حضوراکرمﷺ سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے با حکمت سوالات کے نمونے
(Ata Ur Rehman Noori, India)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ۹؍ سال رہیں اور ان ۹ سالوں میں آپ رضی
اﷲ عنہا نے خوب خوب علم حاصل کیا۔ نبی کریم ﷺسے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سوالات
کیا کرتی تھیں اور آپﷺجو جوابات عنایت فرماتے انھیں یاد کر لیتیں۔بل کہ خود
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خصوصی تربیت فرماتے
تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے کثیر تعداد میں احادیث مروی ہیں۔ آپ کا سوال کرنا
بھی حکمت سے خالی نہ تھا کہ اس وجہ سے امت کو دینی احکام و مسائل سیکھنے کو
ملے۔ ذیل میں چند روایتیں نقل کی جاتی ہیں جو ہمارے لیے بہترین سبق اور
تعلیم ہیں۔
(۱) ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے نبی کریمﷺسے سوال کیا کہ:
’’ یارسول اﷲ! میرے دو پڑوسی ہیں، فرمائیے کہ میں ہدیہ دینے میں ان دونوں
میں سے کس کو اولیت دوں ؟‘‘ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’
دونوں میں سے جس کے گھر کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو اس کو اولیت دو۔‘‘ (بخاری
شریف)
(۲)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ ایک دن میں نے اور (حضرت)
حفصہ (رضی اﷲ عنہا) نے نفلی روزہ رکھ لیا پھر کھانا مل گیا جو کہیں سے ہدیہ
آیا تھا۔ ہم نے اس میں سے کھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم تشریف لائے۔ میرا ارادہ تھا کہ میں آپﷺسے سوال کروں مگر مجھ سے پہلے
حفصہ (رضی اﷲ عنہا) نے پوچھ لیا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ
حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اﷲ! میں نے اور عائشہ (رضی اﷲ
عنہا) نے نفلی روزے کی نیت کی تھی۔ پھر ہمارے پاس ہدیۃًکھانا آ گیا جس سے
ہم نے روزہ توڑ دیا۔ پس فرمائیے کہ اس کا کیا حکم ہے؟ ‘‘ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم دونوں اس کی جگہ کسی دوسرے دن روزہ رکھ لینا۔‘‘
(۳) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’ قیامت کے دن لوگ
ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، بغیر ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ (جیسا کہ ماں کے پیٹ سے
دنیا میں آتے ہیں ) ‘‘ یہ سن کر اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
نے عرض کیا :’’ یارسول اﷲ! یہ تو بڑے شرم کا مقام ہو گا۔ کیا مرد و عورت سب
برہنہ ہوں گے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ ‘‘ اس کے جواب میں نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اے عائشہ ! قیامت کے دن کی سختی اس قدر
زیادہ ہو گی اور لوگ گھبراہٹ اور پریشانی سے ایسے بدحال ہوں گے کہ کسی کو
کسی کی طرف دیکھنے اور توجہ کرنے کا ہوش و حواس ہی نہ ہو گا۔ مصیبت اتنی
زیادہ اور شدید ہو گی کہ کسی کو اس کا خیال بھی نہ آئے گا۔‘‘
(۴)ایک مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ ’’ اے اﷲ! مجھے
مسکین زندہ رکھ اور حالت مسکینی میں مجھے دنیا سے اٹھا اور قیامت میں
مسکینوں کے ساتھ حشر فرما۔ یہ دعا سن کر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اﷲ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اﷲ! آپ نے ایسی دعا کیوں فرمائی؟‘‘ آپﷺنے
فرمایا:’’ اس لیے کہ بلاشبہ مسکین لوگ مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں
داخل ہوں گے۔ ‘‘ پھر فرمایا نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ :’’ اے عائشہ!
اگر مسکین سائل ہو کر آئے تو مسکین کو کچھ دیے بغیر واپس نہ کرو اور کچھ نہ
بھی ہو تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے دیا کرو۔ اے عائشہ ! مسکینوں سے محبت
کرو اور ان کو اپنے رب سے قریب کرو جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ تمہیں قیامت کے
روز اپنے سے قریب فرمائے گا۔‘‘(ترمذی شریف) بعض محدثین اور شارحین نے اس
حدیث میں مسکینی سے مراد باطنی مسکینی لی ہے ان کے مطابق نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم کا یہ دعا فرمانا کہ :’’ مجھے مسکین زندہ رکھ‘‘ یعنی آپﷺکا باطنی
مسکینی کو خشوع و خضوع کے ساتھ طلب کرناہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مسکینوں اور
فقرا کو نہ جھڑکیں اور اپنے باطن کو مسکینیت سے سجائیں یعنی اﷲ و رسول جل
شانہ و صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت و الفت میں جئیں اور مریں۔
(۵)ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص اﷲ تعالیٰ کی ملاقات
کو پسند کرتا ہے اﷲ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند فرماتا ہے اور جو شخص
اﷲ تعالیٰ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے اﷲ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو
ناپسند فرماتا ہے۔ ‘‘ یہ ارشادِ مبارک سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
نے عرض کیا :’’ یارسول اﷲ! موت ہم سب کو بْری لگتی ہے(لہٰذا آپ کے فرمان کا
مطلب یہ ہوا کہ ہم میں کوئی شخص بھی اﷲ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا
لہٰذا اﷲ تعالیٰ بھی ہم میں سے کسی کی ملاقات کو پسند نہیں فرماتا)‘‘ اس کے
جواب میں نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے جسے طبعی طورپر موت
بری لگی اﷲ کواس کی ملاقات نا پسند ہے بل کہ مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت
کا وقت نزدیک آ جاتا ہے تو اس کو اﷲ تعالیٰ کی رضا اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے
انعام و اکرام کی خوش خبری سنائی جاتی ہے، لہٰذا اْس کے نزدیک کوئی چیز اْس
سے زیادہ محبوب نہیں جو مرنے کے بعد اْسے ملنے والی ہے۔ اس وجہ سے وہ اﷲ
تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے اور اﷲ تعالیٰ بھی ایسے بندوں کی
ملاقات کو پسند فرما نے لگتا ہے اور بلاشبہ کافر کی موت کا وقت جب نزدیک
آتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے عذاب اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملنے کی اس کو
خبر سنائی جاتی ہے لہٰذا اْس کے نزدیک کوئی چیز اْس سے زیادہ ناپسند اور
بْری نہیں ہوتی جو مرنے کے بعد اْس کو ملنے والی ہے اسی وجہ سے وہ اﷲ
تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے ، چناں چہ اﷲ تعالیٰ بھی ایسوں کی
ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف) معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کے
نیک بندوں کی موت کا دن ایک طرح سے اْن کے لیے خوشی و مسرت کا دن ہوتا ہے
کیوں کہ وہ اپنے اﷲ سے ملنے والے انعامات اور اکرامات سے قریب ہونے جا رہے
ہوتے ہیں۔ جب کہ کافروں اور مشرکوں کے لیے موت ہی سے سختی کا دروازہ کھل
جاتا ہے۔ |
|