حقیقت میلادالنبی - تیرھواں حصہ
(Mohammad Adeel, Karachi)
8۔ صفا و
مروہ کی سعی سیدہ ہاجرہ علیھا السلام کی سنت ہے:-
اﷲ تعالیٰ کے مقبول اور مقرب بندوں سے صادِر ہونے والے ایسے اَفعال جو
انہوں نے عبادت کی نیت سے کیے ہوتے ہیں نہ بظاہر عبادت لگتے ہیں، مگر رب
کریم کی بارگاہ میں اتنے پسندیدہ اور مستجاب ہوتے ہیں کہ اُنہیں اِجتماعی
عبادت کا جزو بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی دو
پہاڑیوں کے درمیان دیوانہ وار دوڑنا ہے۔ باری تعالیٰ کو اپنی اس پیاری بندی
کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اسے مناسکِ حج کا حصہ بنا دیا۔ اسے اِصطلاح میں
سعی کہتے ہیں اور یہ حج و عمرہ کے واجبات میں سے ہے۔
یہ بات قطعی طور پر معلوم ہونی چاہیے کہ سعی کے سات چکروں کے مابین کوئی
مخصوص ذکر، اوراد و وظائف یا قرآنی آیات کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ البتہ آپ
اگر چاہیں تو قرآن مجید کی متعدد سورتیں پڑھ سکتے ہیں، مختلف دعوات،
تسبیحات اور مناجات کر سکتے ہیں، درود شریف کا ورد کر سکتے ہیں اور اگر کچھ
بھی زبانی یاد نہ ہو تو صرف اللہ کے نام کا ذکر کرتے رہیں یا جو کلمہ خیر
آپ کو یاد آ جائے پڑھ لیں، یہ سب جائز ہے۔ اگر کچھ بھی یاد نہ رہے تب بھی
خاموشی سے سعی کے سات چکر صفا اور مروہ کے درمیان مکمل کریں۔ صفا و مروہ کی
سعی کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے امام بخاری (194. 256ھ) اور دیگر ائمہ
حدیث و تفسیر نے متعدد احادیث و روایات بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت
درج ذیل ہے :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں :
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور شیر خوار حضرت
اسماعیل علیہ السلام کو (شام سے) مکہ لے آئے۔ ان دنوں مکہ میں کوئی شخص
آباد تھا نہ پانی کا نام و نشان تھا۔ پس آپ نے ان دونوں کو بیت اﷲ کے قریب
چھوڑ دیا اور ایک تھیلے میں چند کھجوریں اور مشکیزہ میں پانی بھی رکھ دیا۔
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام شام کی طرف واپس جانے لگے تو حضرت ہاجرہ
علیھا السلام اُن کے پیچھے پیچھے آئیں اور آواز دے کر ان سے پوچھا : اے
ابراہیم! آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر جا رہے ہیں
جہاں کوئی انسان بستا ہے نہ کوئی اور چیز۔ انہوں نے کئی بار اپنا سوال
دہرایا لیکن حضرت ابراہیم نے ان کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا۔ پھر انہوں نے آپ
سے پوچھا : کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں!
اس پر حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے کہا : یہ بات ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں
ہونے دے گا۔ پھر وہ اسی جگہ لوٹ آئیں۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام چل پڑے
یہاں تک کہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جب وہ مقامِ ثنیہ پر پہنچے تو
ہاتھ بلند کر کے اللہ کے حضور ان کلمات کے ساتھ دعا کی :
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ
عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ الصَّلاَةَ فَاجْعَلْ
أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ
الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَO
’’اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اِسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی)
بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب!
تاکہ وہ نماز قائم رکھیں۔ پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و
محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور اُنہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا
فرما تاکہ وہ شکر بجالاتے رہیںo‘‘
ابراهيم، 14 : 37
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان فرماتے ہیں :
وجعلت أم إسماعيل تُرضع إسماعيل، وتشرب من ذلک الماء، حتي إذا نَفِدَ ما في
السِّقاء عطشت وعطش ابنها. وجعلت تنظر إليه يتلوّي، أو قال : يَتَلَبَّطُ،
فانطلقت کراهية أن تنظر إليه، فوجدت الصَّفا أقربَ جبلٍ في الأرض يليها،
فقامت عليه، ثم استقبلت الوادي تنظر هل تري أحداً فلم تر أحداً، فهبطت من
الصفا حتي إذا بلغت الوادي رفعت طرف درعها، ثم سعت سعي الإنسان المجهود حتي
جاوزت الوادي، ثم أتت المروة فقامت عليها و نظرت هل تري أحدًا فلم تر أحدًا،
ففعلت ذلک سبع مرات.
’’حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلانے
لگیں اور اسی پانی سے پینے لگیں یہاں تک کہ ان کے مشکیزہ سے پانی ختم ہوگیا
جس سے وہ اور ان کا بیٹا پیاسے ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دو سالہ بچہ پیاس
سے تڑپنے کے باعث ایڑیاں زمین پر مار رہا ہے، اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے
وہ پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں۔ اسی جگہ قریب ہی صفا پہاڑی تھی اس پر
چڑھ کر وادی میں ادھر ادھر دیکھنے لگیں کہ کوئی نظر آجائے مگر انہوں نے کسی
کو نہ دیکھا۔ پس صفا سے اتر کر وادی میں آئیں تو دامن سمیٹ کر مصیبت زدہ
انسان کی طرح تیز دوڑ کر انہوں نے وادی کو عبور کیا، پھر مروہ پہاڑی پر چڑھ
کر ادھر ادھر کسی انسان کو دیکھنے لگیں مگر انہیں کوئی نظر نہ آیا۔ اس طرح
انہوں نے (صفا اور مروہ کے درمیان) سات چکر لگائے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فذلک سعي الناس بينهما.
’’یہی وجہ ہے کہ لوگ صفا اور مروہ کے درمیان (حضرت ہاجرہ علیھا السلام کی
سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے) سعی کرتے ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : واتخذ اﷲ إبراهيم خليلا، 3
: 1228، 1229، رقم : 3184
2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 100، رقم : 8379
3. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 105، 106، رقم : 9107
4. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 100، رقم : 8379
5. نسائي، فضائل الصحابة، 1 : 82، رقم : 273
6. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9 : 368، 369
7. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 177
خدائے ذوالجلال کو اپنی اِس پیاری بندی کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ صفا و
مروہ کو شعائر اﷲ قرار دے دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَة مِنْ شَعَآئِرِ اﷲِ.
’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘
البقرة، 2 : 158
اِس واقعہ کو تقریباً چار ہزار سال گزر گئے ہیں۔ اب نہ تو وہ وادی باقی رہی
ہے، نہ وہ پہاڑیاں اُس حالت میں موجود ہیں اور نہ ہی اﷲ کی اُس محبوب بندی
پر جو کیفیت بیتی تھی وہ باقی ہے۔ پھر بھی حجاج کرام حکمِ ایزدی کی تعمیل
میں سعی کرتے ہیں۔ جب حجاج کرام اور معتمرین (عمرہ کرنے والے) صفا و مروہ
کے اس حصے میں پہنچتے ہیں تو دوڑ کر گزرتے ہیں۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام
اپنے لختِ جگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لیے پانی کی تلاش میں ایک سے
دوسرے پہاڑ کی چوٹی تک اس گہری وادی کو عبور کرنے کے لیے دوڑی تھیں۔ اﷲ
تعالیٰ کو اپنی محبوب بندی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا یہ عمل بہت پسند
آیا، اور آج بھی ہم اُسی اضطراب و پریشانی کی کیفیت کو تصور و تخیل میں لا
کر اﷲ تعالیٰ کے حکم کی پیروی میں سعی کرتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔ |
|