تحقیقی مجلہ ’الماس‘ اور شاہ عبداللطیف یونی ورسٹی خیر پور
(Abdul Karim, Muzaffarabad)
’الماس‘ شاہ عبداللطیف بھٹائی
یونی ورسٹی خیرپور سندھ کا تحقیقی مجلہ ہے جس کے مدیر پروفیسر ڈاکٹر محمد
یوسف خشک ہیں۔زیر بحث مجلہ چودھواں شمارہ ہے ۔ہمارے ملک میں اردو اور اس سے
متعلقہ اداروں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے یا ہم خود جو رویہ اپنائے
ہوئے ہیں،ان حالات میں یہ غنیمت ہے کہ اردو مراکز سے دور بیٹھ کر اس قدر
یکسوئی سے اردو کی خدمت کی جائے۔شمارے کے قلمی معاونین کا تعلق تقریباً
ساری اردو دنیا سے ہے۔ان میں پاکستان سے لے کر کشمیر اور ہندوستان سے لے کر
بنگلہ دیش تک کے مقالہ نگار شامل ہیں تو سات سمندر پار برطانیہ، چڑھتے سورج
کی سرزمین جاپان اور نازیوں کے وطن میں بیٹھے سکالرز کی تحریریں بھی شامل
ہیں۔کل ۳۸ قلمی معاونین ہیں جن میں سے ۱۶ خواتین ہیں جو بہرحال ایک معقول
تعداد ہے۔اکثریت جامعات سے متعلق ہے۔مقالات کے موضوعات متنوع ہیں۔’منٹو اور
اس کے فن ‘ پر تین مقالات ہیں۔ایک مقالہ پاکستان کے کہنہ مشق افسانہ نگار
ڈاکٹر رشید امجد کا ہے جو معروف محقق اور نقاد بھی ہیں اور پروفیسر بھی
ہیں۔انھوں نے اپنے مقالے ’منٹو کا فنی شعور‘ میں منٹو کے ان افسانوں پر بحث
کی ہے جن پر مقدمات قائم ہوئے۔یعنی ’دھواں ، ٹھنڈا گوشت ، کالی شلوار ،
کھول دو اور اوپر نیچے اور درمیان ‘ ۔منٹو نے اور بھی بہت کچھ لکھا اور
کمال کا لکھا۔اس میں اس کے افسانے ،مضامین، ڈرامے،خطوط اور خاکے شامل ہیں
لیکن جانے کیوں یار لوگوں کو صرف اس کے جنسی افسانوں سے دلچسپی ہے۔جناب ان
سے آگے بڑھیے اور ان چیزوں پر بات کیجے جو غیرمتنازعہ ہیں۔
منٹو کے ان پانچ افسانوں سے تو چڑچڑاپن،اکھڑا ہوا لہجہ اور روایات سے بغاوت
ہی سامنے آتی ہے اور کوئی اچھی تصویر سامنے نہیں آتی۔تاہم اس کے افسانے
ٹیٹوال کا کتا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسی تخلیقات کو سامنے لائیں ۔وہ بڑا
فنکار تھا لیکن بلانوشی نے اسے توازن کی حالت میں نہیں رہنے دیا۔تاہم رشید
امجد جیسے بڑے فنکار کو منٹو میں سے صرف جنسیت نہیں تلاش کرنی چاہیے۔نوجوان
سکالر کامران عباس کا تجزیہ درست ہے کہ ’منٹو کے مضامین اپنے عصر کی
ترجمانی کرتے ہیں اور یہ اپنے افسانوں سے کم نہیں۔بطور ایک سماجی حقیقت
نگار کے ان کے مضامین ان کے افسانوں کی تفہیم میں مدد دیتے ہیں‘۔منٹو
افسانے کی طرح مضمون نگاری کی فنی باریکیوں سے واقف تھا اور کاظمی کا یہ
تجزیہ بھی درست ہے کہ ’منٹو نہ صرف دوسروں کی کجیوں اور خامیوں پر گرفت
کرتے ہیں بلکہ اپنی کمزوریوں کامضحکہ بھی اڑاتے ہیں‘۔ڈاکٹر محمد کیومرثی نے
’تدریس افسانہ:نیا تناظر‘ میں درست امور کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے کہ
’تدریس افسانہ کے لیے ترجمہ کے فن کو جاننا ، تقابلی ادب کا مطالعہ ، سماج،
افسانے اور تدریسی اسباق کو کتابی شکل میں پیش کرنا ،اردو افسانے کے طالب
علم کو جدید حوالوں سے روشناس کروانا اور انٹرنٹ کا استعمال لازمی امور
ہیں‘۔اس کے علاوہ طلبہ کو تنقیدی اور تحقیقی شعور دینا بھی ضروری ہے۔
ڈاکٹر حفصہ نسرین نے ’علامہ راشدالخیری :محض مصور غم‘ میں مصور غم کی شخصیت
کے بعض پہلوؤں کا مطالعہ پیش کیا ہے۔تاہم انھوں نے ان کے والد اور چچا
دونوں کا ایک ہی نام ’عبدالماجد‘ تحریر کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ان کا یہ
کہنا کہ ’راشدالخیری سرسید تحریک کے پروردہ تھے‘ تشریح طلب ہی نہیں ،تحقیق
طلب بھی ہے۔وہ اگر اردو کا پہلا افسانہ نگار ہے تو اس کے پہلے افسانے اور
پریم چند و سجاد حیدر کے پہلے پہلے افسانے کے تقابل کی ضرورت ہے۔یہ تحقیق
طلب ہے۔ڈاکٹر روش ندیم نے ’ہندوستان اور یورپ میں نوآبادیات کا تاریخی پس
منظر‘ پرمقالہ قلمبند کیا ہے۔حوالے بہت طویل اور مخصوص ہیں۔یعنی مبارک علی،
سبط حسن اور مبشر حسن ۔ان کا یہ فرمانا درست نہیں کہ’آج برصغیر پاک و ہند
کا شعر وادب ، تاریخ ، ثقافت ، سماجی اور سیاسی صورت حال نوآبادیاتی اور پس
نوآبادیاتی منظر نامے کی تفہیم کے بغیر ممکن نہیں‘۔یہ نوآبادیاتی
ذہنیت،نوآبادیات اور پس نوآبادیات پرانی اصطلاحات نہیں اور ان کو استعمال
بھی ایک مخصوص سوچ کا حامل سکالر ہی کرتا ہے۔ڈاکٹر خلیل طوقآر نے
’ہندی۔اردو تنازعہ میں انگریز حکام ،فورٹ ولیم کالج اور جان گلکرسٹ صاحب کا
کیا رول تھا؟‘خوبصورت تحقیقی مضمون تحریر کیا ہے۔ہر معاملے میں سامراج
،انگریز اور نوآبادیات کا حوالہ لے آنا ایک بیمار ذہن کی علامت ہے۔ہم خود
کیا کم عیار تھے؟ہندو پہلے ہی طے کرچکے تھے کہ اب بس۔مسلمانی بھاشا کو
برداشت نہیں کرنا۔
ویسے بھی جمہوریت کے اصول کے تحت Majority is authority تھی اور طاقت کا
سرچشمہ اب ہندو عوام تھی۔کیا آج کے ہندوستان میں اردو کی بیچارگی اور
پاکستان میں کسمپرسی یہ ثابت نہیں کرتے کہ اس میں صرف انگریز حکمرانوں کا
قصور نہ تھا۔خلیل طوقآر کا یہ کہنا درست ہے کہ ’تاریخی جھگڑوں اور لڑائیوں
سے کچھ نہیں ملتا۔اردو بولیں،اردو کی ترقی اور ترویج کے لیے کوشاں رہیں اور
سب سے اہم اپنی اولاد کو اردو سکھائیں۔یہ تمام ترسازشوں کا علاج ہے‘۔ہم
دوسروں کو کیا سازشی کہیں گے خود ہمارے ملک میں سول اور ملٹری بیوروکریسی
عدلیہ کے ساتھ مل کر اردو کے نفاذ کے راستے میں حائل ہے۔کس سے منصفی چاہیں
ہم۔انھوں نے مقالے کے آخر میں جو حوالے ویے ہیں ان کو میں یہاں ضرور درج
کروں گا۔our superiority over them is not due to sharpness of
intellect,but to that higher moral nature to which we have attained in
the development of human race.
دنیا میں پاکستانی تارکین وطن کے بارے میں کہے گئے ریمارکس اور ملک کے اندر
زباں زدعام یہ جملہ’ہمارا بگاڑ اخلاقی ہے‘کو سامنے رکھ کر اس انگریزی حوالہ
پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور عبرت پکڑنے کی بھی۔ڈاکٹر صوفیہ یوسف نے اپنے
مختصر مقالے ’تہذیبی تنوع:مسائل و امکانات‘ سے درست نتائج اخذ کیے ہیں کہ
’قانون فطرت سے الجھنے کے بجائے اسے اپنی طاقت بنا لیں یعنی ملک میں بسنے
والی تمام اقوام ،ان کی زبانوں اور کلچرز کو قومی کلچر اور زبانیں قرار دیا
جائے اور انھیں ترقی کے مساوی مواقع فراہم کریں تو یہ ثقافتی تنوع ہماری
طاقت میں بدل جائے گا‘۔جب سب بھانت بھانت کی بولی بولنے لگیں گے تو ڈاکٹر
صاحبہ اردو کا کیا بنے گا۔یہ فارمولہ تو ماروی میمن کا ہے کم ازکم کسی محقق
کو تو اسے اس انداز میں حمایت فراہم نہیں کرنی چاہیے۔ہم باقی زبانوں کے
مخالف نہیں لیکن باقی زبانوں کے ادب کو ایک معیاری ادب کی سطح تک لانے کے
لیے آپ کو مزید عشروں چاہیے جبکہ اردو کے نفاذ میں صرف نیت حائل ہے۔اردو
یکہ و تنہا پنجابی،پشتو اور سندھی کا مقابلہ کیسے کرے گی۔اس لیے خدارا
لسانیت کو اس ملک کے اندر وہ اودھم نہ مچانے دیں جو مشرقی پاکستان میں
بنگلہ نے مچایا۔
ڈاکٹر صائمہ ارم نے ’ڈپٹی نذیر احمد کے ناول اور ذات پات کا مسئلہ‘سے جو
نتیجہ اخذ کیا وہ تو درست ہے لیکن ان کے مقالے کا عنوان ’ڈپٹی نذیر احمد کے
ناول اور طبقات کا مسئلہ‘ ہونا چاہیے۔ان کا اخذ کردہ نتیجہ دیکھیے’۔۔۔آ جا
کے ایک ہی چارہ کہ ان طبقات کو جدید تعلیم ،جو مفید بھی ہے اور جس کا اجراء
خود ڈپٹی صاحب کے حق میں بھی ہے، کا پرچار کریں اور مسلمانوں کے طبقہ
اشرافیہ کو متوسط طبقے میں بالائی درجہ دلانے میں حسب مقدور مددگار ثابت
ہوں‘۔ڈاکٹر مزمل بھٹی کا مقالہ ’فتح محمد ملک بطور اقبال شناس‘ ایک اچھا
مقالہ ہو سکتا تھا اگر ڈاکٹر صاحب کہیں بھی ملک صاحب سے اختلاف کرتے نظر
آتے۔ملک صاحب ماضی کے ممتاز ترقی پسند اور حال کے صوفی مت کے پرچارک
ہیں۔علامہ اقبال کی وفات کو ۶۸ نہیں ۷۶ سال گزر چکے۔شاید یہ مقالہ آٹھ سال
پہلے لکھا گیا تھا۔آپ نے ’فکر اقبال‘ اور ’شعر اقبال‘ کو اقبال کی فکر کو
سمجھنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔کبھی شورش کاشمیری کی کتاب’اقبالی مجرم‘
کو بھی ملاحظہ کر لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان دونوں حضرات نے فکر اقبال
کو کس کس انداز میں ڈھانے کی کوشش کی ہے۔
ملک صاحب اسلامیات کے سکالر نہیں ،اس لیے اسلام سے متعلق ان کے ’فرمودات‘
ان کی ذاتی آراء ہیں۔آپ بھاشن دیتے ہیں کہ ’اقبال کا ہم عصر ملاْ اسلام کے
لیے ننگ و عار تھا‘ اور ’علامہ اقبال پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اﷲ کو
رجعت پسندی کہتے ہیں‘ :حوالہ بھی ضروری تھا اس بھاشن کا۔انتظار حسین کے اس
فرمان کی مذمت کی جانی چاہیے کہ ’ہم پاکستان کو دوسرے ملکوں کی طرح ایک ملک
اور پاکستانی قوم کو دوسری قوموں کی طرح ایک قوم کہتے ہیں‘۔یہی تو سیکولر
ازم ہے تو کیا ضرورت تھی پاکستان کی کیا ہندوستان ٹھیک نہیں تھا۔اسی لیے
موصوف بھاگے بھاگے ہندوستان پہنچتے ہیں اور ان کے افسانے بھی دیومالا کے
اثر سے کبھی نہیں نکلتے۔اگر اقبال کے عہد کی دنیائے اسلام کی ثقافت ملوکیت
کی پروردہ ہے تو آج دنیائے اسلام کی ثقافت مغرب کی پروردہ ہے:ہماری اپنی
ثقافت کہاں ہے؟پروفیسر نکلسن ڈاکٹر نہیں تھے۔’سوویت یونین اقبال کو سند
عظمت سے نواز رہی ہے‘:یہ کب ہوا؟ملک صاحب کے اس بیان سے اختلاف کی گنجایش
موجود ہے کہ ’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اجتہاد اور ختم نبوت کے باب میں
اقبال کی انقلابی فکر کو رد کردینے کے بعد بحیثیت مفکر اسلام اقبال کی کیا
اہمیت رہتی ہے‘؟ اقبال کے اجتہاد کو اس دور کے علماء نے پسند نہیں کیا اور
اقبال کے خطبات کو بھی پسندیدگی کی سند عطا نہیں کی۔شاید اسی لیے اقبال نے
خطبات انگریزی میں تحریر کیے۔یہ بھی ملک صاحب کا خیال ہی ہے کہ ’قیام
پاکستان کے بعداقبال زندہ ہوتے تو سب دستور اجتہاد کی راہ اپناتے ہوئے
جداگانہ کے بجائے مخلوط انتخاب کی حکمت عملی اپنا لیتے‘۔ملک صاحب کے اندر
کا سیکولر سکالر کہیں نہ کہیں باہر آ ہی جاتا ہے اور اسے موجودہ صوفی روک
نہیں پاتا۔
بنگلہ دیش سے ڈاکٹر محمد محمود الاسلام کا ’جوش اور نذرل کی شاعری میں
انقلابی شعور‘ خوب صورت مقالہ لگا۔اس طرح کے مقالوں کا ہر دو جانب سے لکھا
جانا اور اردو اور بنگالی کے تخلیق کاروں کا تقابل دونوں ممالک اور ان کی
عوام کے لیے سودمند ثابت ہوگا۔اشتراکات کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر سعدیہ طاہر کا
مقالہ ’دنیائے اسلام میں طنزومزاح کا تعارف اور تجزیہ‘ تحقیقی سے زیادہ
توصیفی لگا۔ویسے خوجی کا کردار بھی سرشار کا اپنا نہیں لگتابلکہ ڈان کوزٹ
کا چربہ ہی لگتا ہے۔تاہم یہ ایک منفرد اور دلچسپ کردار ہے۔وزیر آغا کا یہ
تجزیہ کمال کا ہے کہ ’ریختی اخلاقی قدروں کے خلاف ایک درعمل تھا‘۔ویسے ہی
جیسے آج Gays اور Lesbions تحریک کے پیروکار۔تاہم ان کا یہ کہنا درست نہیں
کہ ’اکبر کے طنز کی اساس اس انسانی جبلت پر استوار ہے جو ہر اجنبی شے کو
نشانہ تمسخر بناتی ہے چاہے وہ سود مند ہو کہ ضرررساں‘۔اکبر مغربی تہذیب کے
ضرررساں پہلوؤں کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ان کے خطوط کو بھی سامنے رکھیں۔
ویسے عظیم بیگ چغتائی کا ’بدحواس شوہر‘’زن مرید‘ ہر دور میں پایا جاتا
ہے۔اور پڑھی لکھی ،معاشی طورپر خودمختار اور خوب صورت بیویوں کے ہاں زیادہ
پایا جاتا ہے۔وزیرآغا کی اس بات سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے کہ ’نفسیاتی
لحاظ سے دیکھا جائے تو مرد عورت کے تسلط سے آزاد رہنے کی فکر دوام میں
مبتلا ہے‘۔شاید وہ مغربی سماج کی بات کررہے ہیں،ہمارے ہاں تو عورت مرد کی
طفیلی ہے چاہے وہ بیٹی ہو،بیوی یا ماں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کئی بار تحریر کیا
ہے کہ’وزیر آغا کے اس بیان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا‘۔جانے وہ کیوں
’اختلاف‘ نہیں کرتیں۔کیا یہ بھی کمزور کی سائیکی نہیں۔ڈاکٹر وزیر آغا نے
اپنی کتاب کے آخری باب میں مزاحیہ کالم نگاروں کے فن کا مطالعہ کرکے ان کے
اسلوب کی شگفتہ کاری کو ادبی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ان کے نام اگر
مقالہ نگار دے دیتیں تو بہتر ہوتا۔یہ پہلو تشنہ ہے۔
میں نے کچھ مقالات کا مطالعہ پیش کیا ہے۔امید ہے کہ باقی مقالات پر کوئی
اور ادب کا طالب علم قلم اٹھائے گا۔مجلے کی کتابت اور پرنٹنگ کا معیار اچھا
ہے اور املا کی غلطیاں بھی کم ہیں۔حوالہ جات کا انداز ایک جیسا نہیں۔ان کو
ایک جیسا ہونا چاہیے ۔اردو کے اس دور تنزل میں اس قدر خوب صورت اور معیاری
انداز میں ایک تحقیقی مجلہ پیش کرنے پر مدیر اور ان کی ٹیم مبارک باد کی
مستحق ہے اور ان کی صلاحیتوں میں برکت کے لیے دعاگو ہوں۔ |
|