پہلی درسگاہ
(محمد سجاد انجم, karachi)
انسان کو ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل
کرنے کا حکم ہے۔سو اسی لئے کہتے ہیں کہ بچے کیلئے پہلی درسگاہ اس کی ماں کی
گود ہوتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کی گود کو درسگاہ کیوں کہا جاتا ہے؟
کیا اس لئے کہ ماں بولنا سکھاتی ہے؟ کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا
وغیرہ سب کچھ سکھاتی ہے اس لئے ماں درسگاہ کا درجہ رکھتی ہے؟ نہیں ماں کی
گود کو صرف اس لئے First School نہیں کہا جاتا کہ ماں بچے کو بولنا وغیرہ
سکھاتی ہے بلکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ماں ہی وہ ہستی ہے کہ جس دیئے ہوئے
سبق کی روشنی میں یا تو جنت کا انتخاب کرتا ہے یا جھنم کا۔ اوریہ اسی پہلے
سکول کے پہلے پہلے درس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ قیامت میں اس کا نامہ اعمال
سیدھے ہاتھ میں دیا جاتا ہے یا الٹے ہاتھ میں یہی وہ پہلا سبق ہے جس پر آنے
والی نسلوں کے ایمان کا دارومدار ہوتا ہے۔ یہی وہ پہلی درسگاہ ہے کہ جس کا
دیا ہوا سبق انسان خواہ لڑکا ہو یا لڑکی زندگی میں کبھی نہیں بھلا پاتا۔
ماں وہ درسگاہ ہے کہ جس میں پڑھنے کیلئےAdmission نہیں لینا پڑتا۔ جس میں "
مار نہیں پیار" کا بورڈ آویزاں نہیں کرنا پڑتا۔ جس میں تعلیم، تربیت ،
یونیفارم نیز طعام اور قیام سب کچھ مفت دیا جاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى
الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ
يُمَجِّسَانِهِ.
میرے نبی صلے اللہ تعالے علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ فطرت
اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین یا تو اس کو یہودی بنا دیتے ہیں
یا نصرانی یامجوسی۔
یہ ہے اصل قیمتی درس جو انسان کوصرف ماں باپ کی طرف سے ملتا ہے۔ اس حدیث
پاک پرغور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ انسان کی ذات پر دائمی اثرانداز ہونے
والے عوامل میں سے پہلا عامل ماں ہے۔اور یہی ماں انسان کے لئے اس کے بچپن
سے ہی جنت اور جہنم کا راستہ متعین کر دیتی ہے۔ جب بھی لفظ "ماں" بولا جاتا
ہے تو عام تصور جو ذہنوں میں ابھرتا ہے وہ ایک بوڑھی ، لاغر اور ناتواں ماں
کا ہے جس کو بیٹے یا بیٹی کی ہمدردیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر آج میں آپ کو
ایک ایسی ماں سے ملواتا ہوں جو عام متصورہ ماں سے جدا ہے۔ اور وہ ہے 20
سالہ ماں کہ جس کو ابھی خود زمانہ فہمی نہیں آئی، جو ابھی کائنات کے خدوخال
کو سمجھنا شروع کر ہی رہی ہے، اور ابھی اس جہان ہفت رنگ کے نشیب و فراز کو
سمجھنے سے قاصر ہے۔جس کو ابھی تک یہ نہیں پتا کہ مجھے کس، کس سے پردہ کرنا
ہے اور کس کس سے نہیں، جو ابھی ٹھیک سے یہی نہیں جانتی کہ کن لوگوں کے اس
پر کیا کیا حقوق ہیں ، اور کن لوگوں پر اس کے کونسے فرائض ہیں۔ جس کو ابھی
تک وضو، غسل اور نماز جیسے ابتدائی مسائل کا بہت مشکل سے علم ہے، جو حیض،
نفاس اور استحاضہ کے مسائل اور احکام سے کلی طور پر ناآشنا ہے۔ جس کو یہ تک
نہیں پتا کہ کونسی نماز کا وقت کب سے شروع ہو کر کب ختم ہوتا ہے؟ وہ ماں
بننے کے بعد بچے کو (اگر اس كو ناپسند نه هو تو) بسا اوقات اپني ذات پر ايك
اضافي بوجھ تصور کرتی ہے، اور اس کو کسی آیا، ماسی کے سپرد کر دیا جاتا
ہے۔جبکہ یہی ماں اپنی قیمتی اشیاء (جيولري وغيره) اس ٓيا كی سپرد نهيں کرتی
مگر اپنا بچہ جس کے ایمان کی حفاظت کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی ہے وہ اس کے
حوالے کر دیتی ہے۔ اور بہت سی مائیں اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتیں، نہ جانے
کیسے ان بچوں سے وفا کی امید رکھی جا سکتی ہے۔اندازہ لگائیے کہ کہ وہ ایک
ایسی درسگاہ کی مطلق العنان ٹیچر بنا دی گئی ہے کہ جس کے پڑھائے ہوئے سبق
سے انسان نے نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کا بھی سفر کرنا ہے۔کیا یہ اہم درسگاہ
کسی ناتجربہ کار ٹیچر کے حوالے کردینے کے لائق ہے؟ وہ ماں جس کو اپنی عزت
کی حفاظت کا احساس نہیں ہے وہ اپنے بچے کے عقیدے کی حفاظت کا کیا بندوبست
کرے گی؟ جس ماں کو یہ نہیں سمجھایا گیا کہ یہ درندہ جو تمہیں گھور رہا ہے
تیری عزت کا دشمن ہے، تیری ناموس کا مخالف ہے، وہ کیا اپنی بیٹی کوحجاب کا
درس دے گی؟ جو ماں خود بے حجاب پارکوں میں گھومتی ہو وہ اپنی بیٹی کو کیسے
کہے گی کہ نقاب میں رہو؟ جس ماں نے چادر اور چاردیواری کی پر امن زندگی کا
ذائقہ ہی نہ چکھا ہو وہ اپنی بیٹی کو کب اور کیسے "بے پردگی کے نقصانات" سے
آگاہ کرے گی؟ اور اندازہ کریں جو ماں اپنی اور اپنی اولاد کی دنیا نہیں
سنوار سکتی وہ آخرت کیسے سدھار سکتی ہے؟
جن سے آنچل ہی دوپٹے کا سنبھالا نہ گیا
ان سے ایماں کی حفاظت کا تصور کیسا؟؟؟ |
|