روزہ ،مذاہب عالم اور اس کی روحانی اہمیت

الحمد ﷲ ، خداوند کریم کے فضل و کرم ،حضورعلیہ الصلوۃو السلام کی رحمت اور اﷲ کے دوستوں کی نسبت سے ماہِ رمضان ایک بار پھر اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے ۔ روزہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ دوسرے مذاہب کے لیٔے بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے ۔ جیسا کہ اﷲ رب العزت نے قرآن پاک کی سورہ البقرہ میں فرمایا کہ
ترجمہ :ا ے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لو گوں پر فرض کئے گئے۔ تا کہ تم تقویٰ اختیار کر لو- البقرہ 183

مذاہب عالم میں روزے کی اہمیت یا اس کا روحانی پہلو جاننے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ ؟

اﷲ رب العزت نے انسان کو دنیا میں کیوں بھیجا ہے۔ ؟

خداوند کریم فرماتے ہیں کہ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اس کی پہچان، یعنی اﷲ کا عرفان ہے۔سوال یہ ہے کہ اﷲ رب العزت کا عرفان کیسے حاصل ہو۔ اس حوالے سے حضور علیہ الصلوۃو السلام کا فرمان ہے۔َ
مَن عَرَفَ نفس فقد عرف ربہ
ترجمہ :جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا ، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

یہ حدیث واضح کر رہی ہے کہ بندہ اپنی حقیقت جان لے تو قدم بقدم چل کر اﷲ رب العزت کو پہچان لیتا ہے۔ آدم علیہ السلام اور ان کے بعد جتنے بھی پیغمر،رسول یا انبیاء کرام آئے انہوں نے خدا وند کریم کو جاننے اور پہچاننے کے کئی طریقے بتائے ۔ ان طریقوں میں مختلف پیغمبران کرام نے اﷲ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرنے کے لئے صوم یعنی روزے کا طریقہ بھی متعا رف کروایا۔ تقریباََ تمام مذاہب میں اﷲ کے رسول ، خداوند کریم کے قرب کیلئے روزہ رکھنے کی ہدایت کرتے رہے ہیں۔ قارئین !انبیاء کرام کا سلسلہ حضور نبی اکرم ﷺپر اختتام پذیر ہو چکا ۔انبیا کی تعلیمات کے وارث اور مبلغ اولیاء کرام ہیں ۔ ولی اﷲ کا دوست ہوتا ہے اوردوست کا دوست بھی دوست ہوتا ۔اﷲ رب العزت کے دوستوں کی قربت ،ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ، خدا وندکریم کی قربت عطا کر دیتے ہیں۔ بندہ جب اﷲ کے دوستوں کی نگرانی میں علوم حاصل کرتا ہے۔ تو وہ اپنے اندر رب رحیم و کریم کے نائب کی صلاحیتیں بیدار کر لیتا ہے،اور ہمہ وقت اﷲ کے قریب ہوجاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جو ارشاد فرمایا ہے کہ
ترجمہ :ا ے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لو گوں پر فرض کئے گئے۔ تا کہ تم تقویٰ اختیار کر لو- البقرہ 183

تو اس کا مطلب ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ بندوں کو حکم دے رہے ہیں کہ میرے تک یعنی اﷲ تک پہنچنے کی جستجو کرو ، خدا وند کریم تک پہنچنے کا ذوق اپنے اندر پیدا کرلو۔اور اس آیت میں یہ بھی واضح ہے کہ باقی تمام مذاہب میں بھی روزہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
مثلاَ انجیل مقدس۔۔۔۔ میں خداوند کریم فرماتے ہیں
'' کیا تم اس کو روزے کا دن کہو گے ، جو کہ خداوند کو شادمان کرتا ہے۔؟
میں تمہیں بتانا چاہونگا کہ میں کس طرح کا روزہ پسند کرتا ہوں۔۔۔۔؟

مجھے ایک ایسا دن چاہیے جب لوگوں کو ان کے بوجھ سے نجات ملے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھوکے لوگوں کے ساتھ اپنے کھانے کی چیزیں بانٹو ۔میں چاہتا ہوں، کہ تم ایسے غریب لوگوں کو ڈھونڈو ، جن کے پاس گھر نہیں ہے ، اور میری خواہش یہ ہے کہ تم انہیں اپنے گھروں میں لے آؤ۔

اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری روشنی صبح کی روشنی کی مانند چمکنے لگے گی۔ تب تم خداوند کو پکارو گے تو وہ کہے گا۔
'' میں یہاں ہوں ''۔ باب '' یاسایا'' ــــــ ------ انجیل مقدس

اسی طرح سے توریت کے مطابق موسیٰ علیہ السلام پر خدا وند کریم نے اپنے احکامات نازل کرنے کے لئے ، انہیں چالیس دنروزے رکھنے کو کہا۔ چالیس دن روزے رکھنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ایسی صلاحیت پیدا ہو گئی ، جس کے بعد انہیں اﷲ نے اپنے احکامات لوحِ خداوندی کی شکل میں عطا فرمائے۔
'' اور موسیٰ علیہ السلام نے پھر پورے کئے چالیس دن کے روزے ، اس کے بعد خداوند نے نوازیانہیں اپنی طرف سے خاص احکام بصورت لوح۔"'

اسی طرح سے باب یو حنا میں تحریر ہے، کہ '' جب حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے نافرمانی کی تو ان پر اﷲ کا عذاب آ پہنچا ،پھر لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اور لوگوں نے مل کر روزے رکھے تاکہ وہ اپنی فریاد اﷲ تک پہنچا سکیں ـ ''۔
" نینوا کے لوگوں نے یوحنا کی پیشین گوئی کے مطابق با لآ خر خداوند کریم کے عذاب سے بچنے کے لئے روزے رکھے ( تاکہ اپنی آہ و پکار اس تک پہنچا سکیں۔ ) "" باب یوحنا 7؛3
ہندوؤں کی مقدس کتاب رِگ وید کے مطابق برت یا روزے میں پوجا انسان کو جسمانی پابندیوں سے آزادی عطا کرتی ہے اور انسان کو بھگوان کا درشن عطا کرتی ہے ۔
''' برت انسان میں آٹھ خصوصیات پیدا کرتا ہے ۔""
جزوی بھوک، تیرتھ یا روحانی سفر ، پوجا ، منترا کا جاپ ، دعا اور ہوون کی پابندی اور درشن۔ (رگ وید)
غرض اسلام سے پہلے زمانوں میں خالق کائنات سے متعا رف ہونے کے لئے اور رب کریم کی پہچان کے لئے ،اس تک قدم بقدم پہنچنے کی مشق کسی نہ کسی صورت موجود تھی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں روزہ ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ جن میں روزہ ایک اہم عبادت ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھوک پیاس سے شروع ہونے والا سفر آخر کس طرح روح کی پہچان کرواتا ہے۔ اور قدم بقدم چلا کر کیسے اﷲ سے ملا دیتا ہے۔
حدیث ِ قدسی ہے
الصوم لی و انا اجزی بہ
" رو زہ میرے لئے ہے ،اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔"
اس حدیث کا مفہوم جاننے کے لئے ہمیں تخلیق یا پیدائش کے فارمولے کو جاننا پڑے گا۔ سورۃ الذریت میں اﷲ پاک فرماتے ہیں
ترجمہـ '' اور ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے بنایا تاکہ تم ( ان مصنوعات سے توحید کو )سمجھو ''

اس قا نون کے مطابق اﷲ پاک نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا۔ جیسے زندگی اور موت۔ زندگی ہوتی ہے تو اس کا دوسرا رخ موت ہے۔ اس بات پر غور کریں کہ جب تک زندگی نہیں ہو گی موت نہیں ہو گی۔ یعنی ایک رخ ظاہر ہوتا ہے تو دوسرا رخ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ یہ دونوں رخ ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ جب ایک رخ ظاہر ہوگا تو دوسرا رخ اس کے پیچھے چھپا ہوا ہوگا۔ اسی طرح ہمارا مشا ہدہ ہے کہ دن ہوتا ہے تو اس کا دوسرا رخ رات ہوتی ہے۔جب رات ہوتی ہے تو اس کا دوسرا رخ یعنی دن غائب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب بھوک لگتی ہے تو اﷲ کے قانون کے مطابق کھا نا موجود ہوتا ہے۔ جب پیاس لگتی ہے تو اس کا دوسرا رخ پانی موجود ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زندگی ،موت ، دن ،رات، بھوک اورکھانا کس قانون کے تحت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ہم ان کو جدا جدا نہیں کر سکتے۔

عصر حاضر کے عظیم روحانی سا ئنس دان اورباطنی علوم کے ماہر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں ۔
'' کائنات میں ہر چیز دو رخوں پر مشتمل ہے۔ جب ایک رخ موجود ہوتا ہے ،تو دوسرا غائب ہو جاتا ہے۔ جو رخ موجود ہوتا ہے وہ دوسرے رخ کے لئے خلا یعنی جگہ پیدا کرتا ہے ،اور وہ خلادوسرے رخ کواپنی طرف کھینچتا ہے۔ جیسے رات کاخلا ہے ،تو وہ دن کو کھینچتا ہے، پھر دن کا خلا رات کو کھینچتا ہے۔ اس طرح رات اور دن ہمارے سامنے آتے جاتے رہتے ہیں۔ "
اس بات کی وضاحت قرآن پاک میں اس طرح کی گئی ہے۔
ترجمہ: اﷲ تعالٰی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔

یعنی قانون یہ بنا کہ جب ہمارے اندر کسی کام کو کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ، تواس کام کی تکمیل کے لیٔے ہم مادی وسائل اور جسم کو حرکت میں لاتے ہیں۔ اور اپنی منزل یا مقصد کے لئے کوشش کرتے ہوئے اس کام کو مکمل کر لیتے ہیں۔جب ہم خواہش کرتے ہیں ، تو ہمارے اندر کوئی خیال آتا ہے ، اس خیال یا ارادے کی تکمیل کے لئے ایک مکمل طریقہ کار موجود ہوتا ہے۔ہر خیال کی ایک ایس او پی یعنی مقررہ طریقہ کار ہوتا ہے۔اور ہر خیال کے تکمیل کے لئے بھی ایک خاص طریقہ ہوتا ہے ، جس میں کو شش بھی شامل ہوتی ہے۔اپنی مشہور زمانہ تصنیف ''قلندر شعور '' میں حضر ت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے لکھا ہے '' اگر کوشش میں کمی ہو گی تو مقصد پورا نہیں ہو گا۔ " کوشش کے خلا کو پورا کرنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہمارے اندرکسی کام کو انجام تک پہنچانے کی نیت ہوتی ہے ، پھر ارادے میں پختگی ہوتی ہے پھر ہم اپنے بہترین ذہنی صلاحیتوں کو اکھٹا کر کے اس کام کے لئے جت جاتے ہیں، مسلسل کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اس طریقہ کار یا آداب میں جتنی پابندی ہو گی،کوشش جتنی پرخلوص ہوگی بندہ اتنا ہی اپنے مقصد کے نزدیک ہوتا جائے گا۔یعنی اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے بندہ جتنا با ادب ہو گا ، اسی حساب سے وہ اتنا ہی بانصیب ہوتا چلا جائے گا۔

رمضان المبارک کے پروگرام پر جب ہم غور کرتے ہیں ، تو اس حدیث کے مطابق روزے کا حاصل اﷲ تعالیٰ خود ہیں۔ قانون کے مطابق جب بندہ اﷲ کے قرب کی خواہش کرتا ہے ، اور روزے کا پروگرام پورے آداب کے ساتھ مکمل کرتا ہے ، تو اس کو قربِ خداوندی عطا ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ اسے اﷲ کی تجلی کا دیدار ہو جاتا ہے۔

قربِ خداوندی کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے بندہ جسمانی طور پر کوشش کرتا چلا جاتا ہے۔ روزے کے تمام تر آداب کو پورا کرتا ہے تو یہ تمام آداب ایک ایسے خلا کو جنم دیتے ہیں جو روزے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ اپنی انتہا پر پہنچ کر اس خلا میں اتنی زیادہ کشش یا طا قت پیدا ہو جاتی ہے ، کہ انسان کے ظاہری حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔جب بندہ روزے کی سر گرمیوں پر عمل کرتا ہے ، تو اس کی مادی سر گرمیوں میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب مادی سرگرمیوں میں کمی ہوتی ہے، تو دنیاوی معاملات میں بھی کمی ہوتی چلی جاتی ہے۔ جسمانی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے جسمانی حرکات بھی آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں یا معطل ہو جاتی ہیں۔ ان سر گرمیوں کی کمی یا معطل ہونے کی وجہ سے بندے کے ظاہری حواس کی نفی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جب جسمانی حواس کی نفی ہوتی ہے تو بندے پرنیند کی سی کیفیت طاری ہونا شروع ہو جاتی ہے۔عموماَ اس حالت میں یا یہ صلاحیت پیدا ہونے کی وجہ سے ہم سو جاتے ہیں۔ جس سے روزے کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے ، یا کم ہو جاتی ہے۔اگر ہم روزے کے پروگرام کے مطابق نیند اور کھانے پینے میں کمی کے ساتھ ساتھ قران کی تلاوت اور عبادت کی پابندی کے ساتھ ساتھ اﷲ رب العزت کا ذکر خشوع و خضوع کے ساتھ جاری رکھیں ، تو قربِ الٰہی کی خواہش 20 ویں روزے تک اتنی بڑھ جاتی ہے ، کہ روحانی حواس بیدار ہونے لگتے ہیں۔یعنی وہ ایسے خلا کو جنم دیتی ہے کہ وہ روحانی حواس کو اپنے اندر کھینچ لیتی ہے۔ اور جیسے ہی روحانی حواس کھلتے ہیں ، روحانی نگا ہ بیدار ہو جاتی ہے۔ یعنی جسمانی نگاہ بند ہوئی تو روحانی نگاہ بیدار ہو ئی ۔ایک چیز چھْپی تو دوسری چیز سامنے آ گئی۔ جسمانی صلاحیتیں سو گئیں تو روحانی صلاحیتیں بیدار ہوگئیں۔جیسے ہی یہ صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں ، تو اﷲ کے قانون کے مطابق جیسا کہ سورہ القدر میں اﷲ نے فرمایا کہ
''' اس میں فرشتے اور روح القدس ہر کام کے انتظام کے لئے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ ''
تو اس قانون کے مطابق بندے کی روح القدس اور فرشتوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ اور جب بندہ ملائکہ اور روح القدس سے ملاقات کر لیتا ہے ،تو وہ اﷲ کی تجلیوں سے سر شار ہو جاتا ہے۔ یعنی اﷲ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ تب انسان اﷲ رب الکریم کے قرب میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ اس قرب کے اثرات روزہ دار کے پورے جسم کے اوپر مرتب ہوتے ہیں ۔ رمضان کے بعد جب لوگ عید مناتے ہیں۔ تو وہ ایک دوسرے سے مصافحہ اورمعانقہ کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ایسے افراد جن کے اندر اﷲ تعالیٰ کی تجلی کے انوارات موجود ہوتے ہیں ، جو خدا وند کریم کے رنگ میں رنگے ہوتے ہیں،جب وہ آپ سے مصافحہ کرتے ہیں تو آپ کے اندر بھی وہی سرشاری، وہی خوشی منتقل ہو جاتی ہے۔ اور یہی سر شاری پروردگار کی طرف سے اس کی جزا ہے۔
'' خداوندِ کریم ہم سب کو رمضان کے پروگرام کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کی سعادت عطا فرمائیں۔ہمیں یہ شرف عطا ہو کہ ہم بھی انعام یافتہ لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔۔۔۔ آمین
 

Khawaja Muhammad Kaleem
About the Author: Khawaja Muhammad Kaleem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.