آگ لگ گئی آگ لگ گئی شمع کے گھر
آگ لگی ہوئی تھی فائر بریگیڈ کو فون کیا گیا تھا مگر اسے آتے آتے بھی ٹائم
لگتا تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پانی اور مٹی کی بالٹیوں کی مدد سے گھر پر
ڈالتے رہے مگر بے سودآگ تھی کہ کسی طرح قابو میں ہی نہیں آرہی تھی آگ
بجھاتے بجھاتے شمع اور ان کی بیٹی تھوڑی جل بھی گئیں شمع کے شوہر کیونکہ
دبئی میں پلمبری کا کام کرتے تھے اسی لیے یہ دونوں ماں بیٹیاں اکیلی رہتی
تھیں لوگوں نے ان دونوں کو تو بچا لیا تھا مگر وہ اب اپنے ادھ جلے کپڑوں
سمیت اپنے راکھ ہوتے گھر کو دیکھ رہیں تھیں فاہر بریگیڈ کی گاڑی کو آنے میں
دیر ہوگئی اور ان کا گھر راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا ان کے برے رویے اور لگائی
بجھائی کی عادت اورمذاق اڑانے کی فطرت کی وجہ سے لوگ ان سے کٹتے تھے ایسے
میں آدھی رات کو کون ان کو پناہ دیتا محلے میں کوئی بھی انہیں اپنے گھر لے
جانے پر راضی نہیں تھا ایسے میں ہما نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی اور
چونکہ اس کے پاس ۳ ہی جوڑے کپڑے تھے جس میں سے اک وہ پہنی ہوئے تھی اور لان
کا اک معمولی جوڑا کو وہ گھر میں پہنتی تھی اور پھر وہی گلابی جوڑا تھا اس
نے ان دونوں سے معذرت کے ساتھ وہ دونوں جوڑے دیے کہ ان کے علاوہ اور کوئی
کپڑے میرے پاس نہیں ہیں ان ماں بیٹی کو محظ چند گھنٹے پہلے بولے گئے اپنے
الفاظ یاد آگئے کہ کس طرح انہوں نے کچھ دیر پہلے اس کی تزلیل کی تھی اور اب
اسی لڑکی کی اترن پہننی پڑ رہی ہے انہوں نے ہما سے معافی مانگی ان کی
آنکھیں غم اور ندامت سے جھکی جاتیں تھیں بھیگی انکھوں سے وہ کہہ رہی تھیں
ہم نے ہمارے بڑے بول کی سزا پائی ہے تمھارا تو واقعی اپنا جوڑا تھا یہ اور
ہم نے تو مانگے کے کپڑے پہنے ہیں ہمیں معاف کردو ہمیں معاف کردو ہمیں معاف
کردو
ختم شد |