چند دِن قبل میں نیٹ پر ایک کتاب
کا مطالعہ کررہا تھا اپنی مزید تشفی اور حوالہ جات کیلئے faizaneattar.net
کھولی کیونکہ مجھے ایک دوست نے بتایا تھا کہ وہاں نایاب کتابوں کا ذخیرہ
موجود ہے مطالعہ سے فارِغ ہونے کے بعد مجھے وہاں ایک سیکشن آسک دی مفتی
صاحب نظر آیا، لہٰذا میں وہاں سوالات اور جوابات پڑھنے میں مشغول ہوگیا
دلچسپ بات یہ تھی کہ آپ ان سوالات کو پڑھ بھی سکتے ہیں اور سُن بھی سکتے
ہیں لہٰذا یہ سلسلہ نہایت انہماک سے جاری رہا
مجھے ان سوالات میں ایک عجیب بات نظر آئی کہ بہت سے سوالات اورل سیکس اور
اینل سیکس سے بھی متعلق تھے جسے لوگ باقاعدہ جائز سمجھ کر مُفتی صاحب سے
بھی سند چاہتے تھے اِس ریکارڈنگ میں مُفتی صاحب نہائت دِلنشین انداز میں
سمجھا رہے تھے کہ بھائی یہ سخت گناہ کی بات ہے اور اِس سے بچنا ہر مُسلمان
پر فرض ہے
اِس طرح کے بیشُمار سوالات تھے جنہیں شائد مفتی صاحب کے سامنے پوچھنے کی
اُن میں ہمت نہ ہوتی بہرحال یہاں نیٹ کی افادیت کا اندازہ ہو ا کہ جن
سوالات کو کسی محدث یا فقیہ سے پوچھنے میں شرم یا جھجک محسوس ہو تو نیٹ پر
وہی سوالات بڑی آسانی سے معلوم کئے جاسکتے ہیں اور اپنی اصلاح کا سامان
پیدا کیا جاسکتا ہے
میں بد گُمانی کو اپنے دِل میں نہیں پالنا چاہتا ہو سکتا ہے اِس گُناہ میں
وہ لاعلمی کی وجہ سے مُبتلا ہوں لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں
اگر بتا بھی دیا جائے کہ بھائی فُلاں عمل گُناہ ہے اور مُسلمان کو تو نفیس
النفس ہونا چاہیے تو کچھ لوگوں کی ایگو اُنہیں خیر کی جانب پیش قدمی سے روک
دیتی ہے اور وہ گُناہ کا بھی جواز پیش کردیتے ہیں میرا ماننا ہے کہ عاجزی
میں بھلائی ہے کہ فرشتے عاجزی کی وجہ سے سُرخرو ہوئے اور شیطان ملعون ہُوا
اپنی تاویلوں تکبر اور غُرور کی وجہ سے یعنی
جو اپنی گردنوں میں عاجزی اور غُلامی کا پٹہ ڈال لیتے ہیں وہ فلاح پا جاتے
ہیں اور جنکی انا اُنکو جھکنے نہیں دیتی وہ ٹوٹ جاتے
ہیں ہلاک ہو جاتے ہیں بَقُول امام احمد رضا (علیہ الرحمتہ)
اِس نِشانی کے جو سَگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پَٹَہ تیرا
لیکن ساتھ ہی اِس بات کا دُکھ بھی کہ ہم آخر جا کہاں رہے ہیں؟ اور اِس طرح
کے معملات میں کس تیزی کیساتھ پھنستے چلے جارہے ہیں اور پھر یہی نہیں ہم یہ
بھی چاہ رہے ہیں کہ کسی طریقے سے دینی رہنما اسے جائز بھی قرار دے دیں تاکہ
ہمارا معاشرہ بھی مادر پدر آزاد ہوجائے اور پھر دھڑلے کیساتھ گناہ کی آزادی
ہو
ان معاملات میں ملوث ہونے میں جہاں غیر ملکی فحاش لٹریچر اور الیکٹرانک
میڈیا کا ہاتھ ہے وہیں والدین بھی برابر کے قصوروار نظر آتے ہیں جنہیں کبھی
اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ اپنے بچوں کو دیکھ سکیں اُنکی صحبت دیکھ سکیں
اُنکے دوستوں کو چیک کرسکیں کہ آیا ہمارے بچے کہیں اُوباش اور آوارہ دوستوں
کی محفل میں تو نہیں جاتے یا انٹرنیٹ پر کسی غلط اور فحاش ویب سائٹ کے تو
گرویدہ نہیں ہیں نہ اُن بچوں کو آداب سِکھائے نہ ہی اپنے اسلاف سے اُنہیں
مُتعارف کرایا نہ ہی صحابہ (رضوانُ اللہِ اجمعین کا عشقِ رسول)صلی اللہ
علیہ وسلم اور نہ ہی مُسلمانوں کی اُولولعزمی کی داستان ہی اُن بچوں کے
کانوں تک پہنچا سکے اب بھی کچھ نہیں بگڑا اگر آج ہم اپنی اصلاح کی ٹھان لیں
اوراحکمُ الحاکمیں سے مدد چاہیں تو ضرور اسے مددگار اور مہربان پائیں گے
اپنی زندگی کو حدود میں رہ کر گُزاریں کہ حدوں سے باہر شیطان مُنتظر ہے کہ
شکار سرحد کو پھلانگے اور میں اُس کو دَبوچ لوں
وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ
اور جو اﷲ کی حدّوں سے آ گے بڑھا بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا
(سورہ الطلاق آیت نمبر ایک کا حصہ ) |