اک تشنگی سی باقی ہے
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
علی عمران کی بار بار فون کالز آ
رہی تھیں اور میں انجان بنی یوں موبائل کو دیکھ رہی تھی جیسے اس میں کوئی
خاص چیز چھپی ہوئی ہے۔میں جتنا بھی اس سے دور جانا چا ہ رہی تھی وہ اُس قدر
ہی میرے پیچھے لگا ہوا تھا۔آخر کار میرے موبائل پر اس کا نمبر ظاہر ہونا
بند ہوا اور مجھے یوں لگا جیسے ہفت اقلیم حاصل ہوگیا ہو۔پتا نہیں زندگی میں
کچھ لوگ جب تک ساتھ رہتے ہیں ہم اُ ن سے دور نہیں ہونا چاہتے ہیں مگر جب وہ
کسی اور کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں تو ان سے ہمیں بے پنا ہ محبت ہونے
کے باوجود بھی انس برقرار رہتا ہے۔دل بارہا دفعہ اس کیلئے دھڑکتا ہے مگر ہم
بس اپنی ذات میں مگن رہتے ہیں اور زندگی کو جیسے کیسے جینے کی کوشش کرتے
رہتے ہیں۔یوں بھی ہماری زندگی مختصر سی ہوتی ہے ہم ایک دن دکھ درد برداشت
کرتے کرتے اس جہاں فانی سے رخصت ہی ہو جاتے ہیں اور میں جو نام کی مسکان ہی
ہوں بس ایک ایک پل خوشی کے لئے بالخصوص ہوش سنبھالنے کے بعد سے رہی
ہوں۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میں اس دنیا میں بس دوسروں کی خوشیوں کی فراہمی
کا سبب ہی ہوں ، اپنے لئے تو مجھے خوش ہونا ہی نہیں ہے۔میرے زندگی کے حالات
نے مجھے وہ بنا یا ہے جو میں نے شاید کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔مجھے
جو جانتے ہیں وہ بھی پوری طرح سے مجھ سے با خبر نہیں ہوں کہ میں خود کہاں
اپنے آپ سے اتنا واقف ہو پائی ہوں۔
میں بس اتنا جانتی ہوں کہ جب چھوٹی تھی تو میرے لئے ننھی ننھی سی خوشیاں
اہمیت رکھتی تھیں اور میں یوں ہنستے کھیلتے اس عمر میں پہنچ گئی جہاں شعور
آتا ہے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے ۔میں بھی بہت کچھ
کرنا چاہتی تھی ۔میری خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بن کر اپنے خوابوں کی تکمیل
کروں۔وہ خواب جو میں نے سوتے جاگتے دیکھے تھے اور میں پھر یوں پڑھائی میں
جت گئی کہ مجھے آپ اپنی خبر نہیں تھی کہ میں خود کیا ہوں۔وقت گذر رہا تھا
اور میں اپنے خوابوں کی تکمیل کے روز بروز قریب تر جا رہی تھی۔انہی دنوں
مجھے علی عمران کی جانب سے پسندید گی کے اظہار کے پیغامات ملنا شروع ہوئے
اور میں شروع میں گھبرائے گبھرائے ہوئے اپنی والدین کی عزت کا خیال کرتے
ہوئے اس سے چار وناچار دور رہی اور اُسے مستقل نظر انداز کرتی رہی اور اپنی
پڑھائی کی جانب اپنی توجہ مرکوز رکھی۔مگر جناب جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ
پانی اگر پتھر پر بھی گرتا رہے تو وہ بھی آخر ایک دن ٹوٹ جاتا ہے اور پھر
میں تو ایک گوشت پوست کی انسان تھی اور میرا بھی ایک دل تھا ۔یوں رفتہ رفتہ
میں اس کے قریب جانے لگی اور پھر وہ سب ہونے لگا جو ایک روایتی محبت کی
داستانوں میں ہوتا ہے ۔ہمارا آپس میں رابطہ ہونے لگا اور ہم روز بروز ایک
دوسرے کے قریب ہونے لگے اور یوں ہم جو پہلے ایک دوسرے کی قدر جاننے سے
انکار ی تھے۔اب پاس آئے تو ایک پل کی دوری بھی عذاب لگنے لگی تھی ۔اور میں
اپنے پہلے عشق ڈاکٹر ی سے بھی رفتہ رفتہ دور ہونے لگی۔ محبت کے شروع کے
عرصہ میں تو اسکی تمام تر باتیں مجھے جذباتی طور پر متاثر کررہی تھیں مگر
جب آہستہ آہستہ وہ کھلا تو پتا چلا کہ اس کی محبت میں کچھ جنون سا ہے اور
وہ محبوب کو اپنی ملکیت سمجھنے لگا تھا۔مجھ پر اس کی روک ٹوک ذیادہ ہونے
لگی اور میں ذہنی طور پر پریشان رہنے لگی کہ ایسا تو میں نے کبھی سوچا ہی
نہیں تھ اکہ میرے ساتھ یوں محبت میں ہوگا۔
مجھے جنون کی حد تک ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور مجھے اس نے پڑھائی کے حوالے
سے روکا تو مجھے بہت غصہ آیا ،روئی مگر پھر اس کی محبت کی وجہ سے پڑھائی سے
بھی دور ہونے لگی ۔آپ سے اب کیا چھپاؤں عشق کی مار بڑے بڑوں کو سیدھا کر
دیتی ہے اور میں تو یوں بھی معصوم سی تھی اُن دنوں دنیا کی اس قدر خبر نہیں
تھی کہ یہاں لوگ کیسے ہیں اور اپنے مطلب کی خاطر کیا کچھ کر سکتے ہیں۔علی
عمران بھی کچھ ایسا ہی میرے ساتھ کرنے لگا کہ میں چاہت رکھنے کے باوجود اس
سے دور ی پرمجبور ہوتی گئی ۔محبت میں تو محبوب کی خوشنودی کا خیال رکھا
جاتا ہے مگر وہ میرے ہی درپے ہوگیا تھا تو میں اس سے ایک دن چند واقعات کی
بنا پر دور ہو گئی ۔اور وہ میرے پیچھے پڑ گیا اور بار بار مجھے فون کالز
کرنے لگا تھا ابھی جب میں نے یہ کہانی شروع کی ہے تو یہ انہی دنوں کا واقعہ
تھا اور پھر کچھ عرصہ بعد اس کی شادی ہو گئی اور میرے دل پر ایک پتھر سا
لگا میں نے یہ چوٹ کھا لی اور دل کو تسلی دی مگر نادان دل تھا کہ بس اسی کو
پوجنے کی فکر میں تھا۔
علی عمران تو مجھ سے دور ہوہی گیا تھا مگر میرے زندگی کے ابھی کم عمری میں
ہی عذاب کچھ کم نہ ہوئے تھے۔میرے خواب بھی جو کاشان سے محبت کے بیچ میں رہ
گئے تھے تو اس کو پورا کرنے کا سوچا تو میری زندگی نے میرے ساتھ پھر کھیلنا
شروع کردیا تھا۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب اﷲ تعالیٰ ہی تمام تر حالات و
واقعات جانتا ہے اور وہ اس بات سے بھی باخبر ہے کہ انسان کمزور ہے تو وہ اس
کو کیوں طرح طرح کے امتحانات سے گذارتا ہے؟ کیوں وہ کسی کو کسی کے بہت پاس
لا کر پھر اس سے دور کر تاہے؟ جب ہماری پیاس نے ختم ہی نہیں ہونا ہے تو پھر
ہمیں پانی کی جھلک کیوں دکھاتا ہے؟میرے ساتھ بھی زندگی کا یہ پہلو بہت دیر
سے سامنے آیا تھا کہ یہ سب کیوں ہوتا ہے مگر جب ہو رہا تھا تو میں اس حوالے
سے دن رات پریشان رہا کر تی تھی۔میرے خواب بھی اس وقت چکنا چور ہو گئے جب
میں میڈیکل کے شعبہ میں جانے کیلئے رائج انٹری ٹیسٹ بھی پاس نہ کر سکی تھی
۔اس کی بڑی وجہ میری محبت میں مبتلا ہونا بھی تھا۔اس ناکامی پر میرے دوستوں
نے مجھے پھر سے زندگی کی طرف لائے اور پھر ایک نئی کوشش کی طرح توجہ مرکوز
کروائی۔اس بار میں نے ذہن سے سب کچھ ماضی کے واقعات فراموش کرنے کی کوشش
کرکے امتحان دیا اور شومئی قسمت اس دفعہ میں اس امتحان میں پاس تو ہوئی مگر
اس دفعہ زندگی نے عجب کھیل کھیلا کہ میں چند ناگزیز وجوہات کی بنا پر
میڈیکل میں داخلہ نہ لے سکی اور یوں زندگی کے تمام تر تجربات سے گذر کر اب
میں اپنے والدین کی مرضی کے مطابق پڑھائی کو کچھ اپنی دلچسپی اور کچھ دل پر
جبر کرکے اُن کو خوش کرنے کیلئے کر رہی ہوں۔
امید ہے کہ مجھے میرے نصیب کی خوشیاں اگر لکھی ہیں تو میرے چہرے پر بھی
حقیقی مسکان آسکے گی اورمیں زندگی کو بہترین انداز سے گزار سکوں گی۔ فی
الوقت تو یہ لگتا ہے کہ قدرت کو مجھ سے ابھی اور بھی امتحانات لینے ہیں اور
میں دوسروں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی انکے ساتھ نہیں ہوں،بظاہر تو ہنس بول
لیتی ہوں مگر محبت اور ادھورے خواب کی تکلیف ابھی بھی اندر موجود ہے اور اس
پر کبھی کبھار سوچتی ہوں تو الجھ کر رہ جاتی ہوں،سوچتی ہوں کہ کیا اسی
کیلئے میں دنیا میں آئی تھی ؟ کیا ہم اپنی مرضی کی زندگی کو بسر کرنے کے
حقدار نہیں ہیں؟ ہماری زندگی میں بہت سے سوالوں کے جواب ہمیں مل بھی جائیں
تو بھی ہم ان کے جوابات سے نظریں نہیں ملا سکتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ
بالکل گمنامی میں رہ لیں جہاں ہمیں کوئی کچھ کہنے والا نہ ہو؟ مگر یکسر
گمنامی تو دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم اگر مر بھی جائیں تو بھی کوئی نہ
کوئی کبھی نہ کبھی ہماری قبر پرآکر پھول رکھ دے گا اور ہم جہاں کوئی ہمارا
ساتھی نہیں بھی ہوگا تب بھی کوئی ہمیں یاد رکھے گا،یہی زندگی ہے اور میں
ایسی ہی زندگی میں اب خوش ہونا چاہتی ہوں اور خوش ہو کر اب کرنا بھی کیا
ہے؟جب انسان بہت کچھ کھو لیتا ہے تو اس کے پاس مزید کچھ کھونے کو رہ ہی کیا
جاتا ہے؟ میرے لئے زندگی اب بس ایک سفر ہے اور دیکھنا مجھے اب یہ ہے کہ سفر
کا اختتام کب ہونا ہے؟بس ایک تشنگی باقی ہے کہ ایسا نہ ہوا ہوتا تو میں بھی
ایک خوش نصیب ہوتی جس کے خواب پورے ہو جاتے اور میں بھی آج مسکان لئے زندگی
کے روزوشب کو خوش آمدید کہہ رہی ہوتی؟ |
|