ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر

ہمارے وزیرِ داخلہ کمال کے آدمی ہیں۔جب سے سیاست میں آئے ہیں ہر بار اپنے زورِ بازو پہ اپنے حلقے سے منتخب ہوتے ہیں بلکہ اب کی بار تو وہ اسی زورِ بازو کی بناء پہ اپنی گائے بھی جتوا کے پنجاب اسمبلی میں لے گئے۔گائے کی جیت سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ان کی جیت ان کی اپنی ہوتی ہے اس میں پارٹی کا کوئی زیادہ عمل دخل نہیں۔یہ الگ بات کہ اس جیت میں چوہدری صاحب کی مقبولیت سے زیادہ تحریکِ انصاف کے امیدوار کی ناتجربہ کاری کا دخل تھا۔بہرحال اس جیت سے چوہدری صاحب اپنا موقف ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔جو ان کی طرزِ سیاست سے واقف ہیں ان کے لئے یہی بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ وہ جیت کیسے جاتے ہیں۔ مجال ہے جو جیتنے کے بعد وہ حلقے کے کسی شخص سے ملاقات کریں۔بس کچھ وچولے ہیں جو ان کا سارا کاروبارِ سیاست سنبھالتے ہیں۔یہ موضوع بذات خود ایک کتاب کامتقاضی ہے۔آج تو ہمیں ان کی وزیراعظم سے ناراضگی اور پھر راضی نامے پہ کچھ کہنا ہے کہ صفِ اول کے اساتذہ اس پہ لکھ چکے اب کوئی مصرع اٹھانے والا بھی تو ہو۔

چوہدری صاحب جنرل ضیا ء کے غیر جماعتی الیکشن کے راستے سیاست میں وارد ہوئے۔اب سب سے زیادہ الیکشن جیتنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔چوہدری صاحب اپنی قیادت کے نفسِ ناطقہ ہیں نہیں لیکن یہ انہی کا کمال ہے کہ اس کے باوجود مسلم لیگ نون کی ہر حکومت میں انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر سمجھا جاتا ہے۔جس طرح وہ حلقے میں کسی عام و خاص کو گھاس نہیں ڈالتے اسی طرح وہ پارٹی میں بھی کسی کو نہ خاطر میں لاتے ہیں نہ گھاس ڈالتے ہیں۔ساری خدائی ایک طرف ہو پھر بھی جورو کے بھائی ایک طرف ہوتے ہیں۔یہ ایسے صاحبِ فن ہیں کہ ابھی تک انہوں نے سارے کشمیریوں کو بھی آگے لگا رکھا ہے۔بھائی صاحب کی شہہ پہ اب کی بار انہوں نے پر پرزے نکالنا شروع کئے تھے کہ چوہدری صاحب تحریکِ انصاف کے عمران خان کو اپنی مدد کے لئے بلا لائے۔مجبوراََ شہباز صاحب کو پنڈی آکے چوہدری صاحب کو لاہور لے جانا پڑا۔ رائے ونڈ میں وزیر اعظم کو چوہدری نثار کی طبیعت بحال کرنے کے لئے سکھوں کے لطیفے سنا ناپڑے۔ماننا پڑے گا کہ چوہدری صاحب کھلاڑی اچھے ہیں۔اپنے پتے کھیلنا جانتے ہیں۔چھوٹے موٹے خواجوں کو ابھی ان کا پاسنگ بننے کے لئے بھی ایک مدت اور بہت سے اسباق لینے پڑیں گے۔

اس قصے میں خطرہ صرف ایک بات کا ہے جس کی وضاحت کے لئے میرے پاس دو لطیفے ہیں ایک تو وہی اس بدتمیز گھوڑے والاجس نے دوا کھاتے ہوئے پہلے پھونک مار کے اپنی دوا مالک کو کھانے پہ مجبور کیا تھا اوردوسرا جہلم کی اس مائی والا جس کا بیٹا جنگِ عظیم پہ گیا تو اس نے اس کا احوال اپنی سہیلی کو یوں سنایاکہ بہنا سنا ہے کہ کوئی ہٹلر ہے جو بڑا سخت مزاج ہے اور کڑوا میرا گل خان بھی بہت ہے اب خدا خیر کرے۔مصیبت یہ ہے کہ چوہدری نثار اور انہیں سکھوں کے لطیفے سنا کے راضی کرنے والے وزیر اعظم نواز شریف دونوں ہی انتہاء کے زود رنج اور کینہ توز ہیں۔نواز شریف گو اتنی جلدی خفا نہیں ہوتے اور ہو جائیں تو پھر ان کے مزاج میں سمجھوتہ تو ہے معافی نہیں۔چوہدری نثار اور شیخ رشید کی نوکری اکٹھے ہی خراب ہوئی تھی۔شیخ رشید سے چونکہ سمجھوتے کی ضرورت نہیں تھی اس لئے اسے اس کے اپنے شہر میں نواز شریف نے نشانِ عبرت بنا دیا۔چوہدری صاحب کے والدِ محترم بریگیڈیئر اور بھائی لیفٹینٹ جنرل تھے اس لئے وہ ابھی تک برداشت کئے جا رہے ہیں۔شہباز شریف اور عمران خان چوہدری صاحب کے سروائیول کی دوسری بڑی وجوہات ہیں۔یہ مجبوری کا تعلق ہے جس دن جبر کا موسم بیتا ہر دو اپنا وار کرنے میں کسر نہیں چھوڑیں گے۔نواز شریف اگر معاف کر سکتے ہوتے تو مشرف کو معاف نہ کر دیتے۔معاملہ قانون کی سر بلندی کا نہیں انا کا ہے اور اس قدر کہ نواز شریف اپنی انا کی تسکین کے لئے اپنی حکومت تک کو داؤ پہ لگا دینے کے لئے تیار تھے۔

مسلم لیگ نواز سیاسی پارٹی نہیں لمٹیڈ کمپنی ہے۔اس میں قیادت کے لئے شریف ہونا ،کشمیری ہونا یا گوالمنڈی کا ہونا ضروری ہے۔لاہور کی گوالمنڈی کا کہیں شیخ رشید کوئی امید نہ باندھ لیں۔ایسے میں چوہدری نثار کا پارٹی میں اپنا دبدبہ قائم رکھنا کمالِ فن نہیں تو اور کیا ہے۔اس کی انہیں داد ملنی چاہئیے۔یہاں تک تو ہمارے سینئر دوستوں نے بھی لکھا آئیے ہم تھوڑا آگے چلتے ہیں۔چوہدری صاحب جس مزاج کے ہیں اس میں انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔چوہدری صاحب نے وزارتیں بھی دیکھ لیں حتیٰ کہ ڈپٹی وزیر اعظم کے بلے بھی لوٹ لئے۔اب ان کی نظر پنجاب کی وزارتِ علیاء پہ ہے۔اگلی بار اگر موقع بنا تو شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔بجا طور پہ ان کے صاحبزادے حمزہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے جن کی ابھی سے بحیثیتِ وزیر اعلی تربیت کی جا رہی ہے۔یہاں پہلی بار چوہدری نثار اور ان کے دوست شہباز شریف کا جوڑ پڑے گا اور اس وقت نواز شریف کے پاس پورا موقع ہوگا کہ وہ اپنی ہوم گورنمنٹ کو پوری طرح خوش کر سکیں۔چوہدری صاحب کا تام جھام اور وزن جس قدر ہے میرے خیال میں عمران خان سمیت کوئی اور انہیں ایک لمحے کو برداشت نہیں کر سکتا۔یہ شریفوں ہی کا دل گردہ کہہ لیں یا حوصلہ کہ وہ چوہدری صاحب کو اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی سکھوں کے لطیفے سنا سکتے ہیں۔عمران کو ایک تو یہ لطیفے آتے نہیں دوسرا اس کے تو خود اکثر بارہ بجے رہتے ہیں وہ اتنا حوصلہ کہاں سے لائے گا۔چوہدری صاحب نے اگر سیاست کرنی ہے تو ان کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے روئیے میں تبدیلی لائیں اور انسانوں کو انسان سمجھنا شروع کریں ورنہ جس دن ان کا اور حمزہ شہباز کا پنجاب کی وزارتِ علیاء پہ جوڑ پڑا وہ ان کی سیاست کا آخری دن ہو گا۔ ویسے چوہدری صاحب بھی کم استاد نہیں اس طرح کے کسی لمحے سے نپٹنے کے لئے انہوں نے پہلے ہی امریکہ میں جگاڑ لگا رکھی ہے۔

زود رنج اور کینہ توز کبھی سکھی نہیں رہتا۔چوہدری صاحب اور ان کے جبریہ قائد دونوں کو اپنی ان خامیوں پہ قابو پا کے لوگوں کو معاف کرنے کی عادت ڈالنی چائیے اس سے انسان بہت سکھی رہتا ہے۔اﷲ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے جناب!
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268405 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More

Abhi Na Jao Chor Kar - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Abhi Na Jao Chor Kar and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Abhi Na Jao Chor Kar.