عشق و محبت میں بندہ پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ بندہ
اپنا گھر بار چھوڑ کر محبوب کے در پر چند پردوں میں دنیا ومافیہا سے بے خبر
،اپنے محبوب کے ساتھ راز ونیاز میں مشغول ہوتا ہے۔اور بندہ صرف اپنا گھر
بار نہیں چھوڑتا بلکہ اپنے اعزاء واقرباء،اہل وعیال،رشتہ دار اور تمام دوست
واحباب کو چھوڑ جاتا ہے۔گویا کہ بزبان حال یہ کہتا ہے کہ
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
اعتکاف کی تعریف:۔
اﷲ تعالی کی رضا کے باعث کسی ایسی شرعی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹہرنا جس
میں باقاعدہ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو۔
شرائط اعتکاف:۔
(۱)جس مسجد میں اعتکاف کیا جائے اس میں پانچ وقتی نماز باجماعت ہوتی ہو۔
(۲)اعتکاف کی نیت سے ٹہرنا۔
(۳)حیض،نفاس اور جنابت سے پاک ہونا۔
(۴)روزہ سے ہونا۔
(۵)مسلمان ہونا۔
(۶)عاقل وبالغ ہونا،نابالغ مگر سمجھدار اور عورت کا اعتکاف درست ہے۔(علم
الفقہ،حصہ سوم،صفحہ۶۴)
اعتکاف کی اقسام:۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
(۱)اعتکاف واجب:۔
یہ وہ اعتکاف ہوتا ہے جس میں بندہ نے نذر مانی ہو کہ اگر میرا فلاں کام
ہوگیا تو میں اتنے اتنے دن اعتکاف کرو ں گا،جتنے دن اعتکاف کی نذر مانی ہو
اتنے دن کا اعتکاف کرے گا مگر ہاں اعتکاف کے ساتھ روزہ بھی ضرور رکھے
گاکیونکہ روزہ صحت اعتکاف کی شرائط میں سے ہے۔
(۲)اعتکاف سنت:۔
یہ وہ اعتکاف ہے کہ جو عام طور پر رمضان کریم کے آخری عشرے میں ہوتا
ہے۔کیونکہ حضور ﷺنے ہر رمضان میں یہ اعتکاف کیا ہے تو اس وجہ سے یہ سنت
موکدہ کفائی ہے اگر پورے محلہ میں سے ایک یا چند نے بھی اعتکاف کر لیا تو
سب کاذمہ ساقط ہو جائے گا ورنہ سب پر اس کا وبال(گناہ)ہوگا۔
(۳)اعتکاف مستحب:۔
یہ وہ اعتکاف ہے کہ جس کے لیے کوئی وقت اور اندازہ مقرر نہیں ہے بلکہ جتنا
وقت بھی مسجد میں ٹہرے تو اعتکاف ہوگا اگر چہ تھوڑی دیر کے لیے ہی کیوں نہ
ہو ،بلکہ افضل تو یہ ہے کہ آدمی مسجد میں داخل ہوتے ہی اعتکاف کی نیت کر
لیں تو نماز اور نفل وغیرہ کے ثواب کے ساتھ ساتھ اعتکاف کا ثواب پاتا رہے
گا ۔(بہشتی زیور بحوالہ شامی،جلد۲،صفحہ۱۷۷)
اعتکاف مسنون کا وقت:۔
اعتکاف مسنون کاوقت ۲۰ رمضان المبارک کو غروب آفتاب سے قبل اعتکاف کی نیت
سے شرعی مسجد میں بیٹھنے سے شروع ہوتا ہے اور شوال کا چاند نظرآنے تک رہتا
ہے۔۲۹رمضان کو عید کا چاند نظر آئے یا ۳۰ رمضان کو آفتاب غروب ہو جائے تو
مسنون اعتکاف ختم ہو جاتا ہے پھر معتکف مسجد سے نکل سکتا ہے۔(ماہنامہ
العصر)
اعتکاف کی سب سے افضل جگہ:۔
سب سے افضل وہ اعتکاف ہے جو مسجد حرام میں کیا جائے،پھر مسجد نبویﷺ کا مقام
ہے،پھر بیت المقدس کااور اس کے بعد اس جامع مسجد کا درجہ ہے جس میں جمعہ کی
جماعت کا انتظام ہواگر جامع مسجد میں جماعت کا انتظام نہ ہو تو پھر محلے کی
مسجد بہتر ہے جس میں پانچ وقت نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو۔
عورتوں کو اپنے گھر کی مسجد( یعنی جس جگہ نماز پڑھتی ہو)اعتکاف کرنا بہتر
ہے ورنہ کسی کمرے میں اپنے لیے جگہ مختص کر دیں۔(علم الفقہ،حصہ سوم،صفحہ۴۶)
اعتکاف کی حکمت اور فائدے:۔
اعتکاف میں حکم شرعی ہونے کی وجہ سے جس قدر فائدے اور حکمتیں ہو کم ہیں مگر
یہاں مختصراًچند فائدے اور حکمتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
(۱)شیطان انسان کا قدیمی دشمن ہے لیکن جب انسان خداکے گھر میں ہے تو گویا
مضبوط قلعے میں ہے اب شیطان اس کا کچھ بگاڑ نہ سکے گا ۔
(۲)لوگوں کے ملنے جلنے اور کاروبار کی مشغولیتوں میں جو انسان سے چھوٹے
موٹے بہت سے گناہ ہو جاتے ہیں بندہ اعتکاف میں ان سے محفوظ رہتا ہے۔
(۳)جب تک آدمی اعتکاف میں رہتا ہے اسے عبادت کا ثواب ملتا رہتا ہے خواہ وہ
خاموش بیٹھا رہے ،یا سوتا رہے،یا اپنے کسی کام میں مشغول رہے۔
(۴)اعتکاف کرنے والا ہرہر منٹ عبادت میں ہوتا ہے تو شب قدر حاصل کرنے کا
بھی اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کیونکہ جب بھی شب قدر آئے گی تو معتکف بہر
حال عبادت میں ہوگا۔(بحولہ مشکوٰۃ شریف،جلد۱،صفحہ۱۸۶)
فضائل اعتکاف:۔
اعتکاف کی فضیلت واہمیت کے لیے صرف یہ بھی کافی ہے کہ حضورﷺ نے ہجرت کے بعد
پوری عمر مداومت اور اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف
کیا۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں ہمیشہ اعتکاف
فرمایاکرتے تھے۔یہاں تک کہ اﷲ نے انہیں اپنے پاس بلالیاپھر آپ ﷺ کی ازواج
مطہراتؓ اعتکاف کا اہتمام کرتی تھیں۔(متفق علیہ)
مسنون اعتکاف کی ایک بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ معتکف لیلۃ القدر کی فضیلت
بآسانی پالیتا ہے کیونکہ اکثر روایات کے مطابق لیلۃ القدر مضان کے آخری
عشرہ کی طاق راتوں میں ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے کہ رمضان کے آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش
کرو(الصحیح البخاری)
مقصد اعتکاف:۔
اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ آدمی بارگاہ ایزدی کی چوکھٹ پر اپنا سر رکھ کر
سرور اور خوشی کا مینار دیکھتا رہتا ہے ،زبان کو اسی کے ذکر سے تر رکھتا
ہے،کہ بندہ سب کوچھوڑ کر بارگاہ عالی میں حاضر ہوا ہے ۔اے رحیم مولا!ہمیں
معاف فرما کہ جب تک تومعاف نہیں کرے گا تیرے در سے کہیں نہ جاؤں گا تو اس
سے سخت سے سخت دل بھی نرم ہوجاتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ تو ہماری مغفرت کے لیے
بہانے ڈھونڈتے ہیں بلکہ
تو وہ داتا ہے کہ دینے کے لیے
در تیری رحمت کے ہیں ہردم کھلے
خدا کی دین کا موسیٰ سے پو چھے احوال
کہ آگ لینے کو جائے پیمبری مل جائے
اس لیے جب کوئی شخص اﷲ کے دروازے پر دنیا سے منقطع ہو کر جا پڑے تو اسکے
نوازے جانے میں کیا تامل ہوسکتا ہے۔
اے اﷲ ہماری مغفرت فرما اور ہمیں صحیح عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔(آمین) |