وہ بھی اک دورتھایہ بھی اِک دورہے

یہ میراپیدائشی گھرہے ۔یہی وہ مقام ہے جس کادیدارکرنے کےلئے میری آنکھیں ہمیشہ بیتاب رہتی ہیں۔مجھے اصل سکون اسی کچے گھرمیں والدین کی صحبت میں بیٹھنے میں ہی ملتاہے۔اس گھرمیں میرابچپن گذراہے ،میرے بچپن کی یادیں اس گھرسے ہی وابستہ ہیں۔یہی وہ جگہ ہے جس کاخیال آتے ہی ذہن میں بچپن کی یادیںگردش کرنے لگتی ہیں۔ویسے بھی اُس جگہ سے انسان کوالگ طرح کاہی لگاﺅہوتاہے جہاںپراُس انسان کاجنم ہواہو۔ دُنیامیں مجھے کوئی مقام اتنااچھااورپرسکون نہیں لگتاہے جتنامجھے اپناکچا،مٹی کابناہوا،والدین کی سخت محنت اورایمانداری کی کمائی سے تعمیرکیاہواآشیانہ لگتاہے ۔ میرابچپن غالباًگیارہ۔بارہ سال کی عمرتک ہی محدودرہااور تعلیم کی ابتدائی پانچ جماعتیں ہی میں نے اس گھرسے دھنوں کے پرائمری سکول میں جاکرپڑھیں۔میرے والدصاحب بہت ہی محنتی شخص ہیں ۔اُنہوں نے غربت کوبرداشت کیا،مصیبتیں جھیلیں، لوگوں سے وردی،کتابوں ،جوتوں،پنسل اورقلم جیسی بنیادی چیزوں کےلئے اُدھار،قرض بیاض پرمانگ کرمیری تعلیم کوجاری رکھا،پیٹ پرپتھرباندھے ،بھوک سہی مگرکبھی اپنے بچوں کوتعلیم کے نورسے منورہونے میں پریشانیاں نہ آنے دیں۔ والدہ محترمہ نے بھی ہمت اوربہادری کامظاہرہ کیااوروالدصاحب کابھرپورساتھ دیتے ہوئے اُن کی ہمت اورحوصلے میں اضافہ ہی کیا۔گیارہ برس کی عمرتک نابالغ ذہن نے غربت کوقریبی سے دیکھااورمحسوس کیا۔غربت سے نجات کی راہ مجھے کم سنی کی عمرمیں تعلیم ہی نظرآئی ۔والدین اکثرکہتے تھے کہ اگرآپ پڑھوگے توکل کوآپ بھی ایک اچھے انسان بن جاﺅگے اورامیرہوجاﺅگے اورہماری دُعاﺅں کے نتیجے میں بلندیوں کوچھوجاﺅگے۔میں شروع سے ہی سنجیدہ رہاہوں اوراب تک ہوں۔والدین کے اقوال زریں پردماغ پرزوردے کر سوچاکرتاتھا۔میری خوش نصیبی ہی تھی کہ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی اچھے استاد(ماسٹرگلزاراورماسٹرشمیم احمد)بھی نصیب ہوئے جن کی سخت محنت کی وجہ سے دِل اوردِماغ کی طرف مائل ہوااورپڑھائی میں خوب جی لگنے لگا، اورتعلیم کے تئیں جوش وشوق بھی آہستہ آہستہ بڑھتاہی چلاگیا۔پانچویں جماعت پاس کرتے ہی غربت کے خاتمہ اوراعلیٰ تعلیم کے حصول کے خوابوں کوآنکھوں میں سجاکرپسماندہ طبقہ کےلئے سرکارکی جانب سے قائم کردہ ہوسٹل میں داخلہ کی خاطرانٹرنس ٹیسٹ میں حصہ لینے کےلئے جموں شہرکی راہ لی ۔انٹرنس ٹیسٹ میں والدین کی دُعاﺅں کی بدولت کامیابی نصیب ہوئی اوربالآخرمیراداخلہ 1999گوجرہوسٹل جموں میں ہوگیااورمیری شہری زندگی کی ابتداہوگئی۔واضح کرتاچلوں کہ میراآبائی گھرشہرجموں جوکہ ریاست جموں وکشمیرکاسرمائی دارالخلافہ ہے سے تقریباً50 کلومیٹرکی دوری پربلاک بھلوال کے ایک دوردرازگاﺅں ”دھنوں “میں واقع ہے۔اب میری عمر26 سال ہوگئی ہے جس سے صا ف ظاہرہوتاہے کہ میری شہری زندگی کی عمر15سال ہوچکی ہے۔میں نے ان پندرہ برسوں کی شہری زندگی کی وجہ سے بہت کچھ سیکھاہے ۔2006 میں میرا ہوسٹل کاتعلیمی سفرختم ہوا،اس کے بعدسے کمپیوٹرکاڈپلومہ کیا،ایک دوسال کالج میں مالی پریشانیوں کے سبب داخلہ ہی نہ لیامگرہمت نہ ہاری ،مالی حالت بہترہوتے ہی اعلیٰ تعلیم کی اگلی منزلوں کی طرف قدم بڑھائے ۔ساتھ ہی روزگارکی تلاش میں دِن رات ایک کیا،شارٹ ہینڈ،ٹائپنگ اورکمپیوٹرکی تعلیم سیکھنے کاسبب میری غربت اورمالی پریشانیاں ہی تھیں۔بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ غربت ہماری راہ میں رکاوٹ ہے مگرمیں کہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ پہ توکل رکھاجائے توغربت ہی کواللہ تعالیٰ مشکلات کے ازالہ کاذریعہ بنادیتاہے۔آج میں سمجھتاہوں کہ اگرغربت اورپریشانیاں میری راہ میں نہ آتیں تومجھے اتناشعوراورسمجھ نہ ہوتی۔اللہ تعالیٰ نے شعورسے نوازاہے جس کےلئے اس ذات باری تعالیٰ کاجتنابھی شکراداکیاجائے وہ کم ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے انسان کےلئے طرح طرح کی نعمتیں وقف کی ہیں ۔غربت دیکرانسان اپنے بندوں کاامتحان لیتاہے ۔میرے والدین نے غربت اورمشکل حالات میں صبروشکرکادامن نہ چھوڑا،اوراللہ تعالیٰ پریقین کامل رکھا۔ میں نے بھی والدین کے صبروتحمل کودیکھتے ہوئے دِل پہ پتھررکھتے ہوئے ان سے دوری اختیارکی ۔پندرہ برسوں پرمحیط میری شہری زندگی کے دوران زیادہ سے زیادہ 2 یا3 سال ہی کاوقت ہوگا(جوکہ چھٹیاں میں نے گھرمیں گذاری ہوں گی )جو اپنے گھرمیں والدین کیساتھ گذارہ ہے۔دیگر۲۱سال میں نے والدین سے دوری اختیارکیے رکھی اوراب بھی پیشہ وارانہ مصروفیات کے سبب دورہی رہتاہوں مگرمیرے والدین میرے دِل کے بہت قریب بستے ہیں ۔وہ میرے لیے سب کچھ ہیں۔وہ ہیں تومیری دُنیاآبادہے ۔ اُن کے دم سے ہی میری زندگی روشن ہے ،گھرکی مالی پریشانیوں کودورکرنے کےلئے ،میںاپنے بہن بھائیوں کے تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کےلئے ،والدین کی آنکھوں میں خوشیوں کی روشنی جگانے کےلئے ۔بے شک شہری زندگی میں مجھے والدین کی یادتوشدت سے ستاتی رہی ،ستاتی ہے ،ساتھ ہی اپنے گھراوراپنے گاﺅں کی یادنے بھی سخت تڑپایا،مگراپنے مشن پرگامزن رہ کربرداشت کیااورصبروشکرکادامن تھامے رکھا۔آج بھی کئی مرتبہ والدین کہتے ہیں کہ اتوارکوگھرآجاﺅمگرموقرروزنامہ اُڑان میں بطورسب ایڈیٹراہم ذمہ داریاں نبھانے کی سبب بعض دفعہ والدین کے کہنے کے باوجود وقت پرگھرنہیں جاپاتاہوں ۔میرے والدین میری پریشانی سمجھتے ہیں اورفخرکرتے ہیں کہ ان کابیٹااچھاکام کررہاہے ۔جب گھرجاتاہوں توبڑی شاہانہ خاطرتواضع کرتے ہیں۔ دودھ ۔دہی ۔لسی اوردیگرچیزیں مجھے زبردستی کھلائی جاتی ہیں۔میرے والدصاحب کبھی مجھے گھرکاکام کرنے کونہیں کہتے ۔اکثرچھوٹے بھائی والدین سے گلہ کرتے ہیں آپ بڑے بھائی کوکوئی کام نہیں بتاتے اوروہ فارغ رہتے ہیں۔والدین کامیرے تئیں لگاﺅاورپیارانوکھاہے جومیرے لیے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمت ہی ہے۔اورمیرے ذہن میں سوال اُبھرتاہے کہ کون ہے دُنیامیںجومجھے میرے والدین سے زیادہ پیارکرے؟، دُعائیں دے ۔اللہ تعالیٰ سے گڑگڑاکردُعائیں مانگے ۔اکثروالدین میری اوردیگربہن بھائیوں کی کامیابی وکامرانی کےلئے اللہ تعالیٰ کے حضورسربسجودہوکر دُعائیں مانگتے ہیں ۔میں کئی مرتبہ نمازادانہیں کرپاتاہوں مگروالدین کی دعاﺅں کی بدولت ہرجگہ عزت ہی ملتی ہے ۔کئی بارتومیں چھوٹی سی عمرمیں اعلیٰ پایہ کی شخصیات سے دادملنے پرگبھراجاتاہوں اورسوچتاہوں کہ کیامیں ہی دُنیامیں اتناخوش نصیب تونہیں ہوں۔میرے نانوں جان اورنانی صاحبہ بھی میرے لیے بہت دُعائیں کرتے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ میرے والدین اوربزرگوں کی دُعائیں ہی ہیں جومجھ ناچیزکوہرجگہ کامیاب وکامران کرتی ہیں ورنہ میرے اتنے اچھے اعمال نہیں کہ ہرجاسے عزت ہی نصیب ہو۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سربسجودہوکروالدین نے میری عافیت اورسربلندی کےلئے جودُعائیں مانگیں ہیں اورمیرے لیے جومشقتیں جھیلی ہیں ان کاکوئی نعم البدل نہیں ۔اورنہ میں اپنے والدین اوربزرگوں کاکبھی شکراداکرسکتاہوں۔مجھے فخرہوتاہے اپنے والدین پرجومشکل وقت میں میری ہمت بنے رہے ۔ مجھے یقین ہے کہ دُنیامیںمیرے والدین سے بڑھ کراپنی اولادکوپیارکرنے والے والدین بہت کم ہی ہوں گے۔دُنیامیں اگرمیراکوئی آئیڈیل اورمشعل راہ ہے تووہ میرے والدین ہیں ۔مجھے اپنے والدین پرنازہے جن کی سخت محنت اورجفاکشی نے مجھے غلط راستوں سے ہمیشہ دوری اختیارکرنے پرمجبورکیا۔آج سوچتاہوں کہ اگرمیراگھرکچانہ ہوتا، میں غریب اورمزدوروالد کابیٹانہ ہوتاتومیں کیاہوتا، شایدگمراہ راستوں پہ چل رہاہوتا۔میرے والدین پراللہ تعالیٰ کااحسان عظیم ہے اس نے ان کی اولاد کوراہ راست پرگامزن رکھاہواہے ۔اب میں اورمیراچھوٹابھائی گھرکی مالی حالت کوبہتربنانے کےلئے کام کررہے ہیں ۔میراچھوٹابھائی عارف بھی ایک اخبارمیں کام کررہاہے ۔اورغربت کے خاتمہ کے مشن پہ میرے ساتھ شانہ بشانہ اورقدم سے قدم ملاکرچل رہاہے۔وہ میراسہاراہے وہ میرے جسم کااہم حصہ ہے ،میرے جگرکاٹکڑاہے۔میں اپنے والدین اوربہن بھائیوں کی خوشی میں ہی اپنی خوشی تصورکرتاہوں۔ میرے والدین کی بہت سے عادتیں مجھ میں شعوری یالاشعوری طورپرمنتقل ہوگئی ہیں۔والدین اگرمیرے بھائی بہن بے چین ہوں تومجھے بھی سکون نہیں ہوتا۔بالکل اسی طرح وہ جذبہ اوراحساس جومیں نے اپنے والدین میںمحسوس کیا، اگرمجھے کوئی پریشانی ہوتی تھی وہ پریشان ہوجاتے تھے۔میرے والدنے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، ان کواگرکہابھی جائے کہ ،ایسانہیں ،ایساکہنا، وہ پھربھی سچ ہی کہہ دیتے ہیں،ان کی زبان ہمیشہ سچ ہی بولتے ہے۔زندگی بھرسچائی کاوالدصاحب نے ساتھ دیا،چاہے اس کاانہوں نے نقصان ہی کیوں نہ بھگتناپڑاہو۔مجھے آج محسوس ہوتاہے کہ میرے والدصاحب اگرسچے ،ایمانداراورمحنت کش نہ ہوتے تومجھے کہیں سے بھی وہ درس نہ مل پاتاجومیں نے اپنے والدصاحب اوروالدہ محترمہ سے سیکھاہے۔ میرے والدین کی ایک ایک بات میرے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔میری بھی کوشش رہتی ہے کہ ہرپل والدین کی خوشی کاساما ن پیداکروں ۔ آج میں اُن تمام لوگوں بالخصوص اپنے گاﺅں والوں کاجنھوں نے میرے والدکوادھاردیکرمیرے والدکی مددفرمائی کاشکریہ اداکرتاہوں ۔میں اپنے گاﺅں والوںاوردیگرلوگوں کامقروض ہوںجنھوں نے میرے والدین اورمیری مددفرمائی ۔میری ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ کسی سے بلندآوازیاتلخ لہجہ میں بات نہ کروں کیونکہ نہ جانے کب کسی نے میرے والدپراحسان کیاہو۔پھربھی اگرکسی شخص کی دل آزاری جانے انجانے میں ہوئی ہوتواس سے معافی کاطلبگارہوں۔

میراصحافتی سفرروزنامہ تسکین سے سال 2007 میں شروع ہوا،مگرباقاعدہ صحافت میں میرے قدم 2010 میں ہی پڑے ،جب روزنامہ اُڑان کے مدیراعلیٰ ،ایدیٹراورمنیجنگ ایڈیٹرنے مجھ ناچیزکی صلاحیتوں کوبھانپتے ہوئے اپنے اخبارمیں کام کرنے کےلئے منتخب کرلیا۔جان صاحب (ایڈیٹراُڑان)،تنویرصاحب (منیجنگ ایڈیٹر)اوراقبال شاہ صاحب (مدیراعلیٰ اُڑان ) کاشکرگذارہوں جنھوں نے میرے آگے بڑھنے کے راستے ہموارکیے اورمجھے صحافت کے پیشہ میں زورآزمائی کاموقعہ فراہم کیا۔اگرمجھے اُڑان کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کامظاہرہ کرنے کاموقعہ میسرنہ ملاہوتاتوشایدمیں آج گلیوں میں خوارہورہاہوتا۔یہ اللہ تعالیٰ کاہی احسان ہے جس نے اقبال صاحب، تنویرصاحب اورجان صاحب کی نظرکرم مجھ ناچیزکی طرف مائل کی اورانہوں نے مجھ پراحسان کیا۔مجھے تنویرصاحب ،جان صاحب اوربیتاب جے پوری کی حمایت اورشفقت کے سایہ میں اپنے چھ سالہ صحافتی سفرکے دوران اعلیٰ پایہ کے دانشوروں ، قلمکاروں ، شاعروں اورادیبوںکی صحبت میں بیٹھنے کاموقع میسراہوا،ان کی صحبت میں میرے اندرکاسویاہواقلمکاربھی جاگ اُٹھااوراس نے مجھے اپنے خیالات اورجذبات صفحہ قرطاس پراُتارنے کی ترغیب دی ۔دانشوروں کی صحبت کانتیجہ ہے کہ آج اپنے والدین ،آبائی گھراورزندگی کی مختصرجھلکی پیش کرنے سے قلم کونہ روک سکا۔یادوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ
دانشوروں کی صحبت ِپیہم کافیض ہے
بیتاب ورنہ صاحب ادراک یوں نہ تھا
(بیتاب جے پوری)

میرے والدین نے بھی اپنی آنکھوں میں سپنے سجائے ۔ بیمارہواتومیری اللہ تعالیٰ سے بخشنے کےلئے منتیں کیں۔ اولیاءاللہ کی درگاہوں اوردرباروں پہ جاکرگڑگڑاکردُعائیں مانگیں ،اللہ تعالیٰ والدین کی دُعاﺅں کوردبھی نہیں کرتا،شایداسی لیے اللہ تعالیٰ نے بچپن میںمجھے والدین کی دُعاﺅں کے صدقے زندگی عطافرمائی۔ میں بہت چھوٹاتھا۔دودھ پیتابچہ صرف رونااوربے مطلب کھل کھلاکرہنسناہی جانتاہے۔میں بچپن میں بہت بیمارتھا، کوئی حکیم ،کوئی ڈاکٹراورکوئی دربارمیرے والدین نے نہیں چھوڑاجہاں میری زندگی کے تحفظ کےلئے نہ گئے ہوں۔

کہاجاتاہے کہ دوابھی تبھی اثرکرتی ہے جب دُعائیں قبول ہوں۔میرامانناہے کہ اللہ تعالیٰ کومیرے والدین کی اس کے حضورسربسجودہوکراور گڑگڑاکردعائیں مانگنے کے صدقے ہی مجھے زندگی ملی ہے اورآج جوکچھ بھی ہوں والدین کی دُعاﺅں کے نتیجے میں ہی ہوں۔
 
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53809 views Ehsan na jitlana............. View More