اک ادھورا خواب،سونامی اور انقلاب۔۔۔۔سکینڈلائز پارٹیاں
(Mumtaz Amir Ranjha, Rawalpindi)
موجودہ الیکشن سے پہلے بھی
پاکستان میں بارہار الیکشن ہوئے،ہر بار الیکشن میں دھاندلی کا ڈھنڈورا
رہا،ہم مانتے ہیں کہ دھاندلی ہوتی رہی ہوگی اس بار بھی ہوئی ہو گی لیکن اس
کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حکومت اور عوام کے الیکشن پر خرچ ہونے والے بیش
بہا پیسے کو حکومت فارغ کرنے کے بہانے ضائع کر دیا جائے۔دھاندلی کا شور
شرابا کرنے والوں نے ہمارے سامنے دھاندلی کرائی جس کا الیکشن کے فوراً بعد
کے ایک کالم میں احقر نے تذکرہ بھی کیا۔الیکشنوں اور رزلٹ پر اثراندازہونے
کے لئے تحریک انصاف نے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کئے اس کا احقر سے زیادہ
کون جانتا ہے۔جس کو ثبوت کی ضرورت ہو ضرور رابطہ کرے۔تحریک انصاف کی سونامی
ہو یا قادری گروپ کا جعلی انقلاب ہو سب ڈرامے ہیں۔تحریک انصاف کے لئے بہت
ضروری ہے کہ جہاں جہاں انہیں عوامی مینڈیٹ ملا ہے وہاں اپنی اہلیت ثابت
کریں اور ملک و قوم کی خدمت کر کے دکھائیں۔خیبر پختوانخواہ جہاں تحریک
انصاف کو اپنا انصاف دکھانے کا بھرپور موقع ملا ہے وہاں محض ’’بڑھکیں‘‘
دکھائی دیتی ہیں حالانکہ عوام کے کوئی ’’کام‘‘ نظر آنا چاہیئے۔قادری صاحب
کو نجانے سال میں ایک آدھ بار پاکستان کی یاد کی ستاتی ہے یہاں آکر دھرنے
اور عوام کو مرنے کے لئے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔لوگوں کو دین و دنیا کی باتیں
بتانے والے مولانا عوام کو گمراہ کرنے کا بیٹرہ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ان کی
ہر تحریک محض ن لیگ کے خلاف ہوتی ہے۔اگر یہ اتنے ہی ’’نیک نام ‘‘ ہیں تو
مشرف کے خلاف کیوں نہیں جاگے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا انہوں نے کیا بگاڑ لیا؟
ن لیگ میں فرشتے نہیں انسان ہیں لیکن پھر بھی سب سے بہتر ہیں۔ اس کا دعوی
ہی نہیں، ثبوت ہے ہمارے پاس۔ن لیگ نے اپنی پارٹی میں موجود کرپٹ اور نااہل
افراد کو ہمیشہ اپنی ٹیم سے الگ رکھنے کو ترجیح دی۔ن لیگ نے ہر دور میں ملک
کو ترقی کی زیادہ منزلیں عطا کیں۔اب ذراحکومت مخالفین پارٹیوں اور افراد کا
اندرونی ایکسرے سن لیں یاد رہے یہ کنٹروورشل اشیاء کئی اخبارات،انٹرنیٹ اور
میڈیا کی رپورٹس سے لی گئی ہیں۔
شیخ رشید صاحب کو دیکھ لیں ان کی ٹانگہ پارٹی محض وزارت اور صوبائی سیٹ
لینے کے کسی اور جد وجہد میں نظر نہیں آتی۔ان کا بھی خواب ہے کہ وزارت
ریلوے پاس ہو یا وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی منہ میں سگار ہو اور بس اس کے
دھوئیں میں پانچ سال گزار کے عوام کو خالی باتوں پر ٹرخا کے چلے
جائیں۔انہیں جب بھی پاور ملی لڑکیوں میں مکس ہونے والی محفلوں اور مشرف جس
نے اپنے غیر آئینی دور میں چوہدری برادران کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اب
جعلی انقلاب کے لئے مصروف عمل ہیں۔وہ بھی شیخ رشید جیسے پاکستانی لوٹوں کی
خریدو فروخت میں بڑھ چڑھ کر بولی لگا رہے ہیں تاکہ کسی بہانے سے ’’میاں
صاحبان‘‘ جائیں اور ان کے وارے نیارے ہو جائیں۔شیخ رشید کو ٹی وی اینکر
پرسن مایا خان کے ساتھ ’’ڈیٹ‘‘ تو یاد ہوگی۔شیخ رشید صاحب ہی فرماتے ہیں کہ
’’پہلے گناہ کرو تاکہ توبہ کر سکو‘‘۔شٰخ رشید صاحب پر انجمن،ریما،فریال
گوہر،مایا خان اوردلشاد بیگم پر ڈورے ڈالنے کے الزامات سب کے سامنے
ہیں۔ایسا بندہ ملک قوم کی خدمت کیا کرے گا جو عملی زندگی میں کنٹروورشل ہو۔
عمران خان کا جلسہ دیکھ لیں محض نوجوان نسل کا ویکنڈ نظر آ تا ہے۔نوجوان
لڑکوں اور لڑکیوں کی ڈیٹ لگنے کے ملک میں اس کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہونے
والے۔تحریک انصاف کے کئی جلسوں کو ملک ریاض نے سپورٹ کیا،عائلہ ملک کی وجہ
سے تحریک انصاف اور عمران خان کی فیملی میں دراڑیں پڑیں،تحریک انصاف کے
یوسف ایوب نے سی اینڈ ڈبیلو کے کئی ٹینڈرز اپنی مرضی سے کئے اور ڈھیروں
کمیشن لیا،اگست 2012میں تحریک انصاف کے یوسف ودہ شراب او ر لڑکیوں کے گھٹ
جوڑمیں پکڑا گیا،عمران خان موصوف بارہا لڑکیوں سے میک اپ کروا کر جلسوں میں
تشریف لائے،عمران خان خان کئی بار پیسے لینے ملک سے باہر گئے۔ہارون الرشید
سمیت کئی کالم نویسوں اور لکھاریوں کو پی ٹی آئی نے اپنی پے رول پر
لیا۔ہارون الرشید جن کے کالم کا آغاز ماشاء اﷲ قرآنی آیات کے ترجمے سے شروع
ہوتا ہے لیکن اختتام پر عمران خان ہی ان کا کیپٹن ہوتا ہے۔فیس بک سمیت کئی
سوشل ویب سائٹس پر بغیر کسی لاجک کے پروپیگنڈہ بازی کرنا ان کے پیروکاروں
کا شیوہ ہے گویا یہ نام نہاد سونامی بھی ایک روایتی پارٹی ہے جو نئے
پاکستان کے نام پر عوام کا بیٹرہ غرق کرنے کو تیار ہے۔
کینیڈاکے حسن میں مقیم جناب طاہر القادری صاحب بھی کافی پہنچی ہوئی ہستی
ہیں۔پاکستان میں امامت کے بعد عالم اسلام میں مولانا بننے والے اب پاکستان
کے خلیفہ بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں،ان کے بقول اب بھی وہ تمام افواج
پاکستان اور پولیس کے سردار ہیں۔مولانا کی یاداشت کے لئے انٹرنیٹ لنکس لگا
دیتے ہیں۔سب سے پہلے رومانیہ کے قومی دن کے موقع پر رومانیہ کی فرسٹ
سکیریٹری سے ہاتھ ملاتے ہوئے:یہ تصویر دیکھ کر دل کہتا ہے کہ مولانا صاحب
سے کہیں ملک نہیں ایمان بچاؤ صاحب:
https://www.awamipolitics.com/tahir-ul-qadri-scandal-sparks-on-social-media-10677.html
اس کے بعدمولانا صاحب ایک انسان سے سجدہ لیتے ہوئے:
https://www.pakpolitical.com/2011/11/man-doing-sajda-to-tahir-ul-qadri.html
یہاں دیکھ کے قادری صاحب خدانخواستہ پادری لگتے ہیں کیونکہ پادری صاحب کے
سامنے گھٹنہ ٹیکے بیٹھے ہیں:
https://tune.pk/video/31735/another-false-propaganda-against-dr-tahir-ul-qadri-exposed
ایک اور لنک جس میں قادری صاحب کو کرنل قذاقی کی طرح خواتین گارڈ رکھنے کا
شوق بھی نمایاں ہے۔اس ویڈیو میں قادری صاحب کے دائیں بائیں دوشیزائیں گارڈ
کے طور پر دکھائی دیتی ہیں۔
https://justscandals.com/female-guards-of-dr-tahir-ul-qadri-reminds-the-guards-of-muammar-al-gaddafi.html/
ہم کے سامنے لاہور میں جو افراد مارے گئے ان کو اشتعال دلانے کے الزامات
میں قادری صاحب کا نام ہی نمایاں ہے اگرچہ اس واقعہ میں پنجاب پولیس سے بھی
کوتاہی ہوئی ہے۔
الطاف حسین نے کراچی فتح کرنے کے لئے کبھی کو ئی کسرنہیں چھوڑی۔قائد تحریک
کے قائد ہمیشہ ملک سے باہر رہ کر کراچی اور سندھ میں آگ لگانے اور بجھانے
کے ماہر فرد سمجھے،مانے اور جانے جاتے ہیں۔ایم کیو ایم نے ہمیشہ اپنے
مفادات کی سیاست کی ہے۔الطاف حسین کے ذاتی گارڈ فرید خان نے ایک انٹرویو
میں الطاف حسین کے بارے میں دو تین تہلکہ خیز باتیں کی تھیں ۔فرید خان کے
بقول الطاف حسین نے ایک بار کہا تھا کہ ’’میرا بس چلے جمعہ اور عیدین کی
نمازوں پر ہی پابندی لگا دوں‘‘۔علاوہ ازیں اسی گارڈ نے اسی انٹرویو میں کئی
اور ایسی باتیں کیں کہ جن کا ذکر کرکے ہماری اپنی جان کو خطرہ ہو سکتا
ہے۔یاد رہے یہ انٹریو متین فاروقی نے لیا اور چھاپا تھا۔حید ر عباس رضوی کی
ایک خاتون کے ساتھ واہ حیات تصویریں ہمارے سمیت کئی افراد نے انٹرنیٹ پر
دیکھی ہونگی۔بابر غوری نے اپنی وزارت کے دور میں کھربوں کی کرپشن
کی۔پٹھانوں اور پنجابیوں کے خلاف بولنے والی جماعت بھلا عوامی جماعت کیسے
ہو سکتی ہے؟کئی بار الطاف حسین صاحب نے اذان کے دوران خطاب کیا اور خواتین
سر سے دوپٹے ہٹا کر ڈانس کرتی رہیں۔
چوہدری صاحبان کے کرتوت سب نے مشرف دور میں جی بھر کے دیکھ لئے ہیں۔لہٰذا
یہ نام نہاد خدمت گار عوام کو بھلا کیا دیں گے؟قارئین جنہوں نے احقر کا
پچھلا کالم پرھا ہے ان کو یاد رہے یہ کالم اسی تسلسل میں لکھا گیا ہے۔اب
فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ سونامی لانی ہے،انقلاب لانا ہے یا عوامی پیسے پر
منتخب شدہ حکومت کو پانچ سال دیکر ترقی کے نئے باب رقم کرنے ہیں۔ |
|