رشتوں کے لحاظ سے ایک ”عورت“کے چار روپ ہوتے ہیں:(۱)ماں(۲)بہن(۳)بیٹی
اور(۴)بیوی۔ اسلام نے عورت کو ہرروپ میں عزت وعظمت سے نوازا ہے ۔ عورت اگر
ماں کے روپ میں ہو تو اسلام نے جنت اس کے قدموں میں رکھ دی یعنی ماں کو
راضی رکھنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔رسول کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے:جنت
ماؤں کے قدموں میں ہے۔(جمع الجوامع ،الحدیث:۱۱۱۲۲)۔عورت اگر بہن کے روپ
میں ہوتو اسلام نے اس کی اچھی پرورش کرنے پر جنت کی نوید سنائی ہے۔حضورنبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس کی تین یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کی اچھی پرورش
کرے اور ان کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اس کے لئے جنت ہے ۔(سنن
الترمذی ،الحدیث : ۱۹۲۳)عورت اگر بیٹی کے روپ میں ہوتو اسلام نے اس پر رحم
کرنے اور ان کی کفالت کرنے پر جنت کی خوشخبری دی ہے ، محسنِ انسانیت ﷺ نے
ارشاد فرمایا:جو بیٹیوں پر رحم کرے اور ان کی کفالت کرے اس پر جنت واجب
ہوجاتی ہے۔“(مجمع الزوائد ،الحدیث:۱۳۴۹۱)۔عورت اگر بیوی کے روپ میں
ہوتواسلام نے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کو بہترین اخلاق کا نام دیااور
اچھے اخلاق والے کے لئے جنت ہے ۔ارشادِ رسول ﷺ ہے کہ تم میں سے بہترین
اخلاق والا وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے۔(کنزالعمال،الحدیث:۴۴۹۳۳)اور
جب بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی :زیادہ تر لوگ کس شے کے سبب جنت میں داخل
ہوں گے؟ ارشادفرمایا:حسن اخلاق کے سبب۔(مسند احمد ،الحدیث:۷۹۰۷)
سبحان اللہ !دینِ اسلام نے عورت کو کس قدر عزت اور درجہ عطا فرمایاکہ وہ
کسی بھی روپ میں ہو مرد کے لئے حصول ِجنت کا ذریعہ ہے ۔پھر یہ کہ وہ ہر
حیثیت سے پہلے ایک بیٹی ہوتی ہے اور یہی بیٹی آگے چل کر بیوی اور ماں بنتی
ہے ۔بیٹیوں کو دین اسلام میں’’ اللہ کی رحمت‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔اسلام سے
قبل بیٹی کی پیدائش کو باعث عار وشرمندگی تصور کیا جاتا تھا اور اس عار کو
مٹانے کے لئے بعض لوگ (العیاذباللہ تعالی)اپنی لختِ جگر کواپنے ہی ہاتھوں
سے زندہ درگور کردیتے تھے ۔بیٹیوں کی پیدائش پر غم وغصہ اسی دورجاہلیت کے
ساتھ خاص نہیں بلکہ آج کے پڑھے لکھے معاشرے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو
اس رسم بد کے امین نظر آتے ہیں،جولڑکے کی پیدائش پرخوشی ومسرت کا اظہار
کرنے کے لئے تو تمام ذرائع اختیار کرتے ہیں مگر لڑکی کی پیدائش پران کے
سارے ارمان ٹھنڈے پڑجاتے ہیں اور وہ جوش وخروش نظر نہیں آتا جو لڑکے کی
پیدائش پر ہواکرتا ہے۔بعض بے حس لوگ نومولو دبچی کی ماں کو قسم قسم کے طعنے
دیتے ہیں حتی کہ طلاق تک کی دھمکی بھی دے دی جاتی ہے اور کبھی کبھار زیادہ
بیٹیوں کی پیدائش پر طلاق جیسی ناپسندیدہ شے کو بلاوجہ شرعی عملی جامہ بھی
پہنا دیا جاتا ہے۔ایسے افراد کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کررہے ہیں ؟اپنے قول
وفعل سے اللہ کی رحمت کو خود سے دور کررہے ہیں ۔بجائے شکرادا کرنے کے
ناشکری کے مرتکب ہورہے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی تقسیم پر ناخوش ہیں ۔گویا کہ
اس کے کام پر اعتراض کررہے ہیں ۔ہاں !ہاں !!ایسے افراد تقسیم باری تعالیٰ
سے ناخوش ہیں کیونکہ کسی کو بیٹے دینا اور کسی کو بیٹیاں دینا یہ اللہ
تعالیٰ ہی کا کام ہے ،وہی بیٹے تقسیم فرماتا ہے اور وہی بیٹیاں ۔جب حقیقت
یہ ہے توپھر بیٹی کے ملنے پر رنج وغم کا اظہار کرنا کونسی عقلمند ی ہے ؟ایسے
افراد کو یوں بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا اس کی والدہ کبھی بیٹی نہ تھی اور
اگر وہ نہ ہوتی تو کیا وہ یہ دنیا دیکھ پاتا ۔۔اگر اس کی کوئی بہن ہے تو
کیا وہ اس کے باپ کی بیٹی نہیں ہے؟؟ اور تو اور اس کی بیوی بھی تو پہلے ایک
بیٹی ہی تھی اگر وہ نہ ہوتی تو کیا اس کے شادی کے سپنے شرمند ہ تعبیر
ہوسکتے تھے۔انسان ہزار علم و آگہی حاصل کرلے مگر یہ نہیں جان سکتا کہ اس کے
حق میں کیا بہتر اور کیا بہتر نہیں ہے۔بیٹی یا بیٹا ملنے کا معاملہ بھی اس
سے مختلف نہیں ۔مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کون بیٹی کے لائق
ہے اورکون بیٹے کے قابل اور کس کے حق میں اولاد نہ ہونا ہی بہتر ہے جیساکہ
پارہ ۲۵،سورۃ الشوری کی آیت نمبر ۴۹میں ہے ۔جب حقیقت یہ ہے تو انسان کو
احکم الحاکمین جل جلالہ کے فیصلے پر سرتسلیم خم کردینا چاہے اوربیٹا ہو یا
بیٹی ہر حال میں شکر الہٰی بجالانا چاہیے اور بیٹی کی پیدائش پر ناپسندیدگی
کا اظہار بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
عرب کا وہ معاشرہ جہاں بیٹی کو اپنے لئے باعث عار سمجھا جاتا تھا ایسے
ماحول امام الانبیا،خاتم النبین ﷺ نے بیٹی کووہ عزت وشفقت عطا فرمائی جس کا
کوئی مذہب تصور بھی نہیں کرسکتا ۔اسی سماج میں آپ ﷺنے سرعام یہ اعلان
فرمایا کہ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِيیعنی
فاطمہ میرے جسم کاایکحصہ ہے تو جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھ ناراض
کیا۔(صحیح البخاری،الحدیث:۳۴۳۷)۔یہ جملہ ایک طرف حضرت فاطمہ زھرا رضی اللہ
عنہا کی فضیلت وعظمت کو بیان کررہا تھا تو دوسری طرف بیٹیوں سے نفرت کرنے
والے جاہل کفار کے سامنے کلمہ جہاد بھی تھا۔ایک بار اظہار شفقت کرتے ہوئے
فرمایا:لاتکرھوا البنات، فانی ابوالبنات ،وانھن الغالیات المونسات المجھزات
ترجمہ: بیٹیوں کو ناپسند مت کروکیونکہ میں بھی بیٹیوں والا ہوں اوربے شک یہ
بیٹیاں تو بہت محبت کرنے والیاں ، غمگسار اور بہت زیادہ مہربان ہوتی ہیں ۔(مسند
الفردوس ،الحدیث:۷۵۵۶)اور ایک موقع پر سراپا رحمت ورافتﷺ نے ارشادفرمایا:
جس کی ایک بچی ہو اور وہ اسے زندہدفنائے نہ اسے حقیر جانے اور نہ ہی اس پر
اپنے بیٹے کو ترجیح دے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔
(سنن ابو داؤد،الحدیث:۵۱۴۶)یادرہے کہ آپ ﷺنے بیٹیوں پر صرف زبانی شفقت کا
اظہار نہیں فرمایا بلکہ بنفس نفیس بیٹیوں پر شفقت وہمدردی کرکے بھی دکھائی
ہے ۔چنانچہ،مروی ہے کہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا جب
بارگاہِ رسالت ميں حاضر ہوتيں توحضورنبی مکرمﷺ اپنی لاڈلی بیٹی کا استقبال
کھڑے ہوکرکرتے ،ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ،ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں لے کر
اسےبوسہ ديتے اور انہیں اپنی مسند (بيٹھنے کی جگہ) پر بٹھاتے اور حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے ہاں حضورنبی مکرم ﷺکی تشریف آوری پر ایسا ہی
کیا کرتی تھیں ۔ (سنن ابی داؤد، الحدیث:۵۲۱۷)
غورکیجئے کہ بیٹیوں کے ساتھ بعداز خدا بزرگ اور سیدالانس والجان ﷺکا رویہ
اور حسنِ سلوک کیسا مثالی تھا ۔آپ ﷺنے قیامت تک کے انسانوں کو اپنے عمل
وکردار سے بتادیا کہ بیٹیاں باعث رنج وغم نہیں بلکہ اُنسیت وراحت کا باعث
ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی رحمت ہیں جن کے ساتھ حسنِ سلوک باری تعالیٰ
کی عظیم نعمت ”جنت “تک پہنچا دیتا ہے ۔یہی تعلق ہے ”بیٹی“ اور” جنت“ کا۔ |