پکڑتے
تھے۔جواب میں وہ فائر بھی کرتے تھے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں
کی جان بھی لیتے تھے اور اس کے بعد ہمارا نظامِ انصاف ان کو باعزت بری کر
کے انصاف کی بلے بلے کرا دیتا تھا۔اگر مقابلے کے دوران کوئی ملزم مارا جاتا
تو بھیڑ چال کا شکار الیکٹرانک میڈیا اسے مبینہ پولیس مقابلے کا نام دے
دیتا۔ملزم مظلوم بن جاتے اور محافظوں کو مجرم بنا کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا
جاتا۔اس قانون کے پاس ہونے پہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے پیٹ میں بھی
کچھ مروڑ اٹھے ہیں ۔ خیر ان کے ہاں تو ویسے بھی کتوں کے بعض اوقات انسانوں
سے زیادہ حقوق ہیں۔ریاست اس قانون کو اگر حقیقتاََ اپنی عوام کے تحفظ کے
لئے ایمانداری سے استعمال کرے گی تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس کے مفید اور
بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔یہ بل وزارتِ داخلہ کا کارنامہ ہے لیکن اس میں
حیرتیں پوشیدہ ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ کی بیماری اس بل کے پاس ہونے کے بعد
کچھ بڑھ سی گئی ہے اور یارانِ سیاست خبر لائے ہیں کہ وہ اگلے چند دنوں میں
علاج کے لئے برطانیہ جانے کا سوچ رہے ہیں ۔یہ ایک اور بوالعجبی ہے جس کی
سمجھ نہیں آ رہی۔
بدقسمتی سے ہم نہ تو عامل صحافی ہیں نہ کامل۔ہم تو بس بیمار ہیں جنہیں
سوچنے کی بیماری ہے۔سوچنے تجزئیہ کرنے اور پھر اس تجزئیے کو اٹھا کے کبھی
اس کے در کبھی اس کے در اور کبھی در بدر۔بد قسمتی سے بچپن میں اساتذہ نے
لفظوں کی پہچان کرادی تھی۔بڑے ہوئے تو کچھ مہربانوں کے کرم سے سوچنے کی لت
لگ گئی یہی لت اب ہمیں آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ہم میرٹ کے زمانے کے لوگ
ہیں کوشش کرتے تو بقول طلعت حسین ـ"پیرا ٹروپر" بن سکتے تھے۔"گھس بیٹھ" تو
بہت ہی آسان تھی لیکن صحافت پہ بھی تو آجکل اجارہ ہے۔ لوگوں کو پیرا ٹروپنگ
اور گھس بیٹھ کا طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ وہ خود
کیسے اس میدان میں کودے تھے اور کس راستے سے۔یہی لوگ آج کل میڈیا کے خدا
بنے بیٹھے ہیں اور ہر لکھنے والے کی توہین اپنافرض سمجھتے ہیں ۔کبھی جو
میڈیا کی بھی کوئی کھلی کچہری لگے تو کئی ایسے نابغوں کی بھد اڑے جو بھد کو
اردو کا لفظ ہی نہیں مانتے۔غالبؔ نے خدا جانے کس کیفیت میں کہا تھا کہ
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
ہر بار سوچا کہ اس گناہِ بے لذت سے جان چھڑائی جائے لیکن پھر کوئی ارسلان
کوئی رمدے آٹپکتا ہے تو ہم سے صبر نہیں ہوتا۔کیا کریں پاکستان ہمارے ایمان
کا حصہ جو ہے۔یہیں سے ہمارے آقاﷺ کو ٹھنڈی ہوائیں آیا کرتی تھیں۔
ایک صاحبِ نظر نے یہ کہہ کے البتہ ڈھارس بندھائی ہے کہ حوصلہ رکھو اور اپنے
حصے کی شمع جلاتے رہو۔ پاکستان اب اس سمت چل پڑا ہے جب اس کی ہاں اور نہ
میں قوموں کی قسمت کے فیصلے ہوں گے۔اس دعوےٰ پہ میں تو حیران ہوں آپ ہیں کہ
نہیں؟ |